Saturday, June 11, 2016

NEWSROOM WORKSHOP in CENTER FOR EXCELENCE IN JOURNALISM IBA KARACHI



شکریہ سی ای جے 

پندرہ مئی 2016کوجب لاہور ایئرپورٹ سے کراچی میں سنٹرفارایکسی لینس ان جرنلزم(سی ای جے) کی نیوزروم مینیجمنٹ ورکشاپ کے لیے اڑان بھر ررہاتھا تواس قافلے میں شریک صرف ایک دوست اورکولیگ اویس حمید ہی تھے جنہیں میں جانتاتھا،یاپھراس سنٹرکی مس مودی سے سمعی رشتہ تھا جن کی اس ورکشاپ کے لیے اپلائی کرنے کے چند لمحے بعد ہی ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی صرف یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا آپ آنے میں سنجیدہ ہیں؟میں نے اپنی سنجیدگی کا یقین دلایا توانہوں نے میری نشت کنفرم کردی ۔اس طرح کی اہم ٹریننگ کے لیے اتنےآسان طریقہ انتخاب نے خوش گوار حیرت میں ڈال دیا۔مس مودی نے ہی روانگی سے ایک روز قبل فیس بک پر ایک گروپ بنادیا جس میں کچھ ممبرزسے نام کی حدتک شناسائی تھی ان میں فواد خورشید اور تیمورشجاع شامل تھےسٹی فورٹی ٹوکے زین نقوی سے دوستی تھی لیکن ان کی موجودگی کا پتہ کراچی ایئر پورٹ پر اترنے کےبعد چلا۔

لاہور ایئرپورٹ کے بورڈنگ لاؤنج میں بیٹھا جہاز کی روانگی کا انتظار کررہاتھا تو عائشہ وٹوتشریف لے آئیں ان سے شناسائی بھی فیس بک کے اسی گروپ سے ہوئی تھی، لیکن ان کی موجودگی اس لیے کھٹک
میں اوراویس
رہی تھی کہ نیوزروم کی ورکشاپ میں پیمراکاکیاکام؟تھوری دیر بعد ان کے ساتھ ایک اور لڑکی آکربیٹھ گئی ان کے بارے میں بھی یہی سمجھا کہ پیمراسے ہی ہوں گی کراچی جاکران کی شناخت میرے لیے آمنہ منصور کے نام سے ہوئی۔میرے لیے یہ سفراس لیے بھی بہت خوشگوارتھا کہ میں پہلی مرتبہ کراچی جارہاتھا۔کراچی ایئرپورٹ پراترتے ہی حسب پروگرام آواری ٹاورکی گاڑیاں ہمیں ہوٹل لے جانے کے لیے تیارکھڑی تھیں۔دن دوبجے کے قریب ہوٹل پہنچ کر چیک ان کیا یہ اتوار کا دن تھا اور ورکشاپ اگلے روز شروع ہونا تھی سویہ دن کمرے میں ہی گزارااور رات ڈنر کے لیےہوٹل کی چھت پر لگے اسکائی باربی کیوپر چلے گئے۔وہیں ایک کونے میں بیٹھے فواد خورشید سے ملاقات ہوگئی تو احسن رضا ورکشاپ کے منٹورمسٹرباب گبوڈی کو ہم سے ملانے لے آئے۔ باب گبوڈی کا تعلق امریکی ریاست فلوریڈا سے ہے ۔باب بہت سینیئر جرنسلٹ اور فلوریڈا ٹائمزکے ایگزیکٹوایڈیٹرہیں۔باب نے بھی واپس جاکر کراچی اور پاکستان کے حوالے سے اپنی خوشگواریادیں اپنے بلاگ میں لکھی ہیں۔

باب کی طرح کراچی کی ٹریفک اور ایک موٹر سائیکل پر پانچ افراد پر مشتمل فیملی کی سواری میرے لیے نئی یا انوکھی بات نہیں تھی کیونکہ ٹریفک کا نصاب پورے ملک میں ایک جیسا ہی ہے۔اگرآپ گاڑی چلارہے ہیں توموٹرسائیکل سوارکی حفاظت بھی آپ کی ذمہ داری ہے وہ کبھی بھی کسی جگہ سے آپ
باب کے ساتھ سیلفی
کے آگے آسکتاہے۔باب اپنے ڈرائیورکوآئن سٹائن سمجھتا تھا لیکن یہاں ہرگاڑی چلانے والاایسے ہی ٹرینڈ ہے۔کراچی کی تیز سمندری ہوایہاں درجہ حرارت کم رکھنے کےلیےواحد نعمت ہے وہیں مجھے یہ ہوابہت بری لگتی تھی ایسا موسم لاہور میں صرف اگست میں ہوتا ہے جب ہوا میں نمی اور حبس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ لوگ لو کی دعا مانگتے ہیں لیکن اس حبس اور ہوا کا صرف چھ دن سامنا کرنا تھا اس لیے زیادہ پرشانی نہیں تھی۔

پیرکی صبح ساڑھے نو بجے ناشتے کے بعد آئی بی اے کے سٹی کیمپس لے جانے کے لیے گاڑی انتظارکررہی تھی اور محبوب بھائی اسکارٹ کرتے ہوئے ہمیں کیمپس لے گئے ۔آئی بی اے کے امن ٹاور
سی ای جےکااسٹوڈیو
کی چوتھی منزل پر سینٹرفار ایکسی لینس ان جرنلزم قائم کیا گیاہے۔امریکی اداروں کے تعاون سے بنایا گیا یہ سنٹرپاکستان جیسے ملک میں یہاں ٹریننگ کے مواقع نہ ہونے کے برابرہیں،کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔اس سنٹرمیں یہاں مکمل ٹی وی اسٹوڈیو اور آن ایئرکرنے کا انفرااسٹرکچر ہے وہیں ایک خوبصورت اور جدید نیوزروم بھی بنایاگیا ہے۔اس نیوزروم کے ساتھ ایڈیٹنگ سویٹ دیکھ کر تومیں مبہوت ہوکررہ گیا۔ایسے جدید ایڈیٹنگ سسٹم شاید پاکستان کے کسی بھی نیوزچینل میں موجود نہیں ہیں۔

صبح دس بجے کلاس شروع ہوئی توباب نے ہمیں خوش آمدید کہا،35صحافی کمرے میں موجود تھے۔پہلا سیشین تعارف کا تھاجس میں ہمیں ایک دوسرے سے شناسا ہوناتھا۔یہ سیشن بہت مفید رہا۔اپنے ان دوستوں سے جو ہمارے ساتھ اسی شہر میں دوسرے چینلز اوراخبارات میں کام کرتے ہیں ان سے ملاقات کراچی کی اس ورکشاپ کی بدولت ممکن ہوئی اسلام آباد سے آئے کچھ ساتھیوں سے جان پہچان اور پیمراسے آئے چارافراد سے بھی شناسائی ہوئی اور ورکشاپ کے دوران کچھ معاملات پران کا نقطہ نظرجاننے کا موقع بھی ملا۔ ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب نیوزروم کی اس ٹریننگ ورکشاپ میں اسلام آباد سے دو رپورٹربھی حصہ لینے میں کامیاب دیکھے گئے۔اس لیے خاموش رہے کہ یقینی طورپر پیمرانمائندوں کوشامل کرنے کی طرح رپورٹرزکوحصہ بنانے میں بھی کوئی مصلحت ہوگی۔

پانچ دن کی اس ورکشاپ کا ہر سیشن ہی خوب تھامجھے جو کمی محسوس ہوئی اس کا اظہارمیں نے وہاں بھی کردیاتھا کہ اس ٹریننگ میں زیادہ تعداد ترٹی وی صحافیوں کی تھی لیکن اس ورکشاپ کے دونوں ترینرزکا تعلق پرنٹ میڈیا سے تھادومیں سے ایک کاانتخاب ٹی وی نیوزروم سے ہوتاتوافادیت دوگنا
کمال صدیقی 
ہوجاتی لیکن یہ کمی دوسرے ٹرینرکمال حق صدیقی صاحب پوری کرنے میں کافی کامیاب رہے۔کمال صدیقی صاحب جب بھی آتے کلاس میں تحریک پیدا ہوجاتی ۔کمال صاحب بھی باب کی طرح پاکستان کے سینیرجرنلسٹ اور ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹرہیں،کمال صدیقی اس سنٹر کے ڈائریکٹربھی ہیں صحافتی اخلاقیات اور ضابطہ اخلاق پر ان کا سیشن کمال کاتھا۔کچھ دیر بعد ایک لڑکی کیمرہ اٹھائےکمرے میں داخل ہوئی ۔تصاویر بنانا شروع کیں تو پتہ چلا یہ مس مودی(مدیحہ) ہیں۔مدیحہ کی ڈیوٹی تصاویر اور دوسری سرگرمیوں کوسوشل میڈیا پر ڈالنا بھی تھا۔پانچوں دن انہوں نے تصاویر بنائیں لیکن مجھے ان سے گلہ ہی رہا کہ کلاس میں میری جگہ ایسے کونے میں تھی کہ ان کی کوشش کے باوجودنہ میں کسی تصویر میں آسکا اور نہ میرے ساتھ بیٹھااویس ۔جب بھی ہم فیس بک پراپنی کلاس کی تصاویر دیکھتے مایوس ہی ہوتے لیکن اس میں قصور ہماراہی تھا کہ اپنی جگہ تبدیل کرنے کی مکمل آزادی کے باوجود ہم درویشوں کی طرح اسی کونے میں پانچ دن باقاعدگی سے بیٹھتے رہے۔ہمارے ورکشاپ کے ایک کولیگ ریحان حیدر بھی باقاعدگی سے کیمرہ ساتھ لاتے تھے انہوں نے بھی تھوک کے حساب سے تصاویربنائیں لیکن ہمارے ساتھ ان کاسلوک بھی مس مودی سے بہت مختلف نہیں تھا۔جب ہم نے یہ لکھاتوانہوں نے اس کو چیلنج کردیا اور اپنی سیکڑوں تصاویر میں سے ہمارے صرف ایک تصویر ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے جس میں صرف ہم ہی خود کو پہچان سکتے تھے۔

پہلے ہی دن مدیحہ نے اعلان کیا کہ الوداعی ڈنر اور تصویر دوسرے ہی دن کھینچ لی جائے گی کیونکہ
آئی سی ایف جے کی علیزاٹنسلے کے ساتھ
آئی سی ایف جے (انٹرنیشنل سنٹر فار جرنلسٹ) کی ڈپٹی وائس پریزیڈنٹ علیزاٹینسلے جو پاکستان میں تھیں انہوں نےواپس جانا ہے اور سنٹرکی خواہش ہے کہ وہ اس ڈنر اور تصویر میں شامل ہوں اس لیے الوداعی ڈنر افتتاحی روز ہی رکھ دیا گیاہے۔اگلے دن تصویر بنائی گئی اور رات آٹھ بجے کراچی کی مشہوراور دلفریب فوڈمارکیٹ دودریا پر ڈنر ہمارا انتظارکررہاتھا اس ڈنر میں جیونیوزکے اظہر عباس صاحب بھی شریک تھے۔اگلےروزوہ ایک سیشن کے لیے ورکشاپ میں بھی شریک ہوگئے ۔ان کاسیشن بھی یادگاررہا۔۔سمندر کنارے بیٹھ پر کھانے کا لطف اور بھی بڑھ گیا۔

 سی ای جے میں ہماری کلاس چوتھی منزل پرہوتی تھی لیکن ہمیں محبت پانچویں فلور سے ہوگئی تھی کیونکہ ہمارے کھانے کا انتظام پانچویں فلورپر تھا،ہرڈیڑھ گھنٹے بعدہائی ٹی اور دوپہرمیں بوفے لنچ یوں لگتاتھا کہ ورکشاپ توایک بہانہ ہی ہے اصل کام توکھانے اور چائے کا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سنٹرنے ہماری میزبانی میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی تھی۔لاہور سے لاہور تک کا ہوائی سفراور کراچی میں پانچ ستارہ ہوٹل میں ناشتے اور ڈنر کے ساتھ قیام اس کی مثالیں ہیں۔

کلاس سے پانچ بجے فارغ ہوکر ہوٹل پہنچتے تواس کراچی کو قریب سے دیکھنے کی خواہش مچل جاتی جس کو اب تک صرف بری خبروں اور ٹی وی پر ہی دیکھتے رھے۔کراچی ہم کبھی پوری طرح نہ دیکھ
 پاتے اگر ہمارے دوست ایکسپریس نیوزکے ڈائریکٹرکریٹو صمد خالق،آج ٹی وی کے حمیرانور،نیوزون کےایگزیکٹوپروڈیوسرحسنین خواجہ اور ایکسپریس نیوزکے بیوروچیف فیصل حسین اس کی ذمہ داری نہ لیتے۔
حمیرانور،اویس اور میں
حمیر ہمیں ہوٹل سے اٹھاتے اور ساحل سمندراور برنس روڈ،ڈولمن مال لے جاتےتوصمد بھائی نے نائن زیروجانے میں ہماری مددکی۔صمد نے ہوٹل میں ہمیں طویل کمپنی دی توکبھی رات کے درمیانی پہربوٹ بیسن پرکھانے کےلیے لے گئے،صمد بھائی بہت ہی سویٹ انسان ہیں تو حمیرکی خوشی نے ہمیں اپنی اہمیت کااحساس دلائے رکھا۔ناصربٹ نے کراچی پریس کلب میں ہمیں داخل کرانے میں بڑاکرداراداکیا(کراچی پریس کلب میں داخلے کی کہانی طویل ہے جو پھر کبھی لکھوں گا)اور اپنی لینڈکروزرمیں کراچی کی سبھی سڑکیں ہمیں دکھائیں۔
سی ای جے کی سربراہ کرسٹی لوڈرنے تھوڑالیٹ جوائن کیالیکن آخری دو دن مسلسل ہماری کلاس میں موجود رہیں۔کھانے کی میزپر بھی ساتھ دیاوہ سنٹر کی اور ذمہ داریوں میں زیادہ مصروف رہیں اس لیے ہم ان کی باتوں سے محروم رہے لیکن ہماری خواہش ضرورتھی کہ وہ بھی ایک سیشن میں ہماری رہنمائی کرتیں لیکن کورس میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔

20مئی ورکشاپ کا آخری دن تھا،باب آخری سیشن تک اسی توانائی سے ہمیں سکھانے کی کوششوں میں جتے رہے جیسا پہلے دن تھا۔ہم شاید کسی وقت تھک گئے ہوں گے لیکن گریٹ باب گبوڈی ہردم تیاراور تازہ دم نظر آئے۔باب وقت کے بہت پابندتھےانہوں نے کلاس میں اپنے سامنے ایک گھڑی رکھوائی ہوئی
باب،کمال اور کرسٹی لوڈر
تھی ہمارے بعض شرارتی کلاس فیلو سیشن جلدی ختم کرانے کےلیےاس گھڑی کوکبھی کبھی آگے بھی کردیا کرتے تھے لیکن کبھی پکڑے نہ گئے۔آخری سیشن میں ہمیں ہماری محنت کا پھل دیا گیا۔سرٹیفیکیٹ کے ساتھ گروپ فوٹوایک مختصرتقریب میں باب اور کمال صدیقی صاحب نے تقسیم کیے۔


ورکشاپ ختم ہوچکی تھی لیکن کراچی میں مزید ایک دن کاقیام ابھی بھی باقی تھا۔اس وقت کافائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے جیوکارخ کرلیا،میں اور اویس آئی آئی چندریگرروڈ پر واقع جیوآفس پہنچے تو وہاں اسدہماراانتظارکررہےتھے۔جیوکے نیوزروم میں ایک گھنٹہ گزارادوستوں سے ملاقاتیں اور پھر واپسی،رات کو حمیر نے ہمیںجاوید کی نہاری
 کھلانے کاسکہ بندپروگرام بنارکھاتھا۔جاوید کی نہاری کی جتنی تعریف
صمد خالق،اویس اور میں
لاہور میں سن رکھی تھی یہاں کھانے والوں کا رش اس کی حقیقت بتارہاتھا،ہمیں کافی انتظارکرناپڑاٹیبل حاصل کرنے کےلیے۔واپسی پر مزارقائد پر فاتحہ خوانی کا پروگرام تھاجوہمارے ملک کی سکیورٹی کی نذرہوگیا،مزار کے باہر ہی سے فاتحہ پڑھی اورایئرپورٹ کی راہ لی۔واپسی پر ایکسپریس نیوزکے ایگزیکٹوڈائریکٹرنیوزسید فہد حسین نے نیوزکی میٹنگ میں اس ورکشاپ کے عملی حصوں پر ہمارے تجربات بڑے غور سے سنے اور بہت سی اچھی چیزیں ایکسپریس کے نیوزروم میں اڈاپٹ کرنے کی نوید بھی سنائی۔یہ تجربات نہایت خوشگواربھی تھا اور فائدہ مند بھی۔۔شکریہ سی ای جے۔۔

No comments: