Wednesday, June 8, 2022

EDEN Housing Society Fraud

 

ایڈن ہاوسنگ متاثرین بنام نیب


چھ جون بروز پیر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے لاہورکی احتساب عدالت پہنچا توعدالت کے بیرونی دروازے پرایڈن ہاوسنگ سوسائٹی کے فراڈ کے متاثرہ گیارہ ہزار خاندانوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد سرکار، نیب، ایڈن کے مالکان اور عدلیہ کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ جون کی گرمی اس قدررنگ دکھارہی تھی کہ صبح کے نو بجے ہی سورج سوا نیزے پر آکر چہروں کو جھلسارہا تھا۔ متاثرین میں بڑی تعداد میں خواتین، بیوہ، بچے اور ادھیڑ عمر کے ساتھ ساتھ عمررسیدہ افراد بھی شامل تھے۔ ان متاثرین کے صبر اور بے بسی نے اب شدید غصے کا روپ دھارلیا تھا۔ آج ایڈن کے فراڈیوں کے نیب ریفرنس کی آخری سماعت تھی  جس میں جج صاحب نے ایڈن کے مالکان اور نیب کے درمیان ملی بھگت سے طے پانے والی پلی بارگین کی منظوری دینی تھی۔ متاثرین عدالت کے احاطے میں جانے کے لیے کبھی گیٹ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کے ترلے کرتے تو کبھی غصے میں آکر ان کو ہی بددعائیں دینے لگ جاتے۔
افتخارچودھری،سابق چیف جسٹس
ایڈن کے فراڈیوں کے خلاف نیب کا کیس تو دوہزار انیس میں شروع ہوا لیکن یہ فراڈ تیرہ سال پرانا ہے ان تیرہ سالوں میں ایڈن کے ڈاکووں نے غریبوں کوپلاٹ اورگھر دینے کے بدلے اربوں روپے جمع کیے لیکن جب زمین دینے کی باری آئی تو یہ پیسا لے کر ملک سے بھاگ نکلے، ان لوگوں نے دبئی میں جاکر انہی پیسوں سے زمینیں خریدیں اپنے کاروبار بڑھائے اورپیچھے متاثرین کی ایک بے بس فوج اس پاکستان میں چھوڑ گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ملک میں انصاف عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔پھر وہ فراڈ کرتے بھی کیوں نہ کہ  انہیں اس ملک کے طاقتور وں کی مکمل پشت پناہی جو حاصل تھی۔ایڈین ہاوسنگ کا فراڈ پاکستان میں پیسے، اقتدار اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کی کہانی ہے۔آپ یہ جان کر حیران نہیں پریشان ہوں گے کہ ایڈن کے مالک ڈاکٹر امجد نے اس وقت اپنے بیٹے کا رشتہ ملک کے حاضرسروس چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی بیٹی سے طے کیا جب یہ فراڈ جاری تھا۔ اس کیس میں متاثرین کے ہاتھ اس لیے بھی کچھ نہ آسکا کیونکہ جب نیب نے ریفرنس فائل کیا تو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے داماد اور ایڈن کے مالک ڈاکٹر امجد کے بیٹے مرتضٰی امجد کو انٹرپول کے ذریعے دبئی میں گرفتار کیا لیکن افتخار چودھری کے دباو میں پاکستان کی ماتحت عدلیہ نے دبئی میں موجود اس مجرم کی یہاں لاہور میں ضمانت منظورکرلی۔ اس کے بعد وہ فراڈیا داماد کسی کے ہاتھ آیا اور نہ اس ملک کی عدلیہ نے اپنے سابق چیف جسٹس کو پوچھنے کی ہمت کی کہ جس دامادکی آپ نے اس کی غیرموجودگی میں ضمانت کروائی تھی وہ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوا؟

میں ان روتے سسکتے اورغصے میں سب کو بددعائیں دیتے متاثرین کو دیکھتا ہواعدالت کے احاطے میں داخل ہوا۔ سوچ بھی رہا تھا کہ اندر جج صاحب نے کرنا تو آج بھی کچھ نہیں۔ نیب جو پلی بارگین  کی پرچی لائے گا اس پر مہر ہی لگانی ہے تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ باہرسخت دھوپ میں سلگتے ان متاثرین کو عدالت کے اندرآنے کی اجازت دے دی جاتی تاکہ ان کو یہ سکون تو ہوتا کہ جج صاحب کو ہی ایک بار دیکھ لیتے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا دکھتا کیسا ہے؟ شاید جج صاحب ان کو دیکھ کر کوئی میٹھا اور ہمدردی کا بول بول دیتے تو ان کی تکلیف ہی تھوڑی کم ہوجاتی لیکن یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں سو میں نے بھی سوچ لیں اور عدالت کی طرف بڑھ گیا۔

مجرمہ انجم امجد
ایڈن بنام نیب یہ کیس احتساب عدالت نمبر چار میں جج صاحب  شیخ سجاد احمد کے پاس لگاہوا تھا۔ میں نے دروازے پر لگا روسٹردیکھا تو سب سے اوپر ایڈن کا کیس تھا جس میں مجرمہ اور ڈاکٹر امجد کی بیوہ انجم امجد کی ضمانت قبل از گرفتاری کا عنوان درج تھا۔اس روسٹر پر کل نو مقدمات درج تھے۔ میں عدالت کے اندر پہنچا تو سوا نو بجے کا ٹائم تھا لیکن جج صاحب کی کرسی خالی تھی احساس ہوگیا کہ کسی کو انصاف دینے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔وقت کی پابندی کتابوں میں ہوتی ہے یا پھر بالی ووڈ کی فلموں میں۔ عدالت کے اندرچند ہی لوگ تھے کیونکہ کسی کو اندر آنے کی اجازت ہی نہیں ملتی۔ کمرے میں جولوگ تھے وہ بھی اسی طرح کی مصیبتوں کے مارے ہی لگ رہے تھے۔ کوئی ڈبل شاہ کا ڈسا ہوا تھا تو کوئی ایڈن کا۔ میں نے عدالت میں دیکھا تو ایک کونے میں مجھے مجرمہ ڈاکٹر انجم امجد بیٹھی دکھائی دی۔ سفید رنگ کی بڑی چادر اوڑھ رکھی تھی  اور منہ پر این نائٹی فائیو ماسک لگارکھاتھا۔ اس کی آج  عبوری ضمانت کا کیس تھا لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں گرفتاری کا کوئی خوف نظر نہیں آیا شاید اس کو یقین تھا کہ عدالت میں صرف کاغذی کارروائی ہی ہونی ہے۔ کیونکہ اسی مجرمہ کو اسی معزز عدالت سے پچھلے چھ ماہ سے ضمانت میں توسیع پر توسیع مل رہی تھی۔

یہ وہی ڈاکٹر انجم امجد ہیں جس کو چودھری پرویز الہی نے دوہزار دومیں پنجاب اسمبلی کی ایم پی اے بنایا تھا کیونکہ موٹی پیسے والی پارٹی تھی۔ لینڈ مافیا سے تعلق بنایا اور پھرمبینہ طورپر اپنے بیٹے مونس الہی کو ان کے ساتھ اسی کام پر لگادیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے ہی زمانے میں ایک ای اوبی آئی کرپشن کیس آیا تھا۔ اس کیس میں بھی ایڈن ملوث تھا اور مونس الہی کا نام بھی تھا۔ افتخار چودھری نے فوری اس کیس کاسو موٹو لیا۔ ای او بی آئی  کے اس کرپشن کیس سے کچھ رقم کی واپسی کے عوض ایڈن اورمونس الہی دونوں کو نکال باہر کیا تھا اور گرفتار ہواتھا پیپلزپارٹی کے وزیرنذرمحمد گوندل کا بھائی۔ اس وقت ان کو بچایا توان کا گٹھ جوڑ افتخارچودھری سے اور گہرا ہواجوبیٹی کے رشتے پراختتام پذیر ہوا۔ آج متاثرین صرف ایڈن کو ہی اپنا مجرم نہیں سمجھتے ان کے نزدیک افتخار محمد چودھری ان کی عدلیہ اورنیب سب مجرموں کی قطار میں کھڑے ہیں کیونکہ نیب نے بھی انہی مجرموں کا ہی کیس لڑا۔ 

نیب نے جب ریفرنس بنایا تھا دوہزار انیس میں تو متاثرین سے لوٹی رقم کی واپسی کے لیے پچیس ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگایا تھا اور ریفرنس میں درج کیا تھا کہ ایڈن کی جائیدادوں کی قیمت پچیس ارب ہے یہ بیچ کر رقم متاثر ین کو اداکی جائے گی۔ آج تین سال بعد نیب نے ایڈن والوں سے مل کروہ رقم مارکیٹ ویلیو کے حساب سے بڑھانے کی  بجائے کم کرکے سولہ ارب روپے کردی۔ جج صاحب نے سوال کیا کہ ریفرنس تو 25ارب کا تھا پلی بارگین 16ارب کی کیوں؟ اس پر نیب کے پراسیکیوٹراسداللہ نے کیا سادگی سے جواب دیا کہ سر اس وقت ہم نے اندازہ لگایا تھا کہ اگر ان زمینوں کی ڈویلپمنٹ مکمل ہوجائے ایل ڈی اے اجازت دیدے تو ان کی قیمت پچیس ارب ہوگی  لیکن اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سولہ ارب نکل آئیں تو بھی ٹھیک ہے۔ متاثرین کے ایک نمائندے نے کہا کہ مائی لارڈ تین سال بہت زیادہ ہیں پیسوں کی واپسی کا دورانیہ کم کردیں ہم پہلے ہی تیرہ سال سے چھت کے لیے ذلیل ہورہے ہیں اس پر جج صاحب نے کہا آپ جتنا چاہیں احتجاج کرلیں میں نے تو قانون کو دیکھنا ہے۔اس پر میرے جیسے ایک بندے کے ذہن میں سوال اٹھا کہ مائی لارڈ جان کی  امان پاوں توعرض کروں کہ آپ قانون کے پابند ہیں۔ یہی قانون کہتا ہے کہ اس مجرمہ کو گرفتارہونا چاہئے تھا لیکن جناب اس مجرمہ کو مسلسل ضمانت دیے جارہے ہیں۔ قانون کہتا تھا کہ اس کا شوہرجو مرکزی مجرم تھا۔ جس کو موت کے وقت سکون کا جنازہ بھی نہیں نصیب ہوسکا۔ اس کاجنازہ بھی پولیس کے پہرے میں پڑھا یا گیا اس شخص کو بھی جیل میں مرنا چاہئے تھا لیکن قانون نے خوب نرمی دکھائی۔اسی قانون سے راستے نکالے گئے۔

جاوید اقبال، سابق چیئرمین نیب
جج صاحب نے نیب سے چند سوال کیے اوراٹھ کرچلے گئے جس پر عدالت میں موجود سب نے یہی اخذکیا کہ کیس ختم ہوگیا ہے۔ میرے لیے حیران کن ہی تھا کہ جج صاحب کوئی حکم نہیں سناکرگئے۔اس کے بعد عدالت خالی ہوگئی اوراس دن کی عدالت بھی اختتام کو پہنچ گئی۔ مجرمہ انجم امجد کو متاثرین سے بچاکر پروٹوکول میں چور راستے سے باہر نکال کر گھربھیجا گیا۔ ان لوگوں نے متاثرین کے اربوں روپے تیرہ سال تک استعمال کیے۔ اس رقم کیساتھ کاروبار کیے پراپرٹی بنائی  اور جو نیب کے ذریعے متاثرین کو تین سالوں میں واپس کرنے پر راضی ہوئے ہیں وہ ان متاثرین سے ہتھیائی گئی رقم کا منافع بھی نہیں ہوگا۔اس طرح اس ملک میں مافیاز کام کرتے ہیں۔

میں واپس نکلا تو متاثرین شدید غصے میں نعرے لگارہے تھے۔وہ اس پلی بارگین کی رقم اورواپسی کی مدت سے بالکل بھی مطمئن نہیں تھے لیکن اب فیصلہ ہوچکا تھا۔ اس فیصلے میں نہ پیسے دینے والے متاثرین کو شامل کیا گیا نہ ان کی سنی گئی۔ نیب نے اس پلی بارگین کو اپنی فتح قراردیتے ہوئے ٹی وی چینلزکو خبرجاری کردی کہ متاثرین کیلیے بڑی خوشخبری۔ نیب نے تاریخ کی سب سے بڑی پلی بارگین کرلی۔میں سوچتا رہ گیا کہ کیسے نیب کے ریفرنس اربوں سے شروع ہوکر کروڑوں پر ختم ہوتے ہیں۔