Thursday, December 25, 2014

MILITARY COURTS IN PAKISTAN


فوجی عدالتیں

پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب  سویلین کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے فوج میں رائج عدالتی نظام کواپنایا جارہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے پہلے بھی جب  فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو ملک میں میاں نوازشریف کی حکومت تھی جب میاں نوازشریف کے دوسرے دور حکومت کے دوران 1998میں فوجی عدالتیں  کراچی میں قائم کی گئی تھیں۔

مسلح افواج میں  فوجیوں کی  عدالتیں جیگ برانچ کے تحت موجود ہیں اور تینوں مسلح افواج سے منسلک افراداور افسروں کے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں ۔یہی عدالتیں آرمی جوانوں کے خلاف مقدمات قائم بھی کرتی ہیں

Wednesday, December 24, 2014

COUNTER TERROR NARATIVE AND PAKISTAN


اب نہیں تو کب؟

یہ بات بالکل سامنے اور واضح ہے کہ اب اگر ریاست پاکستان میں لگی آگ بجھائی نہ جاسکی تو یہ کبھی نہیں بھجے گی،ہم 13سال اس بحث و مباحثے کی نظر کرچکے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہے یا ہماری نہیں ہے۔ اس تیرہ سال بحث نے ہمیں لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا،ہماری قومی قیادت اپنا ووٹ بینک بچانے اور فوجی قیادت خود ساختہ قومی مفاد کے نام پر اچھے اور برے دہشتگردوں کی تقسیم میں پڑی رہی نتیجہ لاشیں،خون اور بارود کے سوا کچھ بھی نہ نکلا،ہمارے اندر سے ان لوگوں کے لیے ہمدردی اچھل اچھل کر باہر آتی رہی ،ہم نے مذاکرات بھی کردیکھے،ہیلی کاپٹروں میں بھر کر ان کے ہمدردوں اور ماہرین کو وزیرستان لےجایا جاتا رہا،ہمیں بتایاجاتا رہا کہ یہ لوگ برے نہیں ہیں

Friday, December 19, 2014

REAL NAYA (NEW) PAKISTAN


حقیقی نیاپاکستان

دہشتگردی لعنت۔۔۔ایک ایسا ناسور جس نے پاکستان کو تباہ کیا،پاکستانی ریاست کو کہیں کانہ چھوڑا،پاکستانی معاشرے کو مارڈالا،یہاں تقسیم پیدا کی ۔۔ایک ایسی تقسیم کہ بڑی سے بڑی خلیج بھی کم ترلگنے لگی۔۔۔یہاں تک کہ دہشتگردی اور دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے کھلے عام اپنے نظریات کا پرچارکرنے لگے۔۔دہشتگردوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے والے ٹارگٹ پر رکھ لیے گئے۔۔دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے والی جماعتوں کی آوازدبادی گئی،دہشتگردوں کے خلاف خاموش رہنے والوں کو پذیرائی ملی۔۔۔۔کسی نے حکیم اللہ محسود

Monday, December 15, 2014

PTI PLAN C AND PAKISTAN


پلان سی یا نفرت کی کاشت

پرامن احتجا ج اور پرتششداحتجاج میں صرف رویوں کا ہی فرق ہوتا ہے پرامن احتجاج میں لوگ ٹائر جمع نہیں کرتےبلکہ برداشت اکٹھی کرتے ہیں،سڑکیں بند کرنے کےلیے ٹرالیاں یرغمال نہیں بناتے بلکہ سڑکوں کے کناروں پرکھڑے ہوکر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں،پرامن احتجاج میں میڈیا کو راستہ دیاجاتا ہے اس کا راستہ روکا نہیں جاتا،لاہور میں تحریک انصاف کا احتجاج ایسا پرامن تھا کہ امن کی نئی تعریف مرتب کردی گئی ۔جومعاشرہ اختلاف برداشت کرنےکی ہمت نہیں رکھتا اس کو ختم ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور ہم اس جانب سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔نیاپاکستان بنانے والوں اور پھر اس میں

Monday, December 8, 2014

PTI PROTEST IN FAISALABAD


بری مثالیں برے نتائج

تحریک انصاف کو مبارک ہو۔۔۔ اسے سیاست کےلیے ایک لاش مل گئی۔۔لیکن افسوس یہ لاش میرے اور آپ جیسے ایک غریب مزدور کی ہے،کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی تاجر کی نہیں اور قیامت تک ہوبھی نہیں سکتی کہ لیڈرلاش پر سیاست چمکانے اس وقت پہنچتے ہیں جب راستہ صاف ہوچکاہوتا ہے۔ لیڈرکی نفرت بھری تقریروں کو سچ سمجھ کر پاگل عوام جب جان دینے

Friday, December 5, 2014

MARYAM NAWAZ AS SPIN DOCTOR



مریم نامہ

میری روزاول سے یہی رائے ہے کہ جس کو بھی عوام اپنے حمکران کے طور پر چن لیں،پھر ملک کو کس طرح چلانا ہے اور اپنی ٹیم کیسے منتخب کرنی ہے؟ کس اہم کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنا ہے،کس کونکالناہے، یہ اس کا اختیارہونا چاہیئے۔ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی ہوتا ہے منتخب سربراہاں اپنی مرضی سے ٹیم منتخب کرتے اور نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظام ان ممالک میں کامیاب ضرور ہے یہاں احتساب کا خود کار نظام اچھی طرح عمل پذیر ہے

Saturday, November 29, 2014

PTI JALSA OF 30th NOVEMBER


تیس نومبرکوکیاہوگا؟


تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنے کےتین ماہ بعدکےحالات حکومت کےلیےکافی حد تک تبدیل ہوچکے ہیںاور یہ تبدیلی وفاق میں حکومت کرنے والی مسلم لیگ نوازکے حق میں کافی حد تک مثبت ہوتی نظر آرہی ہے۔14اگست کوحالات تحریک انصاف کی حمایت کررہے تھے لیکن آج ساڑھے تین ماہ بعد کھیل کاپانسہ پلٹتادکھائی دے رہاہے۔اگست میں حکومت مکمل دباؤ میں دکھائی دے رہی تھی لیکن کسی حد تک اچھی سیاسی حکمت نے اب حکومت کے لیے حالات سازگار بنادیے ہیں

Friday, November 28, 2014

CONDITIONS OF MISSION D-CHOWK

تحریک انصاف کے30نومبرجلسہ کامعاہدہ

اسلام آباد کی انتظامیہ اور تحریک انصاف کے جلسہ کے آرگنائزرزکےدرمیان 30نومبرکے جلسے کےلیے باقاعدہ معاہدہ طے پاگیا ہے 42نکات پر مشتمل اس

Tuesday, November 25, 2014

PUTTING--W-- IN SAARC


SWAARC

Defining word ‘cooperation’ seems so awkward in SAARC where one of its member refuse to use a bulletproof car of another member country and bagged a vehicle with him onboard a plane and look at the lovely host Nepal that own only two bulletproof cars in the country using its President and primer and what can be drawn from this 18th summit of 8 nation club where, 2 main player of the forum dose even not love to face each other, thus no meeting

Sunday, November 23, 2014

PAKISTANI POLITICS AND REAL ISSUES

حقیقی مسائل پر پاپولرسیاست

پاکستانی قوم اور اس پر حکومت کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظرہی نہیں آتا۔۔اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ ہم کسی مسئلے کو اس وقت ہی دیکھتے ہیں جب وہ ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوکر چنگھاڑناشروع کردیتاہے کہ میں مسئلہ ہوں میراجگاڑکیے بغیر اب آگےبڑھنا ممکن نہیں ۔دوسرا یہ کہ ہماری ناک کے سامنے مسائل کا اتنابڑا ہجوم ہے کہ مزید کسی چیز کے دکھائی دیکھنے

Friday, November 21, 2014

MUSHARAF TREASEN CASE...ATRILE TURN


پھرمشرف کوبری ہی سمجھیں؟

مشرف کے خلاف غداری کامقدمہ چلانے کےلیے بنائی گئی خصوصی عدالت کے آنے والے فیصلے کےبعد یہ کہاجاسکتاہے کہ مشرف کا ٹرائل ختم ہوگیااور اس کا ٹرائل شروع کرنےوالی مسلم لیگ ن کی حکومت کا ٹرائل شروع ہوگیاہے۔مشرف کےلیے فی الحال تو یہ ایک عمدہ فیصلہ ہے کہ جیسے یہ معاملہ اب ختم ہی

Thursday, November 20, 2014

PTI JALSA IN LARKANA,SIND


سندھیوں کا نجات دہندہ کون؟

کپتان کے اعلانات سے تو یہ محسوس ہوتاہے کہ وہ لاڑکانہ میں جلسہ کرنے نہیں محمود غزنوی کی طرح کسی سومنات کامندر توڑکر اس میں چھپا خزانہ نکالنے جارہے ہیں۔کیا وہ واقعی سومنات کے اس مندر یعنی سندھ کو پیپلزپارٹی سے آزاد کراسکیں گے اس سوال کا جواب ابھی کسی ارسطو کےپاس بھی نہیںہے اور مجھے یقین ہے اس ماڈرن محمود غزنوی کے پاس بھی نہیں ہوگا جو سندھیوں کو پیپلزپارٹی کے وڈیروں کی غلامی سے آزادکرانے کےلیے اسی طرح کے ایک وڈیرے

Sunday, November 16, 2014

POLIO, A DESASTRIOUS FOR PAKISTAN


کیاشرمناک لمحہ آنے والا ہے؟


20ویں صدی کے آغاز میں شروع ہونے والا پولیو جیسا  موذی مرض اب دنیا میں موجود نہیں ہے۔لیکن پاکستان میں اس سال250کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور سفری پابندیاں ہمارا دنیا بھر میں منہ چڑارہی ہیں۔1952میں امریکا میں58ہزارافراد پولیوکا شکار ہوئے اورصرف دس سال بعد1962میں امریکا نے اس مرض کو شکست دے کر اپنے شہریوں کو محفوظ بنالیا۔یورپ2002میں اس مرض سے آزاد ہوگیا۔اور آخرکار2014میں پاکستان کے سوا ہماراساراخطہ

Sunday, November 9, 2014

WHO KILLED BIN LADAN?


جھوٹ کےپاؤں

اسامہ بن لادن پر اتنا کچھ لکھا جاچکاہے اور لکھا جاتا رہے کہ شاید جنوں اور پریوں پر بھی اتنی کہانیاں نہ لکھی گئی ہوں، اسامہ بن لادن کا کردار اس کی زندگی اور پھر موت بھی کچھ جنوں اور پریوں کی کہانیوں سے ہی مشابہت رکھتی ہے ۔سنا ہے کہ وہ مرچکے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے نہ ان کی لاش دیکھی اور نہ ہی کہیں قبر موجود ہے 2001میں ایک دعویٰ آیا تھا کہ ان کے گردے فیل ہوچکے ہیں اور اسی عارضے کے سبب ان کا انتقال ہوگیا ہے یہ خبریں اس وقت باری باری سبھی ممالک کے میڈیا میں شائع ہوتی گئیں لیکن جس القاعدہ کے وہ سربراہ بتائے جاتے تھے اس نے کبھی تصدیق نہیں

Saturday, November 8, 2014

CHRISTIAN COUPLE LYNCHING IN QASOOR


بھٹی سےمٹی تک

ہمارا مذہب ہماری پہچان ہے لیکن اسی مذہب کا استعمال ہمیں شرمندگی کے پسینوں میں نہلائے جارہا ہے ،کہانیاں بہت ساری ہیں لیکن اصل کہانی یہ ہے کوٹ رادھا کشن میں سجاد اور شمع بی بی کوجلانے کاانسانیت سوزسانحہ بھی ایسے دوسرے واقعات کی طرح صرف کہانی بن کر رہ جائے گا جسے شائد انسانی  اور اقلیتی حقوق پر دکان چلانے والی انجمنیں اپنے ریکارڈ میں ریفرنس یا زیادہ زیادہ سالانہ رپورٹ لکھنے کےلیے استعمال کریں گی۔میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے ریا

Monday, November 3, 2014

HOW TO END TERRORISM FROM PAKISTAN?


دہشت گردی ختم کرنےکا نسخہ

قومیں حادثات کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ سانحات کے بچاو کےلیے اقدامات کرتی ہیں اور نہ ہی سانحات ہوجانے کے اگلے دن اس جگہ پر نعرے مارنے سے یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ کوئی زندہ قوم ہے جسے آسانی سے قتل تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا حوصلہ پست نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب ہی امریکا کی مثال دیتے ہیں ایک نائن الیون نے امریکا کوہمیشہ کےلیے محفوظ بنادیا تو اس کو سمجھنے کےلیے کوئی ارسطو کا دماغ نہیں چاہیئے بلکہ بہت ہی سادہ ترکیب ہے کہ انہوں نے مزید سانحات کے ہونے کا انتظار نہیں کیاانہیں روکنے کےلیے دوسرے ملکوں پر چڑھائی سے بھی گریز نہ کیا(یہ بحث الگ ہے کہ انہیں اس کا اختیار تھایانہیں)

کیا ہم اس طرح دہشتگردی کا سد باب کرسکتے ہیں یا نہیں۔۔اس کا جواب اتنا سادہ نہیں ہے کیوں کہ ہم ایسی قوم ہیں جس نے ابھی تک یہ ہی طے نہیں کیا کہ دہشت گردی جائز ہے یا ناجائز،اپنے ہی ہم مذہبوں کا قتل حلال ہے یا حرام،مسلمانوں کی زندگی ختم کرکے جنت کمائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ہم ابھی یہ بحث بھی نہیں سمیٹ پائے کہ

Sunday, November 2, 2014

MISBAH RESHAPING CRICKET HISTORY


مصباح الحق۔۔ٹُک ٹُک سے ٹکاٹک تک

میاں والی کا ایک نیازی اسلام آباد کے ڈی چوک پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں مصروف ہے تو دوسرے نیازی نے دبئی میں آسٹریلیا کی عزت کاجنازہ نکال دیا ہے پہلے نیازی کی پرفارمنس سے تو بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتاہے بلکہ اچھا خاصا اختلاف ہے اسے پاکستان کی ترقی میں بڑا۔۔روڑا۔۔کہا جارہا ہے لیکن دبئی والے نیازی نے دنیا میں اپنی کرکٹ کے ذریعے پاکستان کی جے جے کار کراڈالی ہے ۔میاں والی سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ ایم بی اے مصباح الحق نے آج واقعی ٹیم کی قیادت کی ہے ۔بگ تھری کے ایک بڑے چودھری 

Friday, October 31, 2014

AFTER GULLO BUTT


اورکتنی دیر میاں صاحب؟

سانحہ ماڈل ٹاون کا ایک ضمنی کردار بری شہرت سمیٹ کروقتی طور پر اپنے انجام کو پہنچ گیا یہ الگ بات کہ ہمارا عدالتی نظام مجرموں کے لیے رحمت اور مظلوم کےلیے ایک ایسا شکنجہ ہے جس میں وہ انصاف کی خاطر خود جاکر پھنستا ہے اور دھنستا ہی چلا جاتا ہے یہ سسٹم اسے اتنا تھکا دیتا ہے کہ وہ انصاف سے توبہ کرکے خود ہی مجرم کی رہائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔اسی نظام سے فائدہ اٹھا کر گلو بٹ نامی ڈرامے باز اور پولیس ٹاوٹ گرد بیٹھنے پر جیل سے باہر آجائے گا۔

Sunday, October 26, 2014

MQM,PPP,PTI AND MOHAJIRISM


مہاجرسےمہاجرتک

ایم کیوایم المعروف متحدہ قومی موومنٹ 30سالوں کی جدوجہد کے بعدبھی کراچی اورحیدر آباد سے باہر نہ نکل سکی اور پیپلزپارٹی 40سال کی سیاست کے بعد بھی کراچی اور حدیر آباد میں داخل نہ ہوسکی توکیا دونوں جماعتوں نے کوئی نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ایک دوسرے کے چھابے کی طرف جھانکنے کےبجائے اپنے اپنے برتن سے ہی اطمینان سے کھایا جائے؟جب سے الطاف حسین نے مہاجروں کو اکٹھا کرکے ان پر سیاست شروع کی 

Friday, October 24, 2014

PAKISTAN,S JUDICIAL SYSTEM

توہین عدالت۔۔؟
(ایک تلخ مکالمہ)

آدھی پارلیمنٹ بھی گھر چلی جائے تو کوئی پروا نہیں ،صادق اور امین کا فیصلہ کرکے رہیں گے
مائی لارڈ۔۔۔اس وقت کیوں ؟جب الیکشن ہورہاتھا ،سکروٹنی کے وقت کیوں نہیں؟
ہمارے پاس تو کیس اب آیا ہے ۔۔۔بلدیاتی الیکشن آرہا ہے ہمیں مثال قائم کرنی ہے۔۔
حضور اس وقت اگر آپ نے وزیر اعظم کونااہل کردیا تو سب اس کو سیاسی فیصلہ کہیں گے ۔۔۔ایک اور بدنامی آپ کے ادارے کے گلے پڑجائے گی
ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتال۔۔جو کوئی جیسا چاہے کہتاپھرے ہم نے آئین دیکھنا ہے۔۔
کیا صرف آپ نے ہی آئین دیکھنا ہے۔۔آپ کے ماتحت عدلیہ نے آئین کیوں نہیں دیکھنا ؟
ہم صرف اپنے جوابدہ ہیں کوئی کیا کرتا ہے یہ اس کا معاملہ ہے۔۔
مائی لارڈ۔۔۔باہر اسکرپٹ کی باتیں چل رہی ہیں ۔۔سپریم کورٹ کو اس کا حصہ بتایا جارہا ہے ۔۔

Wednesday, October 22, 2014

END OF DHARNA FROM D CHOWK





طاہرالقادری نےدھرناکیوں ختم کیا؟

رشتے اگر اللہ بنائے توچاہتے نہ چاہتے نبھائے ہی جاتے ہیں،مجبوریوں میں بھی چلتے رہتے ہیں لیکن انسانوں کے بنائے رشتے عارضی بھی ہوتے ہیں اور مفاد پر مبنی بھی،جب تک مفادات مشترک رہیں رشتہ بنا رہتاہے جس دن مفاد تبدیل ہوا وہ دن رشتے کا آخری ہی سمجھو۔ اسی طرح سیاسی میدان میں اتحادفطری ہوں تو چلتے رہتے ہیں اور اگر غیر فطری ہوں تو


Monday, October 20, 2014

NAWAZ RULE UNDER THREAT?



تھری ۔۔۔۔۔ٹو۔۔۔۔۔ون۔۔۔۔؟

پاکستان میں نفرت اور تعصب اگر اسٹاک مارکیٹ میں ہوتے ان کے شیئر ہولڈر کبھی خسارے میں نہ جاتے،نفرت کے سوداگر سب سے زیادہ کمارہے ہوتے،اگر نفرت کی بیرون ملک سرمایہ کاری ہوتی تو پاکستانی سرمایہ کار سب سے بڑے انوسٹر ہوتے۔وطن عزیر میں ہر صنعت زوال پذیر ہے سوائے اس صنعت کے ،ہرکاروبارٹھپ پڑاہے سوائے اس کاروبار کے،ہردکان بند پڑی ہے سوائے اس دکان کے

Saturday, October 18, 2014

PPP JALSA IN KARACHI.....BILAWAL LAUNCHED

سی ڈی لوڈ ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔۔

کوئی سامنے آکر اعتراف کرے یا نہ کرے لیکن اندر سے سب پریشان ہیں۔۔عمران خان کی تمام تر بے وقوفیوں،غیرجمہوری رویوں،ضد اور اڑیل پن کے باوجود ایک بات حقیقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کا اثر لےکر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے ہیں۔حکومت کو بھی پرفارم کرنا پڑے گااس کے بغیر میدان میں ڈٹے رہنا ممکن نہیں ہوگابصورت دیگراپمائرانگلی کھڑی کرے یا نہ کرے میاں صاحب کو کریز چھوڑنی پڑے گی۔

Friday, October 17, 2014

ELECTION IN MULTAN NA 149






ملتان الیکشن میں منافقت کی جیت


عجب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

ہم بھی کیا اعلیٰ پائےکے منافق ہیں کہ پراکسی وار لڑنا  محبوب ترین کام ۔۔۔ پوری دنیا کی کٹھ پتلیاں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں اور ہم اپنی اوقات سے باہر جاکر اپنی پتلیاں نچانے کی بات کرتے ہیں۔افغان جنگ  میں روس ہارجائے تو کریڈٹ اہنے نام کہ ساری جنگ ہم نے ہی لڑی اور پلان کی لیکن اگر امریکا بہادر مارمار کر دنبہ بنادے تو صاف کہہ دیاجائے کہ ہمارا اس جنگ میں کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے بھی 

Sunday, October 12, 2014

DR, TAHIR UL QADRI'S POLITICAL STRUGGLE

ڈاکٹرطاہرالقادری کی سیاسی جدوجہد

’’تحریک منہاج القرآن کے قیام کا مقصد پاکستان میں مصطفوی انقلاب برپاکرنا ہے،اس مصطفوی انقلاب کامطلب ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کا نظام قائم کیاجائے،مسلمانوں کا قبلہ واشنگٹن سے بدل کر مدینہ منورہ بنادیاجائے۔اس انقلاب کو برپا کرنے کےلیے قوت نافذہ (اقتدار،حکومت) کاحصول ضروری ہے،،

یہ اقتباس میں نے تحریک منہاج القرآن کے منشور پر مبنی کتابچے سے لکھا ہے جو 1980کی دہائی میں شائع ہوا۔

Monday, October 6, 2014

PAKISTAN and PAKISTAN


نوحہ پاکستان کا

65 سالوں میں  پاکستان میں اگر کسی چیز نے تیزی سے ترقی کی ہے تو وہ بچےپیدا کرنے کی اسپیڈ ہے۔اگر کوئی چیز بڑھی ہے تو اس ملک کی آبادی ہے۔۔زمین وہی ہے اس پر بسنے والے انسان بڑھ گئے ،وسائل وہی ہیں استعمال کرنے والے اندھا دھند پھیل گئے ہیں۔اسکول اتنے ہی ہیں پڑھنے والے بے حساب، جس کے پاس وسائل ہیں اس کے بچے انگریزی اسکولوں میں اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کے بچے دیہاڑی پرچلے جاتے ہیں۔

Tuesday, September 30, 2014

POLIO AND PAKISTAN


پولیوزدہ نیاپاکستان

دس ماہ میں 235 بچے پولیو کا شکار ہوگئےتو کون سی قیامت آگئی۔۔اس سال پاکستان نےپولیو میں اپنا ہی ریکارڈ توڑدیا ہے تو کون سی شرم کی بات ہے،عالمی دنیا نے اپنے ممالک کا سفر کرنےپرپابندیاں لگادیں تو کون سی فکر کی بات ہےہمارے تومجموعی رویے ہی پولیو زدہ ہیں

Wednesday, September 17, 2014

A RUDE AWAKENING.....FLOOD COMMISSION REPORT 2010


چڑیاکےشکارکےلیےتوپ کااستعمال


جسٹس منصورعلی شاہ کی رپورٹ کے ٹائٹل کاعکس

  اکتیس جولائی 2010دن ڈھائی بجے جب پاکستان کی اکثر آبادیاں سیلاب میں ڈوب رہی تھیں،دریائے سندھ اوقات سے باہر کسی کے قابو میں آنے کےلیے تیار نہیں تھا،حکومت اس سیلاب کے آنے اور نقصانات سے بچنے کی پوری تیاری نہ کرکے شرمندگی کے سیلاب میں بہی جارہی تھی کہ میانوالی میں دریائے سندھ پربنے جناح بیراج کےقریب شگاف پڑگیا،معاملہ حکومتی کنٹرول سے باہرنکل گیا توضلعی انتظامیہ میں سے کمشنر میانوالی محمد افضل اورڈی پی او راناعبدالجبار نے اس شگاف کے قریب واقع میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجرسے مدد کی درخواست کی اور کہاکہ آپ کچھ مشینری ہمیں دے دیں تاکہ اس شگاف کو پر کیاجاسکے۔سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجرمحمد اکرم نے فیکٹری مالک محمد سعید سہگل سے اجازت طلب کی فیکٹری مالک سعید سہگل نے اپنے جنرل مینیجر کو اجازت دیتے ہوئے فوری انتظامیہ کی مددکرنے کوکہا،مالک سے اجازت ملنے کےبعد جنرل مینیجر نے20ڈمپراور مل کے تین ملازم روانہ کردیےاس وقت دن کے ڈھائی بجے تھے۔یونہی وہ لوگ مشینری لےکر نکلے تو جناح بیراج سے کافی دور ان کو روک دیاگیا،انہیں بتایاگیا کہ اس وقت وزیراعلیٰ جناح بیراج کا دورہ کررہے ہیں اس لیے کوئی بھی ان کے وہاں سے جانے تک جناح بیراج پر نہیں جاسکتا۔یہ ٹیم جو ایمرجنسی میں شگاف پر کرنے کےلیے بلائی گئی تھی وہیں پھنس کررہ گئی اور پانی آبادیوں کو ڈبوتاہواآگے بڑھتا رہا۔ڈھائی گھنٹے بعد وزیراعلیٰ جناح بیراج سے واپس گئے تو اس ٹیم کو آگے جانے کی اجازت ملی ۔یہ ٹیم جب شگاف کے مکان پر پہنچی تو دن کے ساڑھےچار بج چکے تھےاور بہت دیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔
یہ بیان میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجر محمد اکرم نے2010کےسیلاب کی تحقیقات کےلیےبنائے گئے لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے سامنے دیا۔اس کمیشن کی سربراہی جسٹس منصور علی شاہ نے کی انہوں نے چار سوصفحات پر مشتمل رپورٹ لکھی جس کا عنوان انہوں نے رووڈ اویکننگ رکھا جو جسے پاکستان میں سیلاب اور محکمہ آبپاشی کی کوتاہیوں کی نشاندہی کے لیے مشعل راہ اور تاریخی دستاویز قراردیاجاسکتاہے۔۔


فیکٹری کے جنرل مینیجر کے بیان کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ قدرتی آفات کے بعد متاثرین کی بحالی کے لیے حکومتی کاوشوں کو بجا طور پر مثبت قراردیاجسکتاہے لیکن ایمرجنسی کے دوران وزرائے اعلیٰ سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کے دورے کسی صورت فائدہ مند نہیں ہوتے۔انہوں نے کہاکہ یہ اس سسٹم کی ناکامی اور نظام کے منہ پر بدنما داغ ہے کہ جس نظام کو خود بخود کام کرنا چاہیئے اس سے کام لینے کےلیے دھکا لگانا پڑتاہے اور جو کام مقامی سطح پر ایک چیف انجیئر یاایکسئین کو کرنا چاہیئے وہ کام ایک وزیراعلیٰ کو کرنا پڑتا ہے یا اس کی رفتارتیز کرنے کےلیے ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو آنا 
پڑتا ہے ۔جس سے ایک تو بھاری رقم خرچ ہوتی ہے اور دوسرا تمام بیوروکریسی اور اس علاقے کی حکومتی مشینری اس دورے کی دیکھ بھال میں لگ جاتی ہے یوں بہت سی ضروری چیزیں اور فوری توجہ کے طالب مسائل  حل نہیں ہوپاتے۔


اس طویل رپورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے اور بھی بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی انہوں نے محکمہ آبپاشی پنجاب کے اس وقت کے سیکرٹیری رب نواز کو اس ساری تباہی کا مرکزی ملزم قراردے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کی سفارش کی لیکن پنجاب حکومت نے انہیں صرف تبدیل کرکے ایک وفاقی محکمے کا سیکریٹری لگادیا ۔چونکہ رب نواز کا تعلق بیوروکریسی میں ڈی ایم جی جیسے طاقتور گروپ سے تھا اس لیے پنجاب کی حکومت اس کے خلاف کارروائی کی جرات ہی نہ کرپائی۔

کمیشن نے واضح کہاکہ دریاؤں کے قریبی علاقوں میں تعمیرات نہ ہونے دی جائیں اور وہاں آبادیاں قائم نہ کرنے دی جائیں کہ یہ لوگ وقت آنے پر حق ملکیت ظاہر کرکے اٹھنے سے ہی انکار کردیتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔لیکن حکومت یہ بھی نہ کرپائی۔

حکمرانوں سمیت ہم پوری قوم کا وطیرہ ہی ڈھنگ ٹپاؤ ہے ۔جب آفت سر پر پڑتی ہے تو ایک سرے سے دوسرے تک بھاگے پھرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس آفت کا پیشگی اندازہ لگانے اور تیاری کی زحمت نہیں کرتے۔اس نظام کو مضبوط نہیں کرتے۔ملک میں ترقی ریاست کی مضبوطی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے اس نظام کو اس قدر فعال بنانے کی ضرورت ہے کہ چڑیا کے شکار کےلیے غلیل کےبجائے توپ کے استعمال سے بچاجائے۔

Thursday, September 11, 2014

NARATIVE OF HATE AND JINNAH'S PAKISTAN


اللہ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان

جنگ اچھائی اور برائی میں ہوتی تومیرے جیسا برے سے برے حالات میں بھی پرامید رہنے والایہ گمان رکھنے میں حق بجانب تھا کہ کبھی نہ کبھی اچھائی کی جیت ہوہی جائے گی۔جنگ اگرنیکی اور بدی میں ہوتی تو نیکی کے غالب آنے کی توقع بدرجہ اتم موجود تھی۔جنگ اگر امن اور بد امنی میں ہوتی تو امن کی جیت کی توقع کی جاسکتی تھی ۔جنگ اگرمحبت اور نفرت میں ہوتی تو محبت کے میدان مارنے کے امکانات ہرحال میں روشن دیکھے جاسکتے تھے لیکن کیا کریں یہاں تو جنگ ہی نفرتوں کے درمیان ہے۔اچھے سے اچھا نتیجہ بھی نکلے گا تو نتیجہ نفرت ہی ہوگا یا کم یا زیادہ نفرت ہوسکتی ہے ۔نفرت تو بحرحال نفرت ہی ہے اچھی تو ہونہیں سکتی۔یہاں صرف نفرتوں کے بیج بوئے اور نفرتوں کا پھل کاٹ کر اسے جیت کانام دے لیاجاتاہے،مختلف تاولیں کرکے خود کو اور اس نفرت کی جنگ میں ساتھ دینے والوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر وہی جنگ دوسرا جیت لے تواس سے بڑا معرکہ بپا کرنے کی تدبیریں
کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم ہے،یہ ملک اسلام کے نام پر بناہے،اسلام کے لیے بنا ہے اسلام کا قلعہ ہے یہ ۔ایسے نعرے صبح شام گونجتے ہیں۔قائد اعظم اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ہاں قائد اعظم اس ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہوں گے اسی لیے ان کو ایسے مرنے دیاگیا کہ ان کی ایمبولیس پٹرول نہ ہونے پر بروقت اسپتال ہی نہ پہنچ سکی۔اور یہاں انہوں نے آخری دنوں میں قیام کیا اس کو ایسے جلایاگیا کہ اس راکھ میں نفرتوں کے الاو جلتے دیکھے جاسکتے تھے۔جس قائد نے یہ معاشرہ بنانے کا جرم کیا اس کی ایک ایک نشانی کو مٹانے کےلیے پوری رات محنت کی گئی،اور تواور ان مناظر کو پوری طرح فلمایا اور ریلیز کیاگیا کہ سب لوگ دیکھ لیں اسلامی معاشرے کاخواب ایسے شرمندہ تعبیر کیاجاتاہے۔

اسلام کی تونہیں کہ آفاقی دین ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ بھی،  لیکن مسلمانوں کی تاریخ تو ایسی ہی ہے،نفرتوں سے بھرپور،محلاتی سازشوں سے اٹی ہوئی،قدم قدم پر دھوکہ دہی اور نفرتوں کی عمارتیں بنی پڑی ہیں۔سلطنت بنو امیہ کاذکر ہو یا برصغیر کے مغلوں کی بادشاہت،شہنشاہوں کے سرشہنشاہوں اور شہزادے شہزادوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔عدم برداشت اور سب کچھ بڑھ کر چھین لینے کی روش نے ہمیں کہیں کانہیں چھوڑا۔ہماری پستی کایہ عروج کہ جب بھی کسی اچھائی کی مثال دیناہوتوچودہ سو سال کی تاریخ چھوٹی پرجاتی ہے اور مغربی معاشرے ہمارے لیے مشعل راہ بنے نظر آتے ہیں۔

عدم برداشت نے اس ملک پاکستان کی بنیادیں اس قدرہلاکررکھ دی ہیں کہ ہمیں دوسرے مسلک اور نظریات سے اختلاف کرنے والا شخص زہر لگتاہے۔ہم عجب مخلوق بن گئے ہیں کہ جو چیز اللہ نے بات کرنے کےلیے عطا کی ہے اس کا استعمال کرنے کے ہی روادار نہیں ہوتے ہم زبان کے بجائے ہاتھ سے بات کرنے میں یدطولیٰ حاصل کرچکے اور ہاتھ سے بھی آگے بندوق کادھانا بولتاہے۔کوئی اس بات کا عزم لے کر سوتاہے کہ کل جو شیعہ ملے گااس کو قتل کرکے صحابہ کرام کے دفاع کا حق اداکردوں گا اور کوئی اس تاک میں رہتا ہےکہ معاذاللہ حضرت علی کو پہلا خلیفہ نہ قبول کرنے والے کو زندہ چھوڑدیا تویوم محشر کہیں کافروں سے نہ اٹھایاجاوں۔کل شمس الرحمان معاویہ قتل ہوتاہے تو آج ناصر عباس پر زندگی تنگ ہونا ضروری ہے۔صبح مولانا علی اکبر کمیلی کاجنازہ اٹھتا ہے تو شام کو مولانا مسعود کی زندگی کا چراغ گل کرنا فرض بن جاتاہے۔کیا یہ سب کچھ عدم برداشت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟

کیا یہ بھی عدم برداشت ہی نہیں کہ عمران خان صاحب  ایک کنٹینر چڑھ کر ہر روز سچ جھوٹ بولتے رہے کہ انہیں کسی اور کے ہاتھ میں طاقت گواراہی نہیں؟

دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب ایک کنٹینر میں بند رہے۔جس کنٹینر میں چار چار ٹی وی نصب تھے کہ تمام چینلز کی مانیٹرنگ بھی کرنی ہے، یہ بھی جاننا ہے کہ کون کون کیا کہہ رہا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ڈاکٹرصاحب عالی شان کنٹینر میں بیٹھے ہیں تو اس کو جواب یہ دیناہے کہ کون کہتاہے کہ یہ عالی شان ہے۔یہ تو ایک درویش کی کٹیاہے۔ڈاکٹر صاحب جن درویشوں کے قصے آپ نے ہمیں سنائے ہیں ان درویشوں کو تو شہروں سے وحشت تھی وہ انسانوں سے دور بھاگتے اور جنگلوں میں خوش رہتے تھے آپ کیسے درویش ہیں کہ ایک کے بجائے دوملکوں کی شہریت کی ضرورت پڑگئی؟

جس قائد کو اس  کی قوم نے مطلب نکل جانے پر چلتا کیا وہ کیساپاکستان چاہتے
تھے کہ جب آپ زیارت ریزیڈنسی میں قیام پذیر تھے توصحت اتنی خراب ہوئی کہ آپ نے کھانا پینا انتہائی کم کردیا،ڈاکٹر نے محترمہ فاطمہ جناح کومشورہ دیا کہ قائد کوکھانے کی طرف راغب کرنے کےلیے ان کا پسندیدہ کھانا بنایاجائے،محترمہ فاطمہ جناح نے بتایاکہ بمبئی میں ایک باورچی تھا جس کے ہاتھ کاکھانا قائد بہت شوق سے کھاتے تھے وہ باورچی اب لائلپور(موجودہ فیصل آباد) میں ہے۔وہ اگر آجائے تو مسئلہ حل ہوسکتاہے۔انتظامیہ کو حکم ہوا اوپر سے نیچے تک مشینری حرکت میں آئی اور باورچی زیارت پہنچادیاگیا،باورچی نے کھاناپکایا جوقائد کو پسند آیا پوچھاکس نے پکایامحترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا آپ کے بمبئی والے خانساماں نے،پوچھا وہ یہاں کیسے پہنچا؟توانہیں سارا قصہ سنایاگیا۔یہ سب سن کر قائد سخت ناراض ہوئےاورفرمایاکہ میری ذات کےلیے سرکاری ذرائع اور مشینری کیوں استعمال کی گئی،اس باورچی کا یہاں آنے تک کا سارا خرچہ ان کی جیب سے اداکیاجائے اور ان کی ناراضی ان تک پہنچا دی جائے جنہوں نے سرکاری خرچ سے یہ کام کیا۔

آخری ایام میں آپ کی تیمارداری کےلیے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ایک نرس کو متعین کردیاگیا۔ایک دن نرس نے آپ کابخار چیک کیا تو قائد نے نرس سے پوچھا کہ کتنا بخار ہے ۔نرس نے کہا کہ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر وہ نہیں بتاسکتی۔قائد اعظم دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ اس نرس نے گورنرجنرل پاکستان کے سامنے میں بھی قانون کی پیروی کی ہے۔

11ستمبر کو جب ماری پور کے ہوائی اڈے سے آپ کو فوجی ایمبولینس کے ذریعے گورنرجنرل ہاوس لایاجارہاتھا تو صرف چار پانچ کلومیٹر بعد ایمبولیس بند ہوگئی اور فاطمہ جناح کو بتایاگیا کہ پٹرول ختم ہوگیا ہے دوسری ایمبولیس آئے گی توپہنچاجاسکے گا۔دوسری ایمبولینس ڈیڑھ گھنٹے بعد آئی اور قائد کو ان کی رہائشگاہ پہنچایاگیا۔جب آپ وہاں پہنچے توساتھ آئے ڈاکٹر آرام کرنے ہوٹل چلے گئے۔9بجے شب محترمہ فاطمہ جناح نے ڈاکٹروں کو فون پر اطلاع دی کمزوری بہت ہوگئی ہے بے قراری میں اضافہ ہوگیا آپ فوری چلے آئیں۔قائد اعظم کے یہ آخری لمحات تھے ڈاکٹر آگئے کئی ٹیکے لگائے گئے لیکن آپ جانبر نہ ہوئے۔چند منٹ بعد دل ڈوبنے لگااورسانس رکنے لگی بے ہوشی کے عالم میں آپ کےمنہ سے نکلا۔۔

اللہ۔۔۔۔۔پاکستان

Tuesday, September 2, 2014

FROM TAHRIR SQUARE TO AZADI SQUARE


تحریراسکوائرسے آزادی اسکوائرتک

ہماری جملہ معاشرتی بیماریوں میں سے ایک چھوت کی طرح کی بیماری یہ ہے ہم کسی بھی ٹوٹل پیکج سے صرف اپنی مرضی اور مفادکی چیز لیتے اور اسی کوبیان کرتے ہیں۔افتخار چودھری مشرف کے سامنے ڈٹ جائے تو وہ ہمارا ہیرو اور اگر عدلیہ کوشرمناک کہنے پر وہی افتخار چودھری آپ کو توہین عدالت میں بلالے تو گالیوں اور الزامات کامستحق۔سیشن کورٹ وزیراعظم کےخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے تو عدلیہ آزاداور انصاف کے تقاضے پورے،اسی فیصلے کی بنیاد پرحکمرانوں کو للکاریں توٹھیک۔اگر حکومت اس فیصلے کےخلاف اپیل کرے توہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی چھٹی اورسینئرترین جج کے اس عہدے پر آنے کو مکمل حکومتی سازش اور اپنی پسند کافیصلہ کرانے کےلیے پلاننگ قرار دے کر ہزاروں لوگوں اور ٹی وی پر دیکھنے والے لاکھوں عوام کے سامنے اعلان کردیں کہ اس پلاننگ کے بعد فیصلہ حکومت کے حق میں کردیا جائےگا۔ٹھیک دو دن بعد وہی ہائی کورٹ آپ کے اعلان اور خدشات کے برعکس پھر ایف ائی آر کاہی فیصلہ دے تو زبان گُنگ۔ پولیس اگر آپ کی دی گئی درخواست کو حرف بحرف ایف آر کاحصہ بنادے تو درست لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کو اسی ایف آرکو حصہ بنائے تو دھوکا؟ عدالت لانگ مارچ کو غیرقانونی قراردے تو حکومت کےلیے اس روکنے کاجوازاور اگر وہی عدالت ایف آئی آر کاحکم دے تو عملدرآمد روکنے کےلیے حیلے بہانے۔اسی طرح کی سیکڑوں مثالیں ہمیں اپنی روزہ مرہ زندگی سے مل سکتی ہیں۔

اسی بیماری کےسبب ہمیں تحریراسکوائر بہت اچھا لگتا ہے،جو اٹھتاہے یہی نعرہ لگاتا ہے کہ فلاں جگہ کو تحریر اسکوائربنادوں گا۔۔۔عمران خان صاحب ایک سانس میں دودومرتبہ اسی تحریر اسکوائراور حسنی مبارک کی بات کرتے ہیں ۔نوازشریف ان کی نظر میں حسنی مبارک ہیں اور پاکستان میں مصر کی سی جمہوریت ہے۔خان صاحب کو اس دھرنے اور احتجاج کےلیے قاہرہ ماڈل ہی دیاگیا ہے۔میں نے مصری انقلاب کامطالعہ کیا تو حیرت ہی حیرت نکلی۔عمران خان صاحب صرف  حسنی مبارک کا ذکرکرتے ہیں لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں بتایاکہ اس حسنی مبارک کے خلاف تحریر اسکوائر میں دھرنے کا آخری انجام یہ ہے کہ مصر میں اس وقت فوج کی ہی حکومت ہے۔میرے نزدیل تحریر اسکوائر اور مصر کا انقلاب ایک ناکام جدوجہد کانام ہے۔مصر کے انقلاب سے ایک ڈکٹیٹرسے دوسراڈکٹیٹرحکمران بنا،حسی مبارک گیا اورجنرل فتح السیسی آگیا،آئیے تحریراسکوائر میں چلی تحریک کا جائزہ لیتے ہیں۔اورپھر دیکھتے ہیں کہ خان صاحب اپنی تحریک کواس سے موازنہ کیوں کرتے ہیں۔
تحریر اسکوائرمیں جمع مظاہرین

تیونس کے صدر زین العابدین کا عوام کی جانب سے تختہ الٹے جانے کے بعد عرب سپرنگ (عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کے خاتمے کی خود ساختہ تحریک جس کے نتیجے میں لیبیاء تاراج کیاجاچکا،مصر میں خون خرابہ ہوچکا،شام میں خانہ جنگی اور صدر بشارالاسد کی مزاحمت جاری اور عراق میں شیعوں اور مسیحیوں کی نسل کشی کےلیے دولت اسلامیہ (داعش)نامی فتنہ اپنے جوبن پر)مصر کی جانب بڑھی مصری عوام نے تیونس میں اقتدارکے خاتمے کے بعد 30 سال سے حکومت کرنے والے فوجی سربراہ محمد حسنی السید مبارک کے اقتدار کے خاتمے کےلیے تحریک کا آغاز کیا۔اس تحریک کے نتیجے میں مصرکے دارلحکومت قاہرہ میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیاگیا۔اس فیصلے کےبعد 20لاکھ لوگ قاہرہ کے مرکز میں تحریر اسکوائرپر جمع ہوئے اور وہاں دھرنا دینے کا اعلان ہوگیا۔تحریر اسکوائر پر دھرنے اور مظاہرے کا آغاز 25 فروری 2011کو کیاگیا۔آغازمیں یہ دھرنا پرامن تھا ۔ اس دھرنے میں زیادہ تعداد قاہرہ کے شہریوں کی تھی ۔فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے طاقت کا استعمال شروع کیا۔تحریک اسکوائر دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے میدان میں تبدیل ہوا۔اس کے ساتھ ایک اور شہر اسکندریہ میں بھی مظاہرے شروع ہوئے ۔ تحریراسکوائر میں 18 دن گزرے تو846 لوگ جان سے جاچکے تھے،6467لوگ زخمی ہوکر اسپتالوں میں جاپہنچے۔اس تشدد کے نتیجے میں 12ہزارلوگ گرفتار کرلیے گئے۔18ویں دن ملک کے صدر حسنی مبارک نے استعفیٰ دیدیا اور 6ماہ کےلیے اقتدارپر فوج نے قبضہ کرلیا۔

تحریر اسکوائر کی تحریک کے لیے پولیس کے مظالم،ایمرجنسی لاز،الیکشن فراڈ،کرپشن،مہنگائی،بےروزگاری اور کم تنخواہوں کوجوازبنایاگیا۔ان مقاصد کےلیے ۔سول نافرمانی،مظاہرے،سوشل میڈیا کااستعمال اور ہڑتالوں کوہتھیاربنایاگیا۔اس تحریک کے نتائج کےطورپر ملک میں مارشل لاء لگ گیا،حسنی مبارک کی حکومت ختم ہوگئی،آئین معطل کردیاگیا،پارلیمنٹ تحیل کردی گئی،حسنی مبارک کے ٹرائیل کافیصلہ کیاگیا۔

تحریراسکوائرمیں دھرنا دینے والے 20لاکھ مظاہرین ہزار جانیں دینے کےبعد اقتدارپر فوج کاقبضہ کرواکرگھروں کولوٹ گئے۔فوج نے 6ماہ بعد الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں ملک میں پہلی مرتبہ سول جمہوری حکومت آئی اور اخوان المسلمون کے محمد مرسی مصر کےصدر بن گئے۔محمد مرسی نے اقتدرسنبھالا تو ساتھ ہی اپوزیشن نے وہی کام شروع کردیا جو 6ماہ پہلے تحریر اسکوائرپر ہواتھا۔تحریراسکوائر ایک بار پھر آباد ہوگیا۔مظاہرے معمول بن گئے۔محمد مرسی نے وہی کیا جو حسنی مبارک نے کیاتھا۔پھر فوج طلب کی گئی،مظاہرین کی فوج سے جھڑپیں شروع ہوئیں ان جھڑپوں میں ایک بار پھر قتل عام ہوااور3 سو لوگ جان سے چلے گئے۔محمد مرسی کی حکومت کےخلاف وہی سول نافرمانی شروع ہوگئی جو انہوں نے حسنی مبارک کےخلاف شروع کی تھی۔اس میں بھی 3705افراد زخمی ہوئے اور 13ہزارسے زائد لوگ گرفتار ہوگئے۔محمد مرسی صرف 9 ماہ بعد ہی قدموں سے اکھاڑدیے گئے۔3جولائی 2013کو ایک بار پھر ملک کامنتخب صدرمحمد مرسی کا تختہ آرمی نے الٹادیا،محمد مرسی گرفتارکرلیے گئے ان کے ساتھ اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکن بھی گرفتارکرلیے۔آرمی چیف جنرل عبدالفتح السیسی نے ملک کا آئین معطل کردیا،پارلیمنٹ پھر گھر چلی گئی،ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔السیسی نےاپنی نگرانی میں الیکشن کرائےاوراب وہی مصرکے صدرہیں۔یوں 2011 میں تحریر اسکوائر کی تحریک کےآخری نتیجے کےطورپراقتدارایک آمر حسنی مبارک سے دوسرے آمرفتح السیسی کومنتقل ہوگیا۔جمہوریت مرگئی،حقوق کےلیےجانیں قربان کرنےوالوں کے ہاتھ 
کچھ نہ آیا۔

اسلام آباد میں آزادی اسکوائرکامنظر

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے17 دن پرامن دھرنادیا اور جب 18دن پورے ہوئے توشایدانہیں تحریر اسکوائر کے18دن بعد حکومت گرنا یاد آنےلگا۔لیکن اسلام آباد کے آزادی اسکوائرمیں حالات بہت مختلف رہے یہاں حکومت نے فوج کو بالکل استعمال ہی نہیں کیا،جب بھی یہ لوگ آگے بڑھے پولیس کو پیچھے ہٹالیاگیا،لاشیں نہ گرسکیں۔18 دن بعد لاشوں کے حصول کےلیےوزیراعظم کے گھرپر دھاوابولنے کااعلان ہوا،اسپیکر سے آگے بڑھو،قبضہ کروکےاعلانات۔ریڈ لائن عبورکرنے پرپولیس نے آنسو گیس کااستعمال کیا،مظاہرین پیچھے ہٹ کر وہیں آگئے یہاں سے چلے تھے۔تحریر اسکوائر میں 20 لاکھ لوگ بیٹھے تھے یہاں بھی ہدف اتناہی تھا لیکن 20لاکھ کے بجائے 20 ہزارہی جمع کیے جاسکےاس لیے بھی نتیجہ ابھی تک نہیں نکل سکا۔

اگر مصری ماڈل ہی خان صاحب کےپیش نظر ہے، لوازمات بھی ویسے ہی ہیں،مقاصد بھی وہی رکھے گئے ہیں اورطریقہ کار بھی ویساہی اپنایاگیا تو کیا خان صاحب کو اس کا نتیجہ معلوم نہیں ہے؟کیاعمران خان صاحب پاکستان کے حسنی مبارک نوازشریف کو اقتدار سے ہٹاکر یہاں کسی جنرل السیسی کو لانے کاسبب بنناچاہتے ہیں؟اگریہاں بھی نتیجہ تحریراسکوائروالا ہی نکلا تو کیا پھر یہاں کبھی  جمہوریت واپس آسکے گی؟اور تحریک انصاف جیسی پاکستانیوں کی امنگوں کی ترجمان جماعت اور عمران خان جیسا لیڈرصرف استعمال شدہ ٹشوکےطورپر یادرکھاجائےگا؟


Thursday, August 28, 2014

END GAME?


کہانی ختم؟

حکومت نے فوج کے سربراہ سے درخواست کی کہ آپ اس ڈی چوک کی صفائی کرنے میں آگے آئیں۔۔فوج نے ذمہ داری لی اور سب دھرناماسٹر اوقات میں آگئے۔دونوں بھائی اپنے اپنے کنٹینر سے نکلے مظاہرین کوبتایا کہ غلیل والوں نے ذمہ داری لےلی ہے کہ وہ گارنٹی دیں گےکہ انقلاب آئے گا۔کل کیا ہوگا اس پر کل سہی ۔میں آج کی اس پیش رفت پر کچھ لکھنا چاہتاتھا لیکن اس وقت کےلیے جناب قبلہ  وسعت اللہ خان صاحب کا کچھ دن پہلے بی بی سی اردو کی ویب سائیٹ پر شائع  شدہ آرٹیکل  سےبہتر کچھ نہیں لکھا جاسکتا تو اسی کوکافی سمجھتے ہوئے یہاں 
کاپی کرنے کی جسارت کررہاہوں۔



سب لفٹین بن جائیں گے

اصول یہی ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد تھوڑا آرام کیا جاتا ہے اور پھر اترائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ شوق کوئی بھی ہو جب تک پورا نہ ہو تب تک دل میں پھانس رہتی ہے۔ ارمان دل میں ہی رہ جائے تو خلش تا زندگی بے کل رکھتی ہے۔
جمہوریت تو بنی ہی اسی لیے ہے کہ جس کا جو شوق اور خواہش ہو پورا کر لے اور اس کے بعد یکسوئی کے ساتھ کوئی کام کی بات سوچے۔

اور رہی بات دوستوں کی، تو اچھے جمہوری دوستوں کی یہی پہچان ہے کہ جس کا جو دل چاہتا ہے اسے کرنے دیں اور جب وہ کسی خطرے کی جانب ان جانے میں جانے لگے تو سمجھا بجھا کے رخ موڑ دیں اور پھر آزاد چھوڑ دیں مگر اسے آس پاس منڈلاتے خطرات سے بھی آگاہ کرتے رہیں۔ اور جب کوئی تھکا ماندہ ساتھی شوقِ مہم جوئی پورا کر کے ان کہی مدد کے لیے ادھر ادھر دیکھے تو دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی جانب ہاتھ دراز کر کے اسے خاموشی سے اوپر کھینچ لیں۔

مدبر کون ہوتا ہے اور وہ اپنے حامیوں کی امیدیں کیسے بڑھاتا ہے اور جب امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو اس وقت حامیوں کو ذہنی شکست و ریخت سے کیسے بچاتا ہے۔ اس بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم۔ بس ایک واقعہ سنائے دیتا ہوں۔

جب دوسری عالمی جنگ کے لیے عام بھرتی شروع ہوئی تو بازوئے شمشیر زن پنجاب کے انگریز ڈپٹی کمشنروں نے مراعات یافتہ معززین، چوہدریوں، کلاہ داروں اور نمبرداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ جوان بھرتی کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

وسطی پنجاب کے کسی گاؤں میں ایک نمبردار نے جنگ اور حالات سے بیزار جوانوں کو جمع کیا اور انھیں خواب دکھایا کہ اس گاؤں سے جو جوان بھی فوج میں بھرتی ہوگا میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے کم ازکم لفٹین کا عہدہ دلواؤں گا۔ چنانچہ تمام نوجوان جوق در جوق نمبردار کی سربراہی میں شہر کی جانب چل پڑے اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر جمع ہوگئے۔

ڈپٹی کمشنر نے وفادار نمبردار کو اتنے نوجوان لانے پر شاباشی دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے حکامِ بالا سے بطور انعام دس مربع زمین کی سفارش کرے گا۔ لیکن جب نمبردار نے کہا کہ میں ان نوجوانوں کو بہت مشکل سے اس وعدے پر بھرتی کے لیے راضی کر پایا ہوں کہ سب کو لفٹین بھرتی کیا جائے گا تو ڈپٹی کمشنر صاحب کا منھ اتر گیا۔ کہنے لگا یہ ناممکن ہے۔ لفٹین صرف وہی بھرتی ہوسکتا ہے جو کم ازکم میٹرک پاس ہو۔ میں صرف کچھ اضافی سہولتوں کا تو وعدہ کرسکتا ہوں مگر لفٹین بنوانا میرے اختیار سے باہر ہے۔

نمبردار کے پسینے چھوٹ گئے لیکن کمرے سے باہر نکلتے ہی اس نے ہوا میں مکے کا نشان بنایا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے نوجوانوں سے مخاطب ہوا:

’میرے بچو! خوشخبری یہ ہے کہ کمشنر صاحب نے وعدہ کر لیا ہے کہ آپ سب کو انشااللہ لفٹین بنایا جائے گا۔ مگر اس وقت چونکہ جنگ ہو رہی ہے لہٰذا لفٹینوں کی تربیت کا کام بھی رک گیا ہے۔ جنگ ختم ہوتے ہی جیسے ہی تربیت چالو ہوئی آپ سب کو سب سے پہلے کمیشن دیا جائے گا۔ لیکن میں نے کمشنر صاحب سےمطالبہ کیا کہ جب تک میرے بچے لفٹین نہیں بنتے تب تک وہ تمام چیزیں اور سہولتیں فوراً اور مفت مہیا کی جائیں جو ایک لفٹین کا حق ہیں:
نمبر ایک: مفت وردی، بیلٹ اور ٹوپی

نمبر دو: کم ازکم دو نئے جوڑی جوتے
نمبر تین: راشن اور کراکری
نمبر چار: خیمہ اور بستر
نمبر پانچ: ہر طرح کی مفت ٹرانپسورٹ اور سال میں کم ازکم ایک مہینے کی تنخواہ دار چھٹی
نمبر چھ: مفت بندوق اور دیگر اسلحہ گولیوں سمیت۔

’میرے بچو کمشنر صاحب نے بہت ضد کی کہ میں ان میں سے کچھ مطالبات کم کر لوں لیکن میں بھی اڑ گیا۔ چنانچہ کمشنر صاحب کو ہار ماننا پڑی اور انھوں نے یہ کہتے ہوئے تمام مطالبات منظور کر لیے کہ محمد بخشا تو نے مجھے بہت مشکل میں ڈال دیا لیکن پھر بھی میں تیرے خلوص کو دیکھتے ہوئے تمام مطالبات فوری منظور کرتا ہوں۔‘

نوجوانوں نے نمبردار محمد بخش کو کندھے پر اٹھا لیا اور بھرتی میں نام لکھوانے کے بعد محمد بخش زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے خوشی خوشی گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔

Tuesday, August 26, 2014

AFZAL KHAN'S ALLEGATIONS



 پیارے افضل۔۔ٹو



خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں پیدا ہوئے محمد افضل خان نے اعلیٰ تعلیم کےلیے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کا رخ کیا اور 1978میں ایم اے صحافت کا امتحان پاس کیا اور 1979میں سرکاری نیوزایجنسی اے پی پی میں اسٹاف رپورٹر کی نوکری کی۔1996تک اے پی پی میں 17سال نوکری کےبعد انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنا باقی کیریئرگزارنے کا فیصلہ لیا اور 1996میں بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنزالیکشن کمیشن آف پاکستان میں آگئے الیکشن کمیشن میں انہوں نے سرکاری قوانین کے تحت اور بعض اوقات سفارشوں کے سہارے ترقی کے زینے طے کیے اور17سال نوکر ی کے بعد سرکاری طور پر ان کو ان کی عمر عزیز پوری ہونے پران کی خواہش کے خلاف ریٹائرکردیا گیا۔الیکشن کمیشن میں تعیناتی کے دوران ہی وہ ڈیپوٹیشن پر خیبرپختونخوا حکومت میں سیکریٹری انفارمیشن بھی رہے ۔

افضل خان میرٹ کے اس قدر دلدادہ تھے کہ انہوں نے اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی خلاف قواعد الیکشن کمیشن میں سینئراسسٹنٹ کی اسامی پر گریڈ15میں بھرتی کرالیاتاکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں پاکستانی سرکار ان کے خاندان کی خدمات جلیلہ سے محروم نہ ہوجائے۔ افضل خان صاحب 21ویں گریڈ میں ریٹائر کردیے گئے لیکن ان کو سرکاری گھراپنی جان سے بھی زیادہ عزیزتھا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اسی سرکاری گھر میں رہنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے کامیاب منصوبہ بنایا اس کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کا استعمال کیا ۔گریڈ15میں ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹی سرکاری گھر کی حقدار نہیں تھیں تو انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت میں گریڈ 16میں ان کو ڈیپوٹیشن پر بھجوانے کی درخواست کی جو ڈیپوٹیشن پر پابندی کےباوجود انہوں نے منظور کرائی اور اب سولہویں گریڈ کے اہلکارکو21ویں گریڈ کا گھر الاٹ ہے اور موصوف افضل خان اسی سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ بیٹی کی ڈیپوٹیشن کی درخواست آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں



افضل خان صاحب کو سرکاری نوکری سے خاص محبت تھی وہ 34سال تک پاکستان کی خدمت کو بہت کم شمارکرتے تھے ۔مئی 2013میں ان کی ریٹارمنٹ کی تاریخ یوں یوں قریب آرہی تھی انہیں نوکری سے دوری بہت ستاتی تھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو اپنی نوکری میں توسیع کی درخواست دی ۔فخروبھائی نے ان کی یہ درخواست الیکشن کمیشن کے ممبران کو بھجواکررائے طلب کی ۔جسٹس ریاض کیانی جنہوں نے افضل خان کے بقول 90فیصد الیکشن تباہ کیا،نے ان کی اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے سخت ریمارکس لکھے اور ان کی اس درخواست کو خلاف ضابطہ قراردے کر واپس کردیا ۔جس کے بعد پاکستان اس عظیم مجاہد کی خدمات سے محروم ہوگیا۔جسٹس ریاض کیانی کے ریمارکس اس درخواست میں پڑھے جاسکتے ہیں۔



افضل خان کا مولانا فضل الرحمان کی جماعت جےیوآئی ف سے بھی بہت لگاؤ تھا اس لیے الیکشن کمیشن کی نوکری کےدوران انہوں نے 2004میں خیبرپختونخوا میں اپنی خدمات دینے کا فیصلہ کیا۔وہاں اس وقت ایم ایم کی حکومت تھی اور اکرم خان درانی صوبے کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے اس بطل جلیل کو خیبرپختونخوا کا سیکریٹری انفارمیشن لگادیا۔یہاں رہتے ہوئے انہوں نے خوب سرکاری اشتہارات جاری کیے ان اشتہارات میں کمیشن لینے کی دوانکوائریاں ان کے خلاف شروع ہوئیں تو انہوں نے کہاکہ انہیں استثنیٰ حاصل ہے لیکن کرپشن میں استثنیٰ کی ان کی عرضی قبول نہ کی گئی اور افضل خان کے پی کے سے واپس الیکشن کمیشن آگئے اور یہاں اپنی خدمات جاری رکھیں۔

افضل خان صحافت سے وابستہ رہے تھے اس لیے انہیں میڈیا پر خود نمائی کا بہت شوق تھا ۔نگران حکومت میں جب وہ قائم مقام وزیرداخلہ سے الیکشن سکیورٹی پر اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے آئے تو رپورٹر قائم مقام وزیرداخلہ ملک حبیب سے سوال کرتے تو افضل خان ان کو چپ کراکر جواب دینے لگتے اسی کشمکش میں ان کی رپورٹروں سے اچھی خاصی جھڑپ ہوگئی اور بریفنگ ادھوری چھوڑنا پڑی ۔

الیکشن کمیشن کے سابق ایڈشنل سیکریٹری اور اے آروائی پر نشر کیے گئے سپر ہٹ ڈرامہ سیریل پیارے افضل میں کوئی مماثلت نہیں ۔۔۔ہاں صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ پیارے افضل میں ڈرامے کا ہیرو ایک مولوی کا بیٹا تھا اور ہمارے افضل ماشاءاللہ خود مولوی ہیں اور ڈرانے والا افضل ایک امیرآدمی کی بیٹی کی محبت میں مبتلا تھا تو ہمارے افضل سرکاری نوکری کی محبت میں گم تھے۔۔۔

آخر میں صرف یہ کہ محمد افضل خان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں وہ عمران خان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے دھرنے میں اپنے خاندان کے ساتھ شریک ہیں تویہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنی وابستگی جس کے ساتھ رکھنا چاہیں رکھیں۔ اس بات کی بھی اہمیت نہیں کہ وہ ڈیڑھ سال تک کیوں خاموش رہے ۔میں تو صرف یہ کہتاہوں کہ جب 2013کےالیکشن ہورہے تھے تو وہ الیکشن کمیشن میں بہت ہی اعلیٰ عہدے پر فائزتھے ۔براہ راست سارے معاملات میں ملوث تھے اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو پیارے افضل براہ راست خود بھی اس جرم میں ملوث ہیں ۔اگر وہ بہت پاک صاف تھے تو اس وقت الیکشن کی پاکیزگی کا ڈھنڈورا کیوں پیٹ رہے تھے یا کم ازکم وہ اتنے ثبوت ہی جمع کرلیتے کہ آج ان کو یہ کہنے کےساتھ ساتھ کہ الیکشن دونمبر نہیں 100نمبر ہے کم ازکم کوئی ثبوت تو دینے کےلیے ہوتا۔۔ڈرامے کے آخر میں پیارا افضل گینگسٹر بن کر جان سے چلاجاتاہے اور ہمارے افضل بھی بس خوامخوا پتہ نہیں کس کےلیے خود کش بمبار بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔