Saturday, September 26, 2015

PHANTOM IN MUMBAI


فینٹم ان ممبئی

یونہی ذکی الرحمان لکھوی کو ڈاکٹرنےزہر کا ٹیکہ لگایا اور پوری جیل پولیس چاہتے ہوئے بھی ڈاکٹرکویہ کام کرنےسے روک نہ سکی اور لکھوی چارپائی سے اوندھے منہ گرپڑاتوممبئی کامراٹھامندرتھیٹرجے ہند،جے ہند اورسیف علی زندہ آباد کےنعروں سے گونج اٹھا۔۔اس کے ساتھ ہی بھارتی خفیہ ایجسنی راکے ایجنٹ سیف علی خان کے ہاتھوں حافظ سعید کےوقتی طورپر بچ نکلنے نےان نعروں کوتھوڑا ٹھنڈا کردیا تھا لیکن ہر کوئی اس یقین کے ساتھ فلم کو دیکھ رہا تھا کہ سیف علی خان اپنے اس مشن میں بھی کامیاب ہوجائےگا۔۔۔

ایکسپریس نیوزکی طرف سے بھارت کے ساتھ صحافیوں کے تبادلے کے پروگرام جو امریکی ادارے ایسٹ ویسٹ سنٹر کی طرف سے اسپانسر تھا،میں بھارتی شہر ممبئی میں تھا تو بالی ووڈ فلم فینٹم ریلیز ہوگئی جو ممبئی حملوں کے تناظرمیں بنائی گئی ہے۔

بھارتی فلم فینٹم میں دکھایاجاتاہے کہ راممبئی حملوں کے ذمہ داروں (بھارت کی نظرمیں)کوسزانہ ملنے پر شدید تشویش میں مبتلاہے،را کے ہیڈکوارٹرمیں ممبئی حملوں کے ذمہ داروں ڈیوڈ ہیڈلی،ذکی الرحمان لکھوی اور حافظ سعید کومارنے کاپلان بنایاجاتاہے،یہ کام

کون کرے اس کےلیے آرمی سے نکالے گئے ایک افسر  سیف علی خان کو چناگیا،لیکن یہ بات واضح کردی گئی کہ بھارتی حکومت کو اس پلان سے نہ آگاہ کیاجائے گا اور پکڑے جانے پر رابھی مکرجائے گی،سلمان خان لندن میں جاکر لشکر طیبہ کے ایک اہم آدمی کو اس کے گھر میں سلنڈربلاسٹ کے ذریعے ختم کرتاہے اور پھر شکاگوجیل میں ڈیوڈ ہیڈلی کو پانی میں زہردے کر اگلے جہان پہنچانے کےبعد سیف علی خان کااگلاٹارگٹ اڈیالہ جیل میں قید ذکی الرحمان لکھوی اورجماعة الدعوة کے سربراہ  حافظ سعید کوبنایاجاتاہے۔ سیف علی خان صاحب کو بڑی آسانی سے آئی ایس آئی کو بدھوبناتےبیک وقت کارروائی ڈالتے دکھایاگیاہے۔۔پھر دونوں کوختم کرکے پاکستان کی ساری پولیس اور آئی ایس آئی کی نظروں میں دھول جھونک کرلاہور سے کراچی کاسفراور کراچی میں پاکستان نیوی کوجل دے کر سمندر میں ایک لانچ کے ذریعے بھارت کی طرف سفر دیکھنے والے پاکستانی ناظرین کو صرف نہ پوری ہونے والی خواہش ہی لگتاہے اور بھارت میں بیٹھ کر مجھے بھی صرف یہ ایک خواہش کے سوا کچھ نہ لگا۔۔۔۔


سب فلم دیکھنےوالےایک خاص قسم کی ٹرانس میں تھے لیکن ہم چپ چاپ بیٹھے دل ہی دل میں ان سب پر ہنس رہے تھے کہ اس فلم میں ایسا کیا ہے کہ اس پر فخر کیاجائے اس فلم کی کہانی کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں ہے،وہ لوگ جوپاکستان کے معروضی حالات سے واقف ہیں جنہوں نے حافظ سعید اور ذکی الرحمان لکھوی اور ان کی جماعت کو بھارت میں بیٹھ کر تصورنہیں کیابلکہ ان کے شہر میں رہ کر زندگی گزاررہے ہیں ان کے لیے اس فلم پر ہنسنے اور بھارت کے خلاف تعصب میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔۔

ہم کسی سے یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کررہے تھے کہ اس فلم کودیکھنے کےبعد اتنا خوش ہونے کی کیا وجہ اور ضرورت ہے؟ظاہرہے اس طرح کا سوال ہندوستان کے سینما میں فینٹم جیسی فلم دیکھنے کے بعد کوئی بے وقوف ہی پوچھ سکتاتھا جو ہم ابھی نہیں ہوئے تھےاس لیے ٹیکسی پکڑکر فوری ہوٹل کی راہ لی۔۔۔

فلم ہم دیکھ چکے تھے لیکن یہ سوال جواب کی تلاش میں تھا کہ آخربالی ووڈمیں ایسی فلمیں

کیوں بنائی جاتی ہیں ؟ یہ سوال ہم نے ممبئی میں آسکر ایوارڈ یافتہ ساؤنڈریکارڈسٹ اور فلموں

آسکرایوارڈ یافتہ رسول پکوٹی کے ساتھ ممبئی میں

کے مصنف رسول پکوٹی کے سامنے رکھا توانہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بالی ووڈکوسنجیدہ لینابھارتی فلم انڈسٹری کی توہین کے مترادف ہے،فلم کو فلم ہی سمجھیں اس میں سنجیدگی اور حقائق تلاش مت کریں۔فینٹم جیسی فلمیں کسی سوچی سمجھی سوچ کی عکاسی نہیں کرتیں،بلکہ صرف کسی ذہن کاتخیل ہوسکتاہے،آپ خود سوچیں کیا ایک آدمی ،لندن ،شکاگو،شام اور پاکستان میں جاکر اپنے دشمنوں کوآسانی سے کیسے مارسکتاہے؟ یہی سوال بھارت کے ایک بڑے ٹی وی نیٹ ورک کے صدراور ایڈیٹرانچیف سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری ایک شغل میلہ ہے اگر یہاں بھی صرف حقیقت ہی دکھانی ہے توپھر فلم بنانے کاکیافائدہ؟پاکستانی سپراسٹارجاوید شیخ بھی ہمیں بھارت ہی مل گئے ان سے بھی یہی پوچھ لیاانہوں نے تویہ کہہ کر جان چھڑالی کہ ملی جلی چیزیں ہوتی ہیں
پاکستانی اداکارہ جاوید شیخ کے ساتھ دلی میں
دیکھیں نہ اگر فینٹم بنائی ہے تو کبیر خان نے بجرنگی بھائی جان بھی توبنائی ہے ۔۔یہاں سب چلتاہےپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے

میری ذاتی رائے میں بجرنگی بھائی جان بنانے کےبعد کبیر خان کوفینٹم جیسی تصوراتی فلم بنانے کی ضرورت تھی اور نہ ہی جماعة الدعوہ کواس فلم پر پابندی کےلیے عدالت جانے کی ضرورت تھی۔ایسی تمام فلموں کوپاکستان میں نمائش کی اجازت نہ صرف ہونی چاہیئےبلکہ پاکستانیوں کو ایسی فلمیں دیکھنی بھی چاہیئیں۔
توپھرکیا خیال ہےدیکھیں فینٹم۔۔۔۔۔؟