Wednesday, July 27, 2022

Judiciary and Pakistan

ایک سوتیس نمبری؟

سپریم کورٹ نے ایک وزیراعلیٰ کو اتار کر دوسرے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا ہے۔ماشاء اللہ ہماری عدلیہ دنیا کی فعال ترین عدلیہ میں سے ایک ہے۔مجھے تو یہ پراپیگنڈا ہی لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی میں ہمارانمبرایک سو تیسواں  ہے اور ہم آخر سے صرف تین  درجے اوپر ہیں۔ایسی درجہ بندی کرنے والے ہی نالائق ہوں گے کیونکہ ہماری عدلیہ تو انصاف ہی نہیں اس ملک کو حکمران بھی فراہم کرتی ہے۔رات کے بارہ بجے عدالتیں کھول لیتی ہے۔مدعی کو وقت دیتی ہے کہ آپ سکون سے پٹیشن تیار کرلیں ہم بیٹھے ہیں اور وصول کرکے ہی جائیں گے۔کیس سننے کے لیے اسلام آباد سے لاہورخصوصی طیاروں پر جج باہم پہنچائے جاتے ہیں۔عدالتوں میں نظریہ ضرورت زندہ رہتا ہے۔باہر سے بلواکرانصاف بھی دیدیاجاتا ہے اور ایسی درخواستیں بھی سماعت کے لیے منظورکرلی جاتی ہیں جو جرم ابھی ہوانہیں ہوتا لیکن ہونیکاامکان وغیرہ ہوسکتا ہو۔اگر کوئی لاڈلا فیصلے کی دھجیاں اڑاتا ہوا اپنی مرضی کرلے تو اگلے دن اس قدرشرافت اور متانت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کیا کہنے۔ یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ممکن ہے ہمارا فیصلہ درست طریقے سے اس تک پہنچا نہ ہو۔

ایسی عدلیہ اور کہاں دیکھی ہے کہ جو اپنے فیصلے (عمران خان لانگ مارچ کیس) کی خلاف ورزی کے مقدمے میں قانون نافذکرنے والے اداروں سے رپورٹیں منگوائے اور جب دیکھے کہ ساری رپورٹیں یہ بتارہی ہیں کہ فیصلے کی خلاف ورزی جان بوجھ کرکی گئی ہے تو عدلیہ اپنے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر سزا کی بجائے اس کیس پر بیٹھ ہی جائے اور پھرکبھی اس کیس کی سماعت ہی نہ ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں دیکھی ہے جو اپنے ہی ایک ساتھی کا احتساب کرنے کے لیے اس قدر تیزی سے آگے بڑھے کہ سب کو ”انصاف“ہوتا ہوا نظرآنا شروع ہوجائے۔

ایسی عدلیہ اور کہاں ملے گی جس کے دو تین جج اس قدر زیادہ کام کرنے کو پسند کرتے ہوں کہ ہر سیاسی کیس خود سننے کو ترجیح دیں۔ ایسے کام کرنیولے مائی لارڈ کہ سپریم کورٹ کے باقی جج”ویلے“ بیٹھے رہیں۔ دوتین ججوں کو انصاف فراہم کرنے میں اس قدر دلچسپی ہو کہ پوری حکومت اور اس میں شامل گیارہ جماعتیں درخواست کریں کہ مائی لارڈ باقی ججوں کوشامل کرکے فل کورٹ بنادیں تاکہ دوسرے ججز بھی انصاف دے سکیں لیکن اس درخواست کومستردکرکے کہا جائے کہ نہیں صرف یہی تین کافی ہیں۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو ہر سیاسی مقدمے کو سننے کے لیے بے تاب نظرآئے اورجیلوں میں بند انصاف کے منتظرلوگوں کے فیصلے ان کی موت کے بعد بھی کرنے پڑیں تو خیر ہے کہ وہ تو بھیڑ بکریاں ہیں انصاف کی ضرورت تو صرف وزیراعلیٰ بننے اور وزیراعلیٰ کی کرسی چھوڑنے والوں کو ہے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کاکیس سات سال سے پڑا ہواور ابھی تک جے آئی ٹی جے آئی ٹی ہی کا کھیل جاری ہو۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی  جو کروڑوں ووٹوں سے اقتدارمیں آنے والوں کوایک منٹ میں اقتدار سے نکال دے اورپھر فخر سے ریمارکس دے کہ ا ٓپ فل کورٹ کیوں مانگ رہے ہیں ہم نے پانچ رکنی بینچ سے  وزیراعظم تک کو گھر بھیج رکھاہے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو پہلے وزیراعظم نکالتی تھی اب وہ وزیراعلیٰ نکالتی بھی ہے اور لگاتی بھی ہے۔

ایسی عدلیہ کہا ں ملے گی جو ایسے فیصلے دے کہ اس کو پہلے ہی پتہ ہو کہ گورنرحلف نہیں لے گا تو پھر اگلا بندہ کون ہوگا۔ جو یہاں تک لکھے کہ گورنر نہ حلف نہ لے تو اس ملک کاصدرخود ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سے حلف لے اور اس حلف کا وقت بھی عدلیہ ہی بتائے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی کہ اگر کوئی اپنے عہدے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کو بلا کر سزا دینے کی بجائے اس کا کام ہی کسی دوسرے کو دے دے۔ حمزہ کا حلف اگر گورنر عمر چیمہ نہ لے تو اسپیکر قومی اسمبلی کو خصوصی طیارے پر لاہور بلوالیا جائے اور پرویزالہی کا حلف بلیغ الرحمان نہ لے تو پرویز الٰہی کو خصوصی طیارے پر بٹھا کر رات کے پچھلے پہر اسلام آباد پہنچا دیا جائے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کو انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بھی ملک کی معیشت کی فکر ہو۔جو ریمارکس دے کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔جو یہ بھی بتائے کہ ڈالر مہنگا ہورہا ہے  لیکن اپنے فیصلے میں لکھ دے کہ حلف اگر لاہور میں نہ ہوسکے تو فوری اسلام آباد لایا جائے۔

ایسی عدلیہ آپ کو کہاں ملے گی جس کا کام تو آئین کی تشریح ہو لیکن وہ آئین لکھنے کا کام بھی کرتی ہو۔ آرٹیکل تریسٹھ اے میں منحرف ہونے اور اس کی سزامقرر کردی گئی ہو لیکن عدلیہ کہے کہ ہم اس میں ووٹ شمار نہ کرنے کا اضافہ کردیتے ہیں تاکہ پنجاب میں بننے والی حکومت ہی گرجائے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو پہلے اپنے فیصلوں سے بحران پیدا کرے اور پھر خود ہی اس بحران سے نکلنے کے فیصلے کرے جو مزید بحران کو جنم دیں اور اس طرح بحرانوں کا یہ سائیکل چلتا ہی رہے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو ہمیں دائروں میں گھومتے رہنے کا موقع فراہم کرے۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کو ایک بار ایک شخص رات کو کھلنے کا طعنہ دے اور وہ اس قدر خوف زدہ ہوجائے کہ عدالت میں اس کا ذکر کرے اور اس قدر ڈر جائے کہ جب بھی وہ جماعت رات کے وقت عدالت کا دروازہ کھولنے کی بات کرے تو عدالت رجسٹرارکو وقت سے پہلے ہی عدالت پہنچادے اور وہ عدالت میں بیٹھ کر پٹیشن تیار ہونے کاانتظارکرے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی  جس پررفیق تارڑ سے بریف کیس لینے کا الزام ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس پر شہبازشریف کے ٹیلی فون پر فیصلے لینے کا الزام ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کاسربراہ بابا رحمتا بن کر ڈیم بناتا پھرے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کاسربراہ میڈیکل کالجوں اوراسپتالوں پر چھاپے مارتا پھرے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو واٹس ایپ پر جے آئی ٹی بنوائے۔بلیک لاڈکشنری سے نہ لینے والی تنخواہ پر ملک کا وزیراعظم نااہل کردے۔جو ایک جج کی بلیک میل کرنے فیصلے لینے کی ویڈیودیکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔جو پانامہ میں شامل چار سومیں سے ایک کا انتخابات کرکے سزادے اور باقی تین سوننانوے کو بھول جائے۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو اپنے ہی ایک بھائی جج کو انصاف نہ دے سکے اور وہ جج انصاف کی راہ تکتاتکتا ریٹائر ہوجائے۔اور ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو سیاسی مقدمات کا فیصلے دیتے وقت پارٹی کے سربراہ کے بجائے اسمبلی میں موجود پارلیمانی پارٹی کوطاقتوراور محترم قراردے لیکن اپنی سپریم کورٹ کے لیے سب اختیار اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دے اوراس کی اپنی عدالتی پارٹی کے باقی ججز انصاف برتنے کے لیے اسی کو خط لکھتے رہیں۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس پر بینچ فکسنگ کے الزامات لگیں لیکن وہ کسی کوسننے کوتیار نہ ہو۔اس لیے اتنی ”فعال“اور ”منصف“ عدلیہ کو انصاف کی فراہمی میں ایک سوتیسواں نمبر دینا سوائے پراپیگنڈے کے اور کیا ہوسکتا ہے؟

نوٹ:عدلیہ اور ججز بہت ہی محترم ہیں میں یا کوئی اور شخص ان کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ کالم عوام کے اس تاثر کو بیان کرتا ہے جو اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔لیکن اس کا یہ مقصد بھی نہیں سیاستدان  غلطیوں سے مبراہیں۔

No comments: