Wednesday, July 27, 2022

Judiciary and Pakistan

ایک سوتیس نمبری؟

سپریم کورٹ نے ایک وزیراعلیٰ کو اتار کر دوسرے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا ہے۔ماشاء اللہ ہماری عدلیہ دنیا کی فعال ترین عدلیہ میں سے ایک ہے۔مجھے تو یہ پراپیگنڈا ہی لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی میں ہمارانمبرایک سو تیسواں  ہے اور ہم آخر سے صرف تین  درجے اوپر ہیں۔ایسی درجہ بندی کرنے والے ہی نالائق ہوں گے کیونکہ ہماری عدلیہ تو انصاف ہی نہیں اس ملک کو حکمران بھی فراہم کرتی ہے۔رات کے بارہ بجے عدالتیں کھول لیتی ہے۔مدعی کو وقت دیتی ہے کہ آپ سکون سے پٹیشن تیار کرلیں ہم بیٹھے ہیں اور وصول کرکے ہی جائیں گے۔کیس سننے کے لیے اسلام آباد سے لاہورخصوصی طیاروں پر جج باہم پہنچائے جاتے ہیں۔عدالتوں میں نظریہ ضرورت زندہ رہتا ہے۔باہر سے بلواکرانصاف بھی دیدیاجاتا ہے اور ایسی درخواستیں بھی سماعت کے لیے منظورکرلی جاتی ہیں جو جرم ابھی ہوانہیں ہوتا لیکن ہونیکاامکان وغیرہ ہوسکتا ہو۔اگر کوئی لاڈلا فیصلے کی دھجیاں اڑاتا ہوا اپنی مرضی کرلے تو اگلے دن اس قدرشرافت اور متانت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کیا کہنے۔ یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ممکن ہے ہمارا فیصلہ درست طریقے سے اس تک پہنچا نہ ہو۔

ایسی عدلیہ اور کہاں دیکھی ہے کہ جو اپنے فیصلے (عمران خان لانگ مارچ کیس) کی خلاف ورزی کے مقدمے میں قانون نافذکرنے والے اداروں سے رپورٹیں منگوائے اور جب دیکھے کہ ساری رپورٹیں یہ بتارہی ہیں کہ فیصلے کی خلاف ورزی جان بوجھ کرکی گئی ہے تو عدلیہ اپنے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر سزا کی بجائے اس کیس پر بیٹھ ہی جائے اور پھرکبھی اس کیس کی سماعت ہی نہ ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں دیکھی ہے جو اپنے ہی ایک ساتھی کا احتساب کرنے کے لیے اس قدر تیزی سے آگے بڑھے کہ سب کو ”انصاف“ہوتا ہوا نظرآنا شروع ہوجائے۔

ایسی عدلیہ اور کہاں ملے گی جس کے دو تین جج اس قدر زیادہ کام کرنے کو پسند کرتے ہوں کہ ہر سیاسی کیس خود سننے کو ترجیح دیں۔ ایسے کام کرنیولے مائی لارڈ کہ سپریم کورٹ کے باقی جج”ویلے“ بیٹھے رہیں۔ دوتین ججوں کو انصاف فراہم کرنے میں اس قدر دلچسپی ہو کہ پوری حکومت اور اس میں شامل گیارہ جماعتیں درخواست کریں کہ مائی لارڈ باقی ججوں کوشامل کرکے فل کورٹ بنادیں تاکہ دوسرے ججز بھی انصاف دے سکیں لیکن اس درخواست کومستردکرکے کہا جائے کہ نہیں صرف یہی تین کافی ہیں۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو ہر سیاسی مقدمے کو سننے کے لیے بے تاب نظرآئے اورجیلوں میں بند انصاف کے منتظرلوگوں کے فیصلے ان کی موت کے بعد بھی کرنے پڑیں تو خیر ہے کہ وہ تو بھیڑ بکریاں ہیں انصاف کی ضرورت تو صرف وزیراعلیٰ بننے اور وزیراعلیٰ کی کرسی چھوڑنے والوں کو ہے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کاکیس سات سال سے پڑا ہواور ابھی تک جے آئی ٹی جے آئی ٹی ہی کا کھیل جاری ہو۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی  جو کروڑوں ووٹوں سے اقتدارمیں آنے والوں کوایک منٹ میں اقتدار سے نکال دے اورپھر فخر سے ریمارکس دے کہ ا ٓپ فل کورٹ کیوں مانگ رہے ہیں ہم نے پانچ رکنی بینچ سے  وزیراعظم تک کو گھر بھیج رکھاہے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو پہلے وزیراعظم نکالتی تھی اب وہ وزیراعلیٰ نکالتی بھی ہے اور لگاتی بھی ہے۔

ایسی عدلیہ کہا ں ملے گی جو ایسے فیصلے دے کہ اس کو پہلے ہی پتہ ہو کہ گورنرحلف نہیں لے گا تو پھر اگلا بندہ کون ہوگا۔ جو یہاں تک لکھے کہ گورنر نہ حلف نہ لے تو اس ملک کاصدرخود ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سے حلف لے اور اس حلف کا وقت بھی عدلیہ ہی بتائے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی کہ اگر کوئی اپنے عہدے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کو بلا کر سزا دینے کی بجائے اس کا کام ہی کسی دوسرے کو دے دے۔ حمزہ کا حلف اگر گورنر عمر چیمہ نہ لے تو اسپیکر قومی اسمبلی کو خصوصی طیارے پر لاہور بلوالیا جائے اور پرویزالہی کا حلف بلیغ الرحمان نہ لے تو پرویز الٰہی کو خصوصی طیارے پر بٹھا کر رات کے پچھلے پہر اسلام آباد پہنچا دیا جائے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کو انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بھی ملک کی معیشت کی فکر ہو۔جو ریمارکس دے کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔جو یہ بھی بتائے کہ ڈالر مہنگا ہورہا ہے  لیکن اپنے فیصلے میں لکھ دے کہ حلف اگر لاہور میں نہ ہوسکے تو فوری اسلام آباد لایا جائے۔

ایسی عدلیہ آپ کو کہاں ملے گی جس کا کام تو آئین کی تشریح ہو لیکن وہ آئین لکھنے کا کام بھی کرتی ہو۔ آرٹیکل تریسٹھ اے میں منحرف ہونے اور اس کی سزامقرر کردی گئی ہو لیکن عدلیہ کہے کہ ہم اس میں ووٹ شمار نہ کرنے کا اضافہ کردیتے ہیں تاکہ پنجاب میں بننے والی حکومت ہی گرجائے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو پہلے اپنے فیصلوں سے بحران پیدا کرے اور پھر خود ہی اس بحران سے نکلنے کے فیصلے کرے جو مزید بحران کو جنم دیں اور اس طرح بحرانوں کا یہ سائیکل چلتا ہی رہے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو ہمیں دائروں میں گھومتے رہنے کا موقع فراہم کرے۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کو ایک بار ایک شخص رات کو کھلنے کا طعنہ دے اور وہ اس قدر خوف زدہ ہوجائے کہ عدالت میں اس کا ذکر کرے اور اس قدر ڈر جائے کہ جب بھی وہ جماعت رات کے وقت عدالت کا دروازہ کھولنے کی بات کرے تو عدالت رجسٹرارکو وقت سے پہلے ہی عدالت پہنچادے اور وہ عدالت میں بیٹھ کر پٹیشن تیار ہونے کاانتظارکرے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی  جس پررفیق تارڑ سے بریف کیس لینے کا الزام ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس پر شہبازشریف کے ٹیلی فون پر فیصلے لینے کا الزام ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کاسربراہ بابا رحمتا بن کر ڈیم بناتا پھرے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کاسربراہ میڈیکل کالجوں اوراسپتالوں پر چھاپے مارتا پھرے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو واٹس ایپ پر جے آئی ٹی بنوائے۔بلیک لاڈکشنری سے نہ لینے والی تنخواہ پر ملک کا وزیراعظم نااہل کردے۔جو ایک جج کی بلیک میل کرنے فیصلے لینے کی ویڈیودیکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔جو پانامہ میں شامل چار سومیں سے ایک کا انتخابات کرکے سزادے اور باقی تین سوننانوے کو بھول جائے۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو اپنے ہی ایک بھائی جج کو انصاف نہ دے سکے اور وہ جج انصاف کی راہ تکتاتکتا ریٹائر ہوجائے۔اور ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو سیاسی مقدمات کا فیصلے دیتے وقت پارٹی کے سربراہ کے بجائے اسمبلی میں موجود پارلیمانی پارٹی کوطاقتوراور محترم قراردے لیکن اپنی سپریم کورٹ کے لیے سب اختیار اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دے اوراس کی اپنی عدالتی پارٹی کے باقی ججز انصاف برتنے کے لیے اسی کو خط لکھتے رہیں۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس پر بینچ فکسنگ کے الزامات لگیں لیکن وہ کسی کوسننے کوتیار نہ ہو۔اس لیے اتنی ”فعال“اور ”منصف“ عدلیہ کو انصاف کی فراہمی میں ایک سوتیسواں نمبر دینا سوائے پراپیگنڈے کے اور کیا ہوسکتا ہے؟

نوٹ:عدلیہ اور ججز بہت ہی محترم ہیں میں یا کوئی اور شخص ان کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ کالم عوام کے اس تاثر کو بیان کرتا ہے جو اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔لیکن اس کا یہ مقصد بھی نہیں سیاستدان  غلطیوں سے مبراہیں۔

Friday, July 15, 2022

By Elections in 20 Seats of Punjab Assembly

 

پنجاب کے 20ضمنی حلقوں کی مکمل تفصیلات

10امیدوارایسے ہیں جو2018میں آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئےتھے

بیس میں سے صرف چھ حلقے ایسے ہیں جن کے ایم این ایزکا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے

ایک حلقے کے ایم این اے پیپلزپارٹی سے باقی 13حلقوں کے ایم این ایز پی ٹی آئی سے ہیں

ان تیرہ میں سے تین ایم این اے ایسے ہیں جو منحرف ہیں

پانچ سے چھ سیٹوں پر مقابلہ انتہائی سخ ہے ان میں دولاہوراور باقی جنوبی پنجاب کی سیٹیں ہیں

3حلقے ایسےہیں یہاں پی ٹی آئی نے ن لیگ کے سابق امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے

بیس کے بیس حلقوں میں عمران خان اور مریم نوازنے خود جاکر الیکشن مہم میں حصہ لیا اور جلسے کی

       حلقہ پی پی 7 راولپنڈی 

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: راجا صغیراحمد

پی ٹی آئی کے امیدوار :کرنل (ر) شبیراعوان

2018کے نتائج

ن لیگ کے امیدوارراجا صغیرنے یہ سیٹ دوہزاراٹھارہ میں آزادحیثیت میں 43ہزار3سو63ووٹ لےکر جیتی تھی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔

دوسرے نمبرپراس وقت ن لیگ کے راجا محمد علی نے 42ہزار4سو59ووٹ لیے تھے

تیسرے نمبرپرپی ٹی آئی رہی تھی پی ٹی  آئی کےغلام مرتضیٰ ستی نے40ہزار5سو28 ووٹ لیے تھے

چوتھے نمبرپر ٹی ایل پی رہی تھی

اس وقت جیتنے والے راجا صغیرن لیگ کے امیدوارہیں جبکہ پی ٹی  آئی نے اپنا امیدوارتبدیل کیاہے پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل شبیرنے پیپلزپارٹی کی طرف  سے 2008کا الیکشن لڑاتھا اور ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ بعدمیں کرنل شبیر پی ٹی آئی میں شامل  ہوگئے۔

یہ حلقہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 57کے نیچے ہے یہاں پی ٹی آئی کے صداقت علی عباسی ایم این اے ہیں 

2۔۔۔ حلقہ پی پی 83خوشاب ٹو

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: ملک امیرحیرر سانگھا

پی ٹی آئی کے امیدوار  : ملک حسن اسلم

2018 کے نتائج

یہ سیٹ آزاد امیدوارملک غلام رسول سانگھا نے 68ہزار9سو59ووٹ لےکر جیتی تھی بعد میں وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے

اس بار وہ خود الیکشن نہیں لڑرہے بلکہ ان کی جگہ ان کا بیٹا لڑرہا ہے

دوسرے نمبرپرن لیگ کے آصف ملک نے47ہزار6سو84ووٹ حاصل کرکے رہے۔

تیسرے نمبر پرآزاد امیدوار ملک ظفراللہ تھے جنہوں نے 10زاہرووٹ حاصل کیے

پی ٹی آئی اس حلقے میں پانچویں نمبر رہی تھی اور اس نے صرف 8ہزارووٹ حاصل کیے تھے

جبکہ چوتھے نمبر پر ٹی ایل پی آئی تھی

پی ٹی آئی کے امیدواراس ضمنی الیکشن میں اسی حلقے کے ایم این اے ملک عمراسلم کے بیٹے ہیں اس حلقے کا ایم این اے بھی پی ٹی آئی کاہی ہے۔

اس حلقے میں سانگھا خاندان کافی مضبوط ہے اور اس بار بھی کامیابی کا امکان ہے۔

 

3---حلقہ پی پی 90بھکرٹو

 

مسلم لیگ کے امیدوار: سعید اکبر نوانی

پی ٹی آئی کے امیدوار: عرفان اللہ نیازی

2018 کے نتائج

اس حلقے میں سعید اکبر نوانی59350ووٹ لےکر آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئےتھے جو بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔

دوسرے نمبرپرن لیگ کے عرفان اللہ نیازی نے44ہزار ووٹ لیے تھے اب عرفان نیازی ناراض ہوکر لوٹے ہوکر پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑرہےہیں

پی ٹی آئی اس حلقے میں تیسرے نمبرپررہی تھی ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے احسان اللہ خان نے 40ہزارووٹ لیے تھے۔

اس بار سعید اکبرنوانی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے کیونکہ ن لیگ کا امیدوار ناراض ہوکر پی ٹی آئی کی طرف ہے اور ن لیگ کے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

سعید اکبر نوانی ترین گروپ کے ترجمان بھی ہیں۔

یہ حلقہ این اے 97میں آتا ہے جس کا ایم این اے بھی پی ٹی آئی کا ثناللہ مستی خیل ہے

 

 

4۔۔۔۔ حلقہ پی پی 97 فیصل اباد ون

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: اجمل چیمہ

پی ٹی آئی کےامیدوار: علی افضل ساہی

اجمل چیمہ سابق صوبائی وزیربھی رہے ہیں

2018کے نتائج

دوہزار اٹھارہ میں اجمل چیمہ نے 42ہزاردوسو73ووٹ لے کرآزادکامیابی حاصل کی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے

دوسرے نمبرپرپی ٹی آئی کے علی افضل ساہی رہے تھے جنہوں نے 37ہزارووٹ لیے تھے

تیسرے نمبرپرمسلم لیگ ن تھی جس کے آزاد علی تبسم نے 35ہزارووٹ لیے تھے۔

اس حلقے میں اس بار علی افضل ساہی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے کیونکہ ن لیگ یہاں بھی تقسیم ہے۔ اور پچھلے الیکشن میں بھی علی افضل صرف چھ ہزار ووٹ سے ہارے  تھے۔

یہ حلقہ این اے 101کے نیچے ہے یہاں پی ٹی آئی کے عاصم نذیرایم این اے ہیں ۔ عاصم نذیر بھی منحرف اراکین میں شامل ہیں جنہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا اور اگلا الیکشن بھی ن لیگ سے ہی لڑیںگے۔

 

5۔۔۔۔حلقہ پی پی 125 جھنگ ٹو

 

مسلم لیگ کے امیدوار:فیصل حیات جبوآنہ

پی ٹی  آئی کے امیدوار: محمد اعظم چیلا

2018 کے نتائج

یہ حلقہ فیصل حیات جبوآنہ نے 50ہزارووٹ لےکرآزاد حیثیت میں جیتاتھا بعد میں وہ پی ٹی ئی میں شامل ہوگئے

دوسرے نمبر پرپی  ٹی آئی کے اعظم چیلا نے 38ہزار4سو61ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں اٹھارہ میں بھی ون ٹوون مقابلہ تھا اور جبوآنہ نے بارہ ہزار کی لیڈسے جیتا تھا اٹھارہ میں اس حلقے میں ن لیگ کا امیدوار نہیں تھا اس بات بھی جبوآنہ کی پوزیشن بہتر ہے

اس حلقے میں دوہزار تیرہ میں ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے بننے والے افتخار بلوچ اس بار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں اور انہیں ٹی ایل پی کی سپورٹ حاصل ہے۔

یہ حلقہ بھی پی ٹی آئی کے ایم این اے کے نیچے ہے یہاں سابق وفاقی وزیرپی ٹی آئی کے صاحبزدہ محبوب سلطان ایم این اے ہیں

 

6۔۔۔حلقہ پی پی 127 جھنگ فور

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: مہر اسلم بھروانہ

پی ٹی آئی کے امیدوار :محمد نوازبھروانہ

2018 کے نتائج

دوہزار اٹھارہ میں اس حلقے سے مہر اسلم بھروانہ 27ہزار3سو53ووٹ لے کرآزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے

دوسرے نمبر پی ٹی آئی کے محمد  نوازبھروانہ رہے تھے جنہوں نے 26ہزار7سو65ووٹ لیے تھے جیت کامارجن صرف پانچ سوووٹوں کا تھا

اس بار دونوں ہی وہی امیدوار ہیں جنہوں نے اٹھارہ میں مقابلہ کیا تھا بس یہ فرق ہے کہ اسلم بھروانہ آزاد لڑے تھے اب وہ ن لیگ کے امیدوار ہیں

اس حلقے میں ن لیگ کے امیدوارمحمد سلیم طاہر نے صرف 19سو49ووٹ لیے تھے ۔اگر مہراسلم بھروانہ اپنا پورا ووٹ بینک قائم رکھیں اور ن لیگ کے انیس سوووٹ بھی شامل ہوں تب جیت ممکن ہوسکتی ہے ، ویسے مقابلہ انتہائی سخت ہوگا۔

یہ حلقہ بھی پی ٹی آئی کی ایم این اے غلام بی بی بھروانہ کے نیچے ہے۔

 

 

7۔۔۔۔ حلقہ پی پی 140 شیخوپورہ سکس

 

مسلم لیگ کے امیدوار: میاں خالد محمود

پی ٹی آئی کے امیدوار: خرم ورک

2018 کے نتائج

2018میں  اس حلقے میں میاں خالد نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی اور32ہزار8سو62ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبرپرمسلم لیگ ن کے یاسر اقبال نے 26ہزار29ووٹ لیے تھے

میاں خالد محمود نے دوہزار دو میں ق لیگ سے پہلی مرتبہ الیکشن لڑاتھا اور ایم پی اے منتخب  ہوئے تھے انہوں نے اٹھارہ میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑااور کامیاب ہوئے تھے

میاں خالد محمود کا تعلق علیم خان گروپ سے ہے

یہ حلقہ این اے 121کے نیچے ہے یہاں ن لیگ کے میاں جاوید لطیف ایم این اے ہیں

اس حلقے میں میاں خالد کی جیت کا امکان ہے

 

8۔۔۔۔ حلقہ پی پی 158 لاہورپندرہ

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: احسن شرافت

پی ٹی آئی کے امیدوار :میاں عثمان اکرم

میاں عثمان اکرم پی ٹی آئی کے سابق وزیرمیاں محمودالرشید کے داماد ہیں

2018کے نتائج

اٹھارہ میں اس حلقے سے علیم خان نے 52ہزار2سو99ووٹ لےکرکامیابی حاصل کی تھی

دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کے احسن شرافت تھے جنہوں نے45ہزار2سو28ووٹ لیے تھے

اس بار علیم خان الیکشن نہیں لڑرہے اس لیے ٹکٹ مسلم لیگ ن کے سابق ٹکٹ ہولڈر احسن شرافت کو ہی دیا گیا ہے۔ علیم خان ن لیگ کے امیدوارکی سپورٹ کررہے ہیں

پی ٹی آئی کا امیدوآر اس حلقے میں کافی کمزور ہے اس لیے لاہور سے یہ حلقہ میں ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے

یہ حلقہ مسلم لیگ  ن کے ایاز صادق کے نیچے ہے

 

9۔۔۔۔ حلقہ پی پی 167لاہورچوبیس

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: نذیرچوہان

پی ٹی آئی کے امیدوار: شبیر گجر

2018کے نتائج

اٹھارہ میں اس حلقے میں نذیر چوہان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئےتھے انہوں نے40ہزار7سو4ووٹ لیےتھے

دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن کے میاں سلیم تھے جنہوں نے38ہزار4سوووٹ لیے تھے

اس بار میاں سلیم نذیر چوہان کی حمایت کررہے ہیں نذیرچوہان کی جیت کے امکان ففٹی ففٹی ہیں کیوں کہ نذیر چوہان کئی قسم کے تنازعات میں شامل رہے ہیں

نذیر چوہان کے مد مقابل شبیر گجرپہلی بارمیدان میں ہیں انہیں ایک پیسے والی پارٹی سمجھ کر ٹکٹ دیا گیا ہے

شبیر گجر کوجوہرٹاون اور نذیرچوہان کوٹاون شپ اور گرین ٹاون کے علاقوں میں برتری حاصل ہے

یہ حلقہ ن لیگ کی ایم این اے شائستہ پرویز ملک کے نیچے ہے یہاں ابھی آٹھ ماہ پہلے ہی الیکشن ہوا تھا جو ن لیگ نے جیتا تھا۔

 

10۔۔۔حلقہ پی پی 168لاہورپچیس

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: ملک اسد کھوکھر

پی ٹی آئی کے امیدوار : ملک نوازاعوان

2018 کے نتائج

اس حلقے سے اٹھارہ کے بعد سعد رفیق نے صوبائی نشست چھوڑی تھی اس پر ضمنی الیکشن ہوئےجو اسد کھوکھرنے پی  ٹی  آئی کے ٹکٹ پر جیتا انہوں نے 17ہزار5 سو79ووٹ حاصل کیے تھے

دوسرے نمبرپرن لیگ کے رانا خالد ایڈووکیٹ تھے انہوں نے 16ہزار8سو92ووٹ حاصل کیے تھے

اس حلقے میں اسد کھوکھر کی پوزیشن مضبوط ہے کیونکہ ان کے مقابلے میں امیدوار نیاہے اوراسد کھوکھرکواپنی برادری اور ن لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ سیٹ خواجہ سعد رفیق نے چھوڑی تھی اور وہ اور ان کے بھائی اسد کھوکھرکی مہم چلارہے رہے ہیں

یہ حلقہ ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق اورشائستہ پرویز کے نیچے آتا ہے حلقے میں ن لیگ کوکبھی شکست نہیں ہوئی اب تک

 

11۔۔۔۔ حلقہ پی پی 170 لاہورستائیس

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: امین چودھری

پی ٹی آئی کے امیدوار : ملک ظہیر کھوکھر

2018 کے نتائج

اس حلقے میں امین چودھری نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی انہوں نے25ہزارایک سو80 ووٹ لیے تھے۔ امین چودھری کپتان کے سابق قریبی ساتھی عون چودھری کے بھائی ہیں۔

دوسرے نمبر پر ن لیگ کے عمران جاوید تھے انہوں نے 20ہزار7سو30 ووٹ حاصل کیے تھے

اس حلقے میں پی ٹی آئی  کی پوزیشن کافی بہتر ہے گوکہ ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈر عمران جاوید خود مہم چلارہے ہیں لیکن ان کے مدمقابل ملک ظہیر عباس کھوکھرہیں جن کو کھوکھربرادری کی حمایت حاصل ہے

یہ حلقہ پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائیتیوں ویلنشیا ، این ایف سی ، واپڈاٹاون جیسے پوش علاقوں پر مشتمل ہے یہاں پی  ٹی آئی کی کافی  اکثریت ہے۔

ملک ظہیرعباس بیت المال کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

یہ حلقہ بھی ن لیگ کے ایم این اے رانا مبشر کے نیچے ہے

                        

12۔۔۔۔ حلقہ پی پی 202ساہیوال سات

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:ملک نعمان لنگڑیال

پی ٹی آئی کے امیدوار :میجرریٹائرڈ غلام سرور

2018کے نتائج

اس حلقے میں ملک نعمان لنگڑیال نے 57ہزار5سو40ووٹ لےکرپی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی

دوسرے نمبرپرن لیگ کے شاہد منیر رہے تھے انہوں نے 44ہزار3سو49ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں ایک تیسرا امیدوار بھی ہے اس کا نام عاد سعید گجر ہے جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن ٹکٹ میجر غلام سرور کو مل گیا تو وہ ناراض ہوکر آزاد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں

میجر غلام سرور نے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا تھا اب وہ پی ٹی آئی سے لڑرہے ہیں

اس حلقے میں ن لیگ کے جیتنے کے امکانات ہیں کیونکہ پی ٹی  آئی کا ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ موجود ہے

یہ حلقہ پی ٹی آئی کےایم این اے مرتضیٰ اقبال کے نیچے ہے

                        

13۔۔۔۔ حلقہ پی پی 217ملتان سات

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: محمد سلمان نعیم

پی ٹی آئی کے امیدوار:زین قریشی

2018کے نتائج

اس حلقے میں سلمان نعیم نے آزاد حیثیت میں پی  ٹی  آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی انہوں نے35ہزار2سو34ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبرپر شاہ محمود قریشی نے 31ہزار 7 سو16ووٹ لیے تھے

ن لیگ کے تسنیم کوثر اکیس ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پررہے تھے

یہ ملتان کا حلقہ ہے یہاں شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت پر ہی خود کوہرانے کا الزام لگایا تھا اور اب ان کے بیٹے الیکشن لڑرہے ہیں زین قریشی اس وقت ایم این اے بھی ہیں

اس سیٹ پر بھی  سخت مقابلہ ہوگا زین قریشی پر دس ووٹ کے بدلے ایک موٹرسائیکل دینے کاالزام لگاہے جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس بھی لیا  ہے

اس حلقے میں دوبارہ سلمان نعیم کی پوزیشن مضبوط ہے سلمان نعیم جہانگیر ترین کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔

یہ حلقہ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی کے نیچے ہے

 

 

14۔۔۔۔ حلقہ پی پی224لودھراں ون

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:زوارحسین وڑائچ

پی ٹی آئی کے امیدوار:عامر اقبال شاہ

یہ حلقہ جہانگیرترین کا آبائی حلقہ ہے اورزوارحسین وڑائچ ترین کے قریبی ساتھی ہیں ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار عامر اقبال شاہ کا تعلق ن لیگ سے تھا وہ اٹھارہ میں ن لیگ کے امیدوار تھے ان کے والد اقبال شاہ نے جہانگیرترین کے بیٹے علی ترین کو ضمنی الیکشن میں شکست دی تھی لیکن اب وہ ناراض ہوئے ن لیگ سے تو پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ دیدیا یہ بھی لوٹے ہیں

2018 کے نتائج

اٹھارہ میں اس حلقے میں زوار وڑائچ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی  تھی انہوں نے 60ہازر4سو82ووٹ حاصل کیے تھے

دوسرے نمبر پر ن لیگ کے عامراقبال شاہ رہے  تھے انہوں نے48ہزارووٹ حاصل کیے تھے

اب بھی یہ دونوں امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان کی پارٹیاں اب تبدیل ہوچکی ہیں۔ اس لیے صورتحال اس حلقے میں بہت دلچسپ ہے لیکن ترین کا یہ آبائی حلقہ ہے اس لیے وہ پورازور لگارہے ہیں کہ یہاں ناکامی نہ ہو ان کو۔اس حلقے میں ن لیے کے کانجوبرادران کا بھی کافی اثر ورسوخ ہے۔

یہ حلقہ این اے 154کے نیچے ہے یہاں ن لیگ کے عبدالرحمان کانجو ایم این اے ہیں۔

 

15۔۔۔حلقہ پی پی 228لودھراں تھری

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:نذیر احمد بلوچ

پی ٹی آئی کے امیدوار:کیپٹن جاوید خان

جاوید خان 2013میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور اس سے پہلے یہ بھی ترین گروپ میں شامل  رہے ہیں

2018کے نتائج

اٹھارہ میں نذیر بلوچ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن  جیتا تھا اور43ہزارایک سو69ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبر پرن لیگ کے سید رفیع الدین تھے جنہوں نے 41ہزار ووٹ حاصل کیے تھے

اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈرسید رفیع الدین ن لیگ سے ناراض ہوکر آزاد لڑرہے ہیں یہ بھی ایک مضبوط امیدوار ہیں اس لیے یہاں ن لیگ کی پوزیشن کافی کمزور ہے اور یہ سیٹ ہاتھ سے جاسکتی ہے

یہ حلقہ پی ٹی آئی کے ایم این اے میاں شفیق کے نیچے آتا ہے

 

 16۔۔۔حلقہ پی پی 237بہاولنگرون

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:فداحسین

پی ٹی آئی کے امیدوار:سید آفتاب رضا

2018کے نتائج

اٹھارہ میں فداحسین نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت کی تھی انہوں نے 56ہزار4سو11ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبرپرطارق عثمان رہے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا انہوں نے 47ہزار6 سو30ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں فدا حیسن کی پوزیشن مضبوط ہے فدا حسین تین مرتبہ اسی حلقے سے مسلسل الیکشن جیت رہے ہیں اور اس بار بھی انہیں کے چانسز ہیں کیونکہ ان کے مدمقابل آفتاب پہلی مرتبہ الیکشن لڑرہےہیں پی ٹی آئی نے اپنے پچھلے امیدوار طارق عثمان کو ٹکٹ نہیں دیا اس لیے وہ ناراض ہیں۔

یہ حلقہ بھی  پی ٹی آئی کے ایم این اے غفار وٹو کے نیچے آتا ہے۔

 

17۔۔۔۔ حلقہ پی پی 272مظفرگڑھ پانچ

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:زہرہ باسط بخاری

پی ٹی آئی کے امیدوار: معظم خان جتوئی

2018کے نتائج

یہ حلقہ بڑا دلچسپ ہے یہاں سے سید باسط بخاری این اے اورپی پی دونوں سیٹوں پر کامیاب ہوئے تھے لیکن انہوں نے قومی اسمبلی کی  سیٹ رکھی اور پنجاب کی  یہ سیٹ چھوڑدی تھی اس سیٹ پر ان کی والدہ نے ضمنی الیکشن لڑا اوروہ جیت گئیں

اس بار انہوں نے اپنی اہلیہ کو الیکشن میں اتاراہے اور خود ان کی انتخابی مہم چلارہے ہیں یہاں تک  کہ کسی اشتہارپر ان کی اہلیہ کی تصویرتک نہیں ہے اہلیہ کی جگہ سید باسط کی اپنی تصاویر ہیں

سید باسط بخاری منحرف ایم این اے ہیں اور حال ہی میں کشمیر  کمیٹی کے چیئرمین منتخب  ہوئے ہیں

اس حلقے میں ان کے بھائی بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہےہیں

اس حلقے میں معظم جتوئی پی ٹی آئی کے امیدوارہیں جو پیپلزپارٹی کے سابق وزیرقیوم جتوئی کے کزن ہیں

اس حلقےمیں کسی پارٹی کا ووٹ نہیں  ہے بلکہ یہاں امیدواروں کا ذاتی اوربرادری کا ووٹ ہے ۔

اس حلقے میں بتول باسط کی جیت کے چانسز زیادہ ہیں۔

 

 

 

18۔۔۔ پی پی 273 مظفرگڑھ چھ

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:سبطین رضا

پی ٹی آئی کے امیدوار:یاسرخان جتوئی

2018کے نتائج

اٹھارہ میں سبطین رضا نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر36ہزار ووٹ لےکر یہ سیٹ حاصل کی تھی اب وہ منحرف ہوکر دوبارہ ن لیگ سے لڑرہےہیں

دوسرے نمبر پرآزاد امیدوار رسول بخش تھے جنہوں نے 26ہزار ووٹ لیے تھے

پی ٹی آئی کے امیدوار یاسر جتوئی اس سے پہلے پیپلزپارٹی میں تھے یہ تیرہ میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے تھے

حلقے میں سبطین رضا کی پوزیشن تھوڑی بہتر ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے امیدوار کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے نہیں ہے لیکن جتوئی برادری کی سپورٹ انہیں حاصل ہے ۔

یہ حلقہ پیپلزپارٹی کےایم این اے رضا ربانی کھرکے نیچے آتا ہے

 

19۔۔۔ حلقہ پی پی 282لیہ تھری

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:محمد طاہررندھاوا

پی ٹی  آئی کے امیدوار:قیصرعباس مگسی

2018کے نتائج

اٹھارہ  میں طاہررندھاوا نے آزاد حیثیت میں الیکشن جیت کرپی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی انہوں نے 37ہزار6سو7ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبر پرپی  ٹی  آئی کے قیصر عباس تھے جنہوں نے 26ہزار9سو92ووٹ لیے تھے

تیسرے نمبرپرن لیگ محمد ریاض تھے جنہوں نے 25ہزار ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار وہی ہے جو اٹھارہ میں تھا۔لیکن قیصر عباس پہلے ن لیگ سے دوبار ایم پی اے رہے ہیں انہوں نے آٹھ اور تیرہ میں ن لیگ  کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور جیتے لیکن وہ اٹھارہ میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے لیکن  ہار گئے

اس حلقے میں طاہررندھاوا کا اپنا ووٹ بینک ہے لیکن ن لیگ کا ٹکٹ محمد ریاض کو نہ ملنے پر مسائل ہوسکتے ہیں

یہ حلقہ پی ٹی آئی کے ایم این اے نیازاحمد جھکڑکے نیچے آتا ہے۔

 

20۔۔۔۔۔ حلقہ پی پی 288ڈیرہ غازی خان چار

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:عبدلقادرخان کھوسہ

پی ٹی  آئی کے امیدوار:سیف الدین خان کھوسہ

2018کے نتائج:

اٹھارہ میں اس حلقے میں محسن عطا کھوسہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اورانہوں نےپی ٹی  آئی میں شمولیت کی انہوں نے 39ہزار3سو96ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبر پرپی ٹی آئی کے سیف الدین کھوسہ رہے تھے انہوں نے 30ہزار ووٹ لیے تھے

اس حلقے کے ایم این اے امجد فاروق کھوسہ کا تعلق بھی  پی ٹی آئی سے ہے وہ بھی منحرف ہونے والوں میں شامل ہیں

اس حلقے میں اٹھارہ میں جیتے والے محسن کھوسہ الیکشن نہیں لڑرہے بلکہ ایم این اے امجد  فاروق کھوسہ نے اپنے بیٹے قادر کھوسہ کو ن لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا کیا ہے

اس حلقے میں پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی ہے اور دونوں طرف لوٹے ہیں

سیف کھوسہ سابق گورنر پنجاب ذوالفقار خان کھوسہ کا بیٹا ہے ان کا تعلق ن لیگ سے بڑی دیر تک  رہاہے

اور سیف کھوسہ تو ایک الیکشن پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر بھی لڑ چکے ہیں

اس حلقے میں بڑا تگڑا مقابلہ ہے کیونکہ دونوں طرف کھوسہ برادری کے ےہی امیدوار ہیں، لیکن قادر کھوسہ پہلی بار لڑرہے ہیں اور نوجوان بھی ہیں اور ان کے والد حلقے کے ایم این اے بھی ہیں جس کا فائدہ انہیں ہوسکتا ہے۔