Wednesday, January 25, 2012

Imran Khan a man of contradictios..?



کپتان خان۔۔۔۔۔۔۔تضادات کا مجموعہ ۔۔۔؟






انیس سو بانوےمیں کرکٹ کاعالمی کپ جیتنا عمران خان کی زندگی کا بڑا کارنامہ ہے اور شاید یہی ان کی زندگی کا المیہ بھی۔یہ تجزیہ میرے مشاہدات پر مبنی ہے۔عمران خان صاحب نے کرکٹ کاورلڈ کپ جیت کر سمجھ لیاکہ شاید پاکستان پر حکمرانی بھی اتنی ہی آسانی سے مل سکتی ہے جتیا ایک میچ جیتنا جس میں کپتان کی حکمت عملی سے زیادہ ٹیم کے دوسرے دس کھلاڑیوں کی کارکردگی اور قسمت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتاہے۔
عمران خان کی حصول اقتدار کےلیے پندرہ سالہ جدو جہد نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ تضادات سے بھی بھرپور ہے۔اپنی تازہ شائع ہونے والی کتاب میں اور میرا پاکستان (جس کا اردو ترجمہ بھی ان کے ذاتی قصیدہ گو مولوی ہارون رشید نے کیا ہے)کےصفحہ223پرعمران خان نے لکھاہے کہ انہوں نے جولائی دوہزاردو(یعنی الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے)میں انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی جو ان کی پانچویں ملاقات تھی،تاکہ وہ پرویز مشرف کو روک سکیں ،انہیں منع کرسکیں کہ وہ ’’ٹھگوں کے ٹولے‘‘کواپنے ساتھ نہ ملائیں(یعنی ق لیگ)کیونکہ پرویز مشرف نے سیاست سے گند صاف کرنے کا وعدہ کیاہے۔عمران خان لکھتے ہیں کہ وہ جب وہان پہنچے تو وہاں جنرل احتشام ضمیر اور طارق عزیز بھی موجود تھے ،میں نے پرویز مشرف سے کہا کہ ان لوگوں کو اپنے ساتھ جمع نہ کریں تو انہوں نے کہا کہ عوام تو انہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں ،یہی جیتنے والے ہیں ،آپ بھی ساتھ آجائیں اس پر میں نے کہا کہ میں ایسے لوگوں کی موجودگی میں آپ کا ساتھ نہیں دوں گا،چاہے میں فیل ہی کیوں نہ ہوجاؤں۔یہ کہہ کر میں نے مشرف کو چھوڑ دیا۔
یہ تو وہ بات ہے جو عمران خان صاحب نے خود لکھی ہے لیکن واقفان حال کہتے ہیں کہ جھگڑا ٹھگوں کے ٹولے کا نہیں بلکہ ان کے سردار یعنی وزیراعظم بننے کا تھا جو مشرف چودھریوں کے ہوتے کسی اور کو نہیں بنا سکتا تھا۔خیر اگر اس بات پر بھی یقین کرلیا جائے تو عمران خان صاحب نے حق پر سٹینڈ لیا اور پندرہ سال فیل ہوتے رہے اور ہمیں کوشی ہوتی اگر وہ مزید پندرہ سال بھی ایسی ہی جدو جہد کرتے رہتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔کیونکہ انہیں اقتدار کی ہوس شدید ترین ہے ۔اس لیے آج انہوں نے وہی سٹینڈ لےلیا ہے جسے انہوں نےدس برس پہلے ٹھوکر ماری تھی یعنی وہ فرشتے کہاں سے لائیں کہ اقتدار میں آنے کےلیے سیٹوں کی ضرورت ہے جو شاہ محمود،جہانگیر ترین اور غلام سرور جیسے (ٹھگ) ہی جیت سکتے ہیں۔عمران خان اس وقت صحیح تھے یا آج، اس بات کا فیصلہ آپ خود کریں۔
اپنے ایک تازہ انٹرویو جو انہوں نے بھارتی ٹی وی کی اینکر برکھا دت کو دیا ہے اس میں انہوں نے بھارت کو یقین دلایا ہے کہ وہ پاکستان سے بھارت کیخلاف ہونے والی دہشت گردی کو ختم کردیں گے۔ہائے رے ہوس اقتدار کہ اس بات کو بھی سند دیدی کہ پاکستان سے دہشت گردی ہوتی ہے۔۔اس پر بحث نہیں انہوں نے ایک بات اور کہی کہ ڈرون حملوں کی حمایت کرنے والے لبرل نہیں بلکہ فاشسٹ ہیں اور یہ (پاکستان کا سکم)بدبودار فضلہ ہیں ۔ڈرون حملوں کی حمایت کون کررہا ہے؟ڈرون پالیسی جب بن رہی تھی اور جو بنارہا تھا یعنی جنرل مشرف!اس وقت تو عمران خان پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے کیمپ لگارہے تھے اور یہی خورشید قصوری ،جہانگیر ترین،غلام سرور خان،اویس لغاری یہ سب اس وقت اسی کیمپ میں تھے جو آج ان کی جماعت تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔وہ اس وقت لبرل تھے اور بدبودار فضلہ بھی اور اب وہ کیا ہیں؟
گزشتہ سال لمس میں خطاب میں کپتان خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ تیس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیں گے۔۔یہ بات جوانوں میں بہت پسند کی گئی کہ اب صحیح تبدیلی آئے گی !لیکن اب کیا اسی سالہ اصغر خان،جاوید ہاشمی ،شاہ محمود قریشی ،عمر کا آخری حصہ گزارنے والے سردار آصف احمد علی اور خورشید محمود قصوری نے اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ تیس سالہ عمر کا بنوا کر عمران خان کو دیدیا ہے یا اس کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ایسا سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیں گے !ایسا سرٹیفیکیٹ بھارتی آرمی چیف کو تو نہیں مل سکا وہاں تو معاملہ صرف ایک سال کم کرنے کا تھا جہاں تو بے حساب سال ہیں ۔کیا عمران پہلے ٹھیک تھے یا اب ۔۔یہ فیصلہ بھی آپ نےہی کرنا ہے۔
عمران خان آئی ایس آئی کی طرف سے سیاستدانوں کو پیسے دینے کے کیس کا بہت چرچا کررہے ہیں کیونکہ یہ کیس نوازشریف کیخلاف ہے لیکن وہ یہ شاید بھول جاتے ہیں ایجنسیاں آج بھی وہی کررہی ہیں لیکن شکل بدل گئی ہے پہلے پیسے دیتی تھیں اور اب شاید پیسے والے دیے جارہے ہیں اور یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ یہ سارے کبوتر عمران خان صاحب کی چھتری پر ہی بیٹھ رہے ہیں ۔تازہ مثال علیم خان صاحب ہیں ان کی شخصیت اور سیاسی کردار کا میں عینی شاہد بھی یوں اس پر بھر کبھی لکھوں گا۔ انہوں نےعمران خان صاحب کے لاہور کے جسلے کےلیے پچیس لاکھ روپے دیے تھے۔یہی علیم خان پہلے چودھری پرویز الٰہی کو بھی ایسے ہی بے حساب چندہ دیا کرتے تھے ۔اور پھر انہوں نے یہ چندہ چودھری صاحب سے سود سمیت کیسے وصول کیا اس کا احوال لاہور میں رہنے والے جانتے ہیں کہ ان کی تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کو این او سیز چودھری صاحب نے ہی جاری کرررکھے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر کپتان خان کامیاب ہوگئے تو آئندہ دستخط وہ کیا کریں گے!

Tuesday, January 24, 2012

Memo's Gate is ready to b locked ?

منصوراعجاز آنے کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان نہ آئے۔۔۔۔۔ ان کی وجہ سے پیالی میں وہ طوفان برپا ہوا کہ ادارے آمنے سامنے آئے، حکومت کے جانے کی باتیں ہوئیں، کسی کا استعفیٰ آیا توکسی کو عہدے سے برطرف کردیا گیا، سیاسی بھونچال میں مفاد پرستوں کا وقتی فائدہ ہوا تو حکومت کے قدم بھی ڈگمگاتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ منصوراعجازنے پہلے نو، پھر سولہ اور پھرچوبیس جنوری کی تاریخ دی، یہ بھی کہہ دیا کہ وہ کسی بھی قیمت پرپاکستان آنے کیلیے تیار ہیں لیکن وہ نہ آئے، ان کے نہ آنے کی ممکنہ وجوہات میں
پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہیں یا توامریکی حمایت حاصل نہیں یا پھرامریکی حکام نے انہیں پاکستان جانے سے روک دیا ہے۔
دوسرا امکان یہ کہ منصوراعجازکے پاس خودکوسچا ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد ہی موجود نہیں یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کمیشن کو مطمئن نہیں کر پائیں گے۔
یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں پاکستان آنے پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کرانے والوں نے ہی ہاتھ کھینچ لیاہو۔
چوتھا یہ کہ منصوراعجازکو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں سے ہی خوف آنے لگا ہو۔۔ کیونکہ وہ حکومت کے ماتحت ہیں۔
پانچویں وجہ یہ ہو سکتی ہےکہ منصوراعجاز پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور اداروں میں ٹکراؤ چاہتے تھے اوران کا یہ مقصدشاید پورا ہوگیا ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ منصور اعجازکوپاکستان میں سیاسی حمایت بھی حاصل نہیں رہی۔
ساتویں بات یہ ہوسکتی ہے کہ انہیں پاک فوج کی طرف سے پیغام پہنچایا گیا ہوکہ وہ پاکستان نہ آئیں۔
آٹھواں امکان یہ ہوسکتا ہے انہوں نے یہ باورکرلیا ہے کہ یہ توپاک امریکہ حکومتوں کا معاملہ ہے وہ اس میں کیوں پڑیں اور
یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ منصور اعجازکو یہ خوف ہوکہ پاکستان میں ان کا قیام طویل ہوسکتا ہے جس سے ان کا کاروبار بری طرح متاثرہوگا۔
وجہ کچھ بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ اگر میمو سے منصور نکل گیا تو میمو کے اس گیٹ پر تالا ضرور لگ جائے گا۔