Thursday, October 29, 2015

BIGGER THREAT TO PAKISTAN..POLIO OR TERRIORISM?


 BIGGER THREAT TO PAKISTAN
POLIO OR TERRORISM?

In Pakistan problems associated with poor and middle class are seldom solved. The ruling class never let these problems grow out of proportion lest they become a threat to their rule. In 2014 polio
was the problem of poor; every year around 150 children were affected by the deadly disease with no affect on the elite class in the country. Polio has become a source of foreign funding for the country as well. Year 2014 became a blessing in disguise for the poor people of Pakistan, as polio started threatening elite class as well. Over 300 children were affected by polio in 2014. Polio free countries got threatened. In 2015 Polio Vaccination Certificate was made mandatory for Pakistanis travelling abroad. This sanction is enforce till today. In the past polio was not an issue for the elite class but travel sanctions started bothering the rich and privileged class. Now polio becomes a serious issue in Pakistan. In 2014, 306 polio cases were reported in Pakistan. In 2015, so far only 38 polio cases have been reported. If travel sanctions continue I believe in coming years we will surely be able to defeat polio.

At present polio is reported in only two countries; Afghanistan and Pakistan. Polio has long been eradicated from India and
Bangladesh. Last polio case in India was reported on 13 January 2011 in Kolkata. Thus on 24 July 2014 World Health Organization declared India a polio free country. The same year 306 children got disabled in Pakistan.

In 1978 smallpox was eradicated from the face of the earth. Now polio was the next challenge for WHO. In 1961 Dr Albert Sabin started research on polio vaccine. This vaccine was called Sabin
vaccine as well. Dr John Salk was the key member of Dr Sabin’s team. Dr Salk’s birthday October 24 is celebrated as World Polio Day. In 1985 the vaccine was ready to be used. In 1988 with the help of Rotary International WHO reiterated elimination of polio from the world. In 1988, 300,000 children were affected by polio. Only 150,000 children were reported in India. After 12 years only 4000 children were reported in the world with only 265 children in India.

In 2002 polio situation in India was worse than that of Pakistan. WHO Chief Bruce Aylward, once remarked that lest India polio would be eradicate from entire world including Pakistan.
With Dr Sunil Bahl of WHO in Delhi
Both
countries prove Bruce Aylward wrong. India defeated poliowhereas polio has become a stigma for Pakistan in the world. Now 80% world population is polio free. After Afghanistan and Pakistan Nigeria was the 3rd country affected by polio. In Nigeria last polio case was reported on 24 July 2014. Nigeria has also been declared a polio free country. Now Afghanistan and Pakistan are the only countries in the world struggling against polio. Analyst believe that polio is bigger threat to Pakistan than terrorism and tough task to deal with this disease,but some says polio is linked with terrorism in Pakistan, if terrorism rooted out Polio will be eradicated as well

   
Donors like Rotary International and Gates Foundation believe that polio will eradicated from the world by 2020. Can Indian model help us getting rid of polio in Pakistan? During my visit to Delhi I put this question to Rotary International’s Chief Deepak Kapoor
Talking to Deepak Kapur of Rotary in Delhi
and WHO’s focal person Dr Sunil Bhal. Both of them believed that we need daunting efforts to eradicate polio from Pakistan. The ugly wall of polio is collapsing, it need one all out effort. Government, people of Pakistan and donors with their joint efforts can surely eliminate polio. For this we may not be waiting for 2020. I hope sincere efforts can defeat polio much before the deadline.

I traveled to India to pursue this story in Journalist exchange programme with India  sponsored by East -West Center 

Saturday, October 24, 2015

WORLD POLIO DAY:CAN PAKISTAN BE A POLIO FREE ?



پاکستان پولیوکی دیوارگراسکےگا؟

پاکستان میں جومسائل غریب اور مڈل کلاس لوگوں سے جڑے ہوتے ہیں وہ نہ کبھی حل ہوتے ہیں اور نہ ہی حکمران انہیں اتنابڑاہونے دیتے ہیں کہ ان کے اقتدار کےلیے خطرہ بن جائیں۔2014تک پولیو بھی پاکستان کے غریبوں کامسئلہ تھا،ہرسال ڈیڑھ دو سو غریب بچے اپاہج ہوجاتےاورکسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا،دنیااس بہانے پاکستان کو اچھے خاصے پیسے دیتی ،ملک میں زرمبادلہ آتااورہر سال ایک کنٹرول تعداداپاہج بن کر پولیو کو زندہ بھی رکھتی لیکن 2014پاکستان کے غریبوں کےلیے رحمت بن کر آیا جب پولیوغریبوں کے ساتھ ساتھ امیروں اور رولنگ ایلیٹ کامسئلہ بھی بننے لگا،صرف ایک سال میں پاکستان میں تین سوسے زائد بچے پولیوکاشکار ہوگئے ،پاکستان سے پولیووائرس دوسرے ممالک میں ایکسپورٹ ہونے کانظریہ سامنے آنےلگاتوپولیو فری ممالک نے پاکستان کی رولنگ ایلیٹ کے گرد شکنجہ تنگ کرنا شروع کردیا،پاکستان سے باہر سفر پابندیوں کاشکارہونے لگا،2015کےآغازمیں ایسا ہوبھی گیا جب پاکستان سے باہر جانے
پاکستان میں اس سال پولیوکےاعدادوشمار
والے ہرشخص کو پولیو سے بچاؤکی دوا پی کر سرٹیفیکیٹ لینالازمی قراردیاگیا اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔پہلےملک میں پولیوسےکسی کو خاص فرق نہیں پڑتاتھا لیکن جب امیروں کے بیرون ملک جانے میں پولیورکاوٹ بننے لگاتویہ ایک سنجیدہ مسئلے کےطورپر ابھرآیا،شاید اسی کی برکت ہے کہ 2014میں 306پولیوکیسز سامنے آئے تھے اور اس سال اب تک 10 ماہ میں صرف38بچے پولیو کاشکار ہوئے ہیں اگر یہ سفری پابندیاں اسی طرح برقراررہیں توامید ہے ہم آئندہ چند سالوں میں اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اس وقت دنیا میں صرف 2ملک ایسے ہیں یہاں پولیو موجود ہے ان میں سے ایک پاکستان اور دوسراافغانستان ہے،بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی اس بیماری سے جان چھڑاچکے ہیں ،بھارت میں آخری کیس 13جنوری2011کو کلکتہ سے رپورٹ ہواتھا،یوں 24جولائی 2014میں بھارت کوورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پولیو فری قراردینے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا،جس سال بھارت کو پولیوفری ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملا اس سال سرحد کے اس پار306بچے پولیوسے مفلوج ہوچکے تھے۔

سن 1978میں جب ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا سے چیچک کی بیماری کا خاتمہ کرلیا تو پولیو اس کا اگلاٹارگٹ بن گیا،پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پر ڈاکٹرالبرٹ سیبن نے1961میں کام شروع کیا۔یہ اورل ویکسین سیبن ویکسین کے نام سے بھی جانی جاتی ہے ۔ڈاکٹر جان سلک اس ٹیم کے اہم رکن تھے جن کےیوم پیدائش
24
اکتوبرکودنیا بھر میں پولیوڈے کے طورپر منایاجاتا ہے۔1985میں یہ اورل پولیوویکسین پلائے جانے کےلیے تیار تھی۔1988میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے روٹری انٹرنیشنل کی کاوشوں سے ایک قراردادکےذریعے دنیا سے پولیوختم کرنے کا عزم کیااور دنیا میں  اس مرض کے خلاف ایک تحریک شروع کی گئی ،1988میں دنیا بھر میں ساڑھے3لاکھ بچے پولیو کاشکار تھے،جن میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب بھارتی تھے۔صرف بارہ سال بعدسن 2000میں دنیا میں صرف4ہزاربچے اس مرض کاشکارتھے جن میں ہندوستان میں پولیو کا شکاربچوں کی تعدادصرف265تھی۔

سن 2002میں بھارت کی صورتحال پاکستان سے ابتر تھی جسے دیکھتے ہوئے ڈبلیوایچ اوکےپولیوپروگرام کے سربراہ ڈاکٹربروس ایل ورڈ نےکہا تھا کہ لگتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھرسے پولیو ختم ہوجائے گالیکن ہندوستان سے ختم نہیں ہوگا۔ڈاکٹرایل ورڈ کے اس جملے کو دونوں ممالک نے ہی جھوٹ کردکھایا،بھارت نے اپنے ملک سے پولیوکوشکست دیدی اور پاکستان ابھی بھی دنیا کے طعنے سن رہاہے۔بھارت سے پولیو ختم ہونے کےبعد دنیاکی 80فیصد آبادی پولیو فری ہےجبکہ افریقاکاملک نائیجیریا پاکستان اورافغانستان کےساتھ تیسرا ملک تھا جو اس بیماری میں مبتلاتھاوہاں بھی آخری کیس 24جولائی 2014کورپورٹ ہواتھا۔نائیجیریاکو بھی ایک سال کےلیے پولیو فری ہونے کاسرٹیفیکیٹ مل گیا ہے اب صرف پاکستان اور افغانستان نے ہی اس بیماری کو سنبھال رکھاہے۔
سن1988سے2015تک پولیوکےخاتمےکاسفر

روٹری اور گیٹس فاؤنڈیشن جیسے بڑے ڈونرامید کررہے ہیں کہ 2020تک دنیا سے پولیو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، یہ سوال میں نے جب نئی دلی میں روٹری انٹرنیشنل کے سربراہ دیپک کپوراور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےکےفوکل پرسن ڈاکٹر
روٹری انٹرنیشنل بھارت کے سربراہ دیپک کپور کےساتھ دلی میں
سنیل بہل کے سامنے رکھا کہ بھارت کےتجربے کوسامنےرکھتےہوئےبتائیں کہ پاکستان سے پولیوکیسے ختم ہوسکتا ہے؟ہوبھی سکتا ہےیانہیں تودونوں کا کہناتھا کہ پولیو ختم کرنے کےلیے تمام اداروں کو مل کر ایک آخری کوشش کی سخت ضرورت ہے پولیوکی دیوارگررہی ہے اس گرتی دیوار کوایک دھکالگایاجاناضروری ہے اگر عوام ،حکومت اورڈونرزمل کر ایک دھکالگادیں تودنیا سے پولیوکاخاتمہ ہوجائے گا۔اس کےلیے شاید ہمیں 2020کابھی انتظار نہ  کرناپڑے۔امید ہے ہم مل کر یہ آخری دھکا لگاکراس دیوارکوکرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔