Friday, September 23, 2016

EXPRESS MEDIA GROUP AND FAHD HUSAIN



 فہد حسین اور پاکستانیت


مطالعہ چاہے شخصیات کاہو ،اداروں کا ہویا تاریخ کا جب یہ رک جاتا ہے تو انسانی رویوں میں تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتا۔۔علم مومن کی میراث تھی لیکن ہم مومنوں نے میراث میں سے باپ دادا کی زمین کے سوا سب کچھ نکال باہر کیا بلکہ اس بچی کھچی میراث میں سے بھی اپنی بہن بیٹیوں کو جھنڈی کراکے خود ہی سب ہڑپ کرنے کے در پے ہوگئے
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا کہ اختلاف میری امت میں ایک رحمت کی مانند ہے لیکن ہم نے اس اختلاف کے درمیان  سے ت نکال کرآخر میں فٕٹ کرکے اس کو مخالفت بنالیا اور پھراختلاف، جو رحمت تھا مخالفت بن کر ہمارے منہ سے ہر وقت جھاگ کی طرح بہنے لگا۔ذاتی مفاد میں کسی کی پگڑی اچھال پروگرام سوشل میڈیا پر شروع کیا اور پھر مطالعے سےعاری عام لوگ اسی نظریے سے اس کا پرچار کرنے لگے کہ جھوٹ سچ معلوم ہونے لگے۔

میں پچھلے آٹھ سال سے ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ ہوں ۔یہ میڈیا گروپ ریاستی نظریات کا سب سے بڑا پرچارک ہی نہیں بلکہ محافظ بھی ہے۔کشمیری مجاہد برہان وانی کی شہادت کے بعد جب بھارت نے ریاستی دہشتگردی کے ذریعے کشمیریوں کوکرفیو میں رکھ کر ان کی آوازدبانے کی کوشش کی تو یہ پورے پاکستان میں صرف ایکسپریس نیوزہی تھا جس کو بھارت سے ایسا کھلا جواب مانگنے کی توفیق اور ہمت ہوئی ۔۔۔چھروں سے زخمی کشمیریوں کے 
ایکسپریس نیوز کی سکرین کا عکس
چہرے جس تواتر سے ایکسپریس نیوز نے اپنی سکرین پر دکھائے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ بھارت جواب دو کی مہم کا ایسا اثر ہوا کہ میرا اپنا ویزہ باقاعدہ روک دیا گیا کیونکہ میں بھی اس مہم کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔مجھے ویزہ جس طرح دیا گیا وہ الگ ایک کہانی ہے۔
میں جب بھارت میں تھا تو بھارتی صحافیوں اور جس جس تک ایکسپریس نیوز کی وہاں رسائی تھی ان سب کی طرف سے مجھے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ کیا مطلب ہو اکہ بھارت جواب دو۔۔کس بات کا جواب مانگ رہا ہے ایکسپریس نیوز۔۔مجھے بھی وہاں یہ بتانے کا موقع ملا کہ ایکسپریس نیوزبھارت سے اس بات کا جواب مانگ رہا ہے کہ کسی کو گھروں میں قید کرکے پانی اور کھانا بند کرکے انٹرنیٹ اور فون سے دور کرکے ان کے چہروں کو چھروں سے چھلنی کرکے انسانوں سے صرف اختلاف رائے کا بدلہ کیسے لیا جاسکتا ہے؟ ۔۔بس اسی بات کا جواب مانگ رہا ہےایکسپریس نیوز۔بھارت جواب دو مہم کے مصنف کا نام فہد حسین ہے۔وہ فہد حسین جس نے بھارت جیسے پاکستان دشمن  ملک کو دیکھنے کا مؤثرترین نظریہ ہمیں دیا۔
22ستمبر کو پاکستان کے بڑے اخبارات بشمول جنگ ،دی نیوز نیشن اور ڈان میں
روزنامہ جنگ میں خبر کاعکس
  یہ خبر شائع ہوئی کہ کسی امریکی رکن کانگریس نے پاکستان کو دہشتگرد ریاست قراردینے کا بل پیش کیا گیا ہے۔روزنامہ جنگ میں یہ خبر تین کالم شائع ہوئی اور روزنامہ ایکسپریس میں یہ خبر صرف سنگل کالم اور مختصر ترین شائع کی گئی ۔ اسی طرح ایکسپریس ٹریبیون نے بھی اس خبر کو شائع کیا اورپہلی ہی سطر میں یہ بتایا کہ یہ خبر بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے شائع کی ہے۔ تاکہ قارئین اس خبر کو پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر اس میں کوئی قابل
روزنامہ ایکسپریس کی خبر کاعکس
اعتراض بات ہے( ویسے تو کوئی تھی ہی نہیں) تو وہ ٹریبیون کی رائے نہیں ہے بلکہ ٹائمز آف انڈیا کی ہوسکتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ٹریبیون نے دیگر پاکستانی اخبارات کی طرح اس خبر کو اوون نہیں کیا بلکہ صرف رپورٹ کرتے ہوئے بتایاکہ یہ بھارتی اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ لیکن دوسری طرف دی نیوز نے اسی خبر کو واشنگٹن میں اپنے نمائندے واجد علی سید کی بائی لائن سے شائع کیا اور اس خبر میں مکمل اونرشپ بھی لی ۔ میرے دوست جو میڈیا میں ہیں وہ جانتے ہیں کہ
دی نیشن کی خبر کاعکس
دونوں میں کیا اور کتنا بڑا فرق ہے۔ اس خبر کو بی بی سی نے بھی رپورٹ کیا۔
یہ خبر 22ستمبر کو پاکستان کے میڈیا میں آئی لیکن ایکسپریس نیوز نے اس خبر کو اپنی سکرین پر جگہ دینے کے قابل ہی نہیں سمجھا یہ فیصلہ بھی ایکسپریس نیوزکے لیڈر فہد حسین نے ہی کیا ۔آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ ٹی وی پر خبر آنے کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔ٹی وی پاکستان کے عام لوگ دیکھتے اور اس پر یقین کرتے ہیں اسی طرح اردو اخبارات بھی میری طرح کےعام لوگ پڑھتے ہیں لیکن انگریزی اخبارات کے قارئین زیادہ پڑھے لکھے اور تجزیہ
روزنامہ ڈان کی خبر کاعکس
کرنے کی صلاحیت کے حامل افراد ہیں اور یہ بہت ہی کم تعداد میں بھی ہیں۔ یہ خبر 22ستمبر کو ٹریبیون میں شائع ہوئی لیکن ایک دن بعد 23ستمبر کو صبح سوشل میڈیا پر صرف ٹریبیون اور اس کے ایڈیٹرفہد حسین کو ٹارگٹ کرکے طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا ۔ میں نے ان ٹویٹس  کو بڑے غور سے پڑھاہے اس کے بعد ایک بات بہت ہی واضح نطر آئی کہ یہ مہم
روزنامہ دی نیوز کی خبرکاعکس
چلانے والے فہد حسین کو جانتے ہی نہیں ہیں یا پھر فہد حسین کے خاندانی پس منظر اور اس کے محب وطن ہونے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔دونوں صورتوں میں ہی یہ ٹوئٹر کے جہادی کم از پاکستان کی خدمت تو نہیں کررہے یا شاید کچھ مفاد پرست عناصر اپنے ایجنڈے کو اس خبر میں لپیٹ پر بیچنے کی کوشش کررہے ہیں۔میری ٹوئٹر کے ان جہادیوں جو فہد حسین کونہیں جانتے ہیں ،سے درخواست ہے کہ وہ گوگل چاچو کی مدد لیں فہد حسین لکھیں اور ان کے آرٹیکلز سرچ کریں پھر کسی بھی ایک آرٹیکل کو ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں بھلے تعصب کی عینک لگالیں آپ کو فہد حسین میں ایک سچا اور محب وطن پاکستانی ہی نظر آئے گا۔ مزید ضرورت پڑے تو فہد حسین کی زیر نگرانی چلنے والے ٹی وی ایکسپریس نیوزکی پچھلے چار دن سے کوریج کو دیکھ لیں پتہ چل جائے گا ایکسپریس میڈیا اور فہد حسین کس کے ایجنڈے پر ہیں ۔اگر وہ کچھ نہ ملے جو کچھ تعصب زدہ اور مطالعہ سے عاری دیکھنایا دکھانا چاہتے ہیں تو خدارا مطالعے کی عادت ڈالیں کہ مطالعہ چاہے شخصیات کاہو ،اداروں کا ہویا تاریخ کا جب یہ رک جاتا ہے تو انسانی رویوں میں تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتا۔۔۔

نوٹ: میں یہ تحریر اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں ایکسپریس گروپ میں کام کرتا ہوں بلکہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں فہد حسین کوجانتا ہوں۔۔

No comments: