Wednesday, January 6, 2016

EMPRA ELECTIONS AND OUR RIGHTS


آپ کیا چاہتے ہیں؟

ایمپرا۔۔۔۔۔ایک این جی او یا حقیقی ایسوسی ایشن 

ہم بھی کیا عجیب ہیں کہ سب سے زیادہ اپنے لیڈروں اور حکمرانوں کو کوستے رہتے ہیں ۔انہیں تمام برائیوں کی جڑکہنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے لیکن جب اپنے لیڈر چننے کا وقت آتا ہے توہم اپنی سوچ دوسروں کے پاس گروی رکھ چھوڑتے ہیں ،اپنے ووٹ کا استعمال دوستوں ،رشتہ داروں اور جن کے ماتحت کام کرتے ہیں، ان کے کہنے پر کرچھوڑتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ جو آپ کو کہہ رہا ہے اس کا کیا مفاد ہے؟یہ بھی تجزیہ نہیں کرتے کہ وہ کہیں آپ کے مفاد کا سودا تونہیں کررہا؟

مجھے اس وقت شدید دھچکا لگا،بلکہ تکلیف پہنچی جب میں نے اپنے ایک دفتری ساتھی سے سوال کیا ہیلو مسٹر۔۔ڈبلو۔۔۔ووٹ کسے دوگے؟۔۔انہوں نے اپنے ایک دوست کانام لیا اور اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جسے وہ کہیں گے ووٹ دے دوں گا۔۔۔میں نے کہا جسے تم اچھا سمجھتے ہو اس کو ووٹ کیوں نہیں دیتے۔۔آپ نے یہ فیصلہ کرنے کےلیےکسی دوسرے کا دماغ کیوں استعمال کیا؟۔۔انہوں نے کہا کوئی بات نہیں وہ دوست بھی تو ہے۔۔میں نے کہا جب تم اپنے اسکرپٹس میں ،رپورٹس میں ،خبروں میں یہ لکھتے ہو کہ سندھ کے لوگ وڈیروں کے غلام ہیں،کبھی آزاد نہیں ہوسکتے ۔وہ ہمیشہ جاگیرداروں کے کہنے پرانہیں ووٹ ڈالتے ہیں ان کی قسمت نہیں بدل سکتی اس لیے سندھ کی حالت ایسے ہی رہے گی۔۔۔اس وقت تمہیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟تم ان غریب مضارعوں کو کیسے گناہ گار کہتے ہو؟حالانکہ وہ جسے ووٹ دیتے ہیں وہ تو انہیں شام کو روز روٹی بھی دیتا ہے ،رہنےکےلیے جگہ بھی دیتا ہے اور پہننے کےلیے کپڑے بھی ،اس کا اپنے وڈیرے کو ووٹ دینا تو بالکل جائز ہے لیکن یہ تمہارا دوست توتمہیں روٹی نہیں دیتا؟تم پڑھے لکھے ہو لوگوں کو حق اور سچ بولنے کا درس دیتے ہو،صحافت کے ذریعے تبلیغ کرتے ہولیکن اپنا فیصلہ کسی اور سے کرواتے ہویہ تو کھلا تضاد نہیں؟ میرے اس دوست کا جواب تھا ۔۔یار یہ میرابزنس ہی نہیں ہے ۔۔

ایک ایسے وقت میں جب نیوزروم میں موجود پروڈیوسرز کی زیرتعمیر ایسوسی ایشن الیکٹرانک میڈیا پروڈیوسرزرائٹس ایسوسی ایشن (ایمپرا)کے دس جنوری کو پہلے انتخابات ہونے جارہے ہیں ہمارے سب پڑھے لکھے صحافی حضرات اسی کمشکش کا شکار ہیں جس میں ہمارے بڑے اور ہم سب ملکی عام انتخابات میں ووٹ دیتےوقت ہوتے ہیں ۔بعض تو اس کو بھی ووٹ دے دیتے ہیں جو گھر سے گاڑی پر بٹھا کر پولنگ اسٹیشن تک لے جائے ۔کچھ ایسی ہی سوچیں اس کمیونٹی میں بھی سرایت کررہی ہیں جو یقینی طورپر تباہ کن ہیں کہ آج تک صحافیوں کی کوئی تنظیم سوائے پریس کلبس کے اس کمیونٹی کےلیے کبھی فائدہ مند نہیں رہی
۔اس وقت ملک میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی جو درگت بنی ہے سب کے سامنے ہے اس تنظیم کے بیک وقت دو صدر ہیں ایک کراچی گروپ ہے دوسرا اسلام آبادگروپ ۔جس کا جس صحافتی ادارے سے تعلق ہے وہاں صدرمیں اپنا نام چلوالیتاہے،جوادارے نیوٹرل ہیں وہ صرف صدر پی ایف یو جے لکھ دیتے ہیں جو چاہے خود کو سمجھتا رہے۔ان کے لیڈران کا کردار ایسا ہوچکا ہے کہ لاہور میں موجود ایک صدر نے اعلان کیاکہ بول ٹی وی کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے والوں کو جس ٹی وی نے ملازم رکھا پی ایف یو جے اس کے دفتر کا گھیراؤ کرے گی ۔۔نعرہ ماردیا واہ واہ ہوگئی ۔۔شام کو جب دفتر پہنچے تو موصوف کو پتہ چلا کہ انہی کے ٹی وی چینل نے ایک بول والے کو اپنے سر کا تاج بنالیا ہے اور نہ صرف ملازمت بلکہ ادارے کا صدرنامزدکیا ہے تو گھیراؤ تو درکنار موصوف اس ادارے سے استعفیٰ تک دینے کی ہمت نہ کرسکے اور ابھی تک وہیں ملازمت فرمارہے ہیں ۔

 اس کے علاوہ 2009میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا جرنلسٹ ایسوسی ایشن (پیمجا) بنائی گئی اس ایسوسی ایشن نے شروع کے ایام میں صرف ایک میڈیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کروایا اس کے بعد یہ تنظیم کہاں ہے اس کے عہدیدار کون ہیں کوئی پتہ نہیں یاکم از کم مجھے پتہ نہیں ۔۔اسی کی دیکھا دیکھی لاہور میں الیکٹرانک میڈیا رپورٹرزایسوسی ایشن (ایمرا) بنائی گئی اس کا جو حال ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ایسے ماحول میں ایمپراجیسی تنظیم کو بنانا اور اسے مضبوط کرناسب پروڈیوسرز کی مشترکہ ذمہ داری ہے جو صرف دوستی یاری میں ووٹ ڈالنے سے پوری نہیں ہوسکتی اس کےلیے صرف پینلز کی پوجا نہیں ووٹ ڈالتے وقت امیدواروں کی شخصیات کا تنقیدی جائزہ لیجئے پھر فیصلہ کریں۔

ایمپراکی بنیاد رکھنے کا خیال میرے بہت ہی پیارے بھائی لالہ نعیم ثاقب کو سات ماہ پہلے آیا ،لالہ جی نے پنجاب یونیورسٹی میں صحافت پڑھی لیکن عملی صحافت میں انہوں نے خود کو بہت زیادہ سرگرم نہیں رکھا ۔ایمپرا کے وہ ایک فادر فگر تھے۔کچھ مستند خبریں یہ بھی ہیں کہ وہ اور ان کے قریبی ساتھی کچھ سالوں کےلیے ایمپراکے الیکشن نہیں کرانا چاہتے تھے
بلکہ اس کو اسی طرح چلانے کے حق میں تھے۔ اس سیٹ اپ میں لالہ جی کا کردار ایک پیٹرن کا تھا ۔ میری ذاتی خواہش تھی کہ لالہ جی اپنے آپ کو موجودہ پینلزکی سیاست سے دور رکھتے ہوئے اپنی نیوٹرل اور ایک بڑے کی حیثیت برقراررکھیں لیکن انہوں نے خود کو ایک گروپ سے وابستہ کرکے یہ اعلیٰ مقام کھودیا اب اگر ان کا گروپ (پروڈیوسرز) جیت جاتا ہے تو ایمپرا دوبارہ ان کے گھر آجائے گی لیکن اگر ووٹرزنے پچھلے سات ماہ کی کارکردگی کی بناپر اس گروپ کو مسترد کردیا تو لالہ جی کے حوالے سے سب سے زیادہ دکھ شاید مجھے ہی ہولیکن ذمہ دار وہ خود ہوں گے جو چاہتے تواس مقام پر فائز رہ سکتے تھے ۔

پچھلے سات ماہ میں مختلف چینلز سے کچھ نمائندوں کو چن کر ایک عبوری کمیٹی ایمپراکے معالات چلارہی تھی اس کمیٹی کے ذمہ ایمپراکی رجسٹریشن،ممبرسازی اور سب سے اہم اس تنظیم کے انتخابات کرانا تھا ۔ایمپراکی رجسٹریشن ابھی تک یہ کمیٹی کرانے میں ناکام رہی یہاں تک کہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 70ہزارروپے اسکی رجسٹریشن کےلیے کسی وکیل کو ادا بھی کیے گئے اس کے علاوہ 60ہزارروپے کی ادائیگی ایمپرا کی ویب سائٹ بنانے کےلیے بھی کی گئی یہ دونوں کام نہیں ہوئے لیکن ایک لاکھ اورتیس ہزار روپے خرچ کردیے گئے۔ ممبر سازی کی فیس ایک ہزار روپے رکھی گئی تھی۔ ایمپراکے اس وقت 6سو کے قریب ممبرز ہیں اس حساب سے 6لاکھ روپے ایمپراکی اپنی حلال کی کمائی بنتی ہے لیکن اس میں سے بھی ڈھائی لاکھ کے قریب شارٹ ہیں ۔یعنی کہ یاری دوستی میں ممبرشپ کردی گئی لیکن پیسے نہیں لیے گئے یہ کام الیکشن کے قریب زیادہ تیزی سے کیا گیا ۔ ممبرشپ دینے میں بھی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں ۔۔کچھ دوسرے شہروں میں وجود پروڈیوسرزکو بھی ممبرشپ دے دی گئی جو اس(عبوری کمیٹی) ٹیم کی کارکردگی اور اقربا پروری پر سوال اٹھاتی ہے۔الیکشن کا مطالبہ اس عبوری کمیٹی میں موجود،کچھ ،لوگوں کو باقاعدہ تکلیف میں مبتلا کردیتا تھا۔۔نظام ایسا تھا کہ واٹس ایپ گروپ میں ایک ممبر کو جو شدو مد سے الیکشن کا مطالبہ کرتاتھا اس کی ایک خاتون ممبر( جو اب پروڈیوسرزپینل کی طرف سے امیدواربھی ہیں) سے الجھنے پر بیک جنش واٹس ایپ معطل کردیا گیا،نہ شو کاز نہ شنوائی نہ اس ایشو پر کوئی اجلاس۔۔ سیدھا معطل ۔۔۔ایسے معاملات نے الیکشن کے مطالبات کو مزید ہوادی کچھ لوگ اختلاف رائے کرنے والے سامنے آئے (اختلاف رائے رحمت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی یہی ہے کہ اختلاف امتی رحمة)انہوں نے الیکشن کےلیے الگ امیدوار کھڑے کرلیے یہ لوگ پروگریسوپینل کے نام سے انتخابات میں حصہ لےرہے ہیں۔


پہلے بہت ساری صحافتی تنظیموں کے فلاپ ہونے یا چند افراد کے ہاتھوں میں چلے جانے سے سب کو مایوسی ہوئی اور چند کو فائدہ ۔میرے لاہور کے پروڈیوسرزدوستوں نے اگر یہاں بھی اِس کے کہنے یا اُس کے کہنے پر ووٹ ایسے لوگوں کو دے کر منتخب کرلیا جن کے پاس نہ کوئی منشور ہے نہ وژن توکہیں خدا نہ خواستہ ایمپرا،ایمرااور پیمجا ایک ہی صف میں کھڑی نہ ہو جائیں ۔۔اس لیےآگے بڑھیں ایک ایک امیدوار کو پرکھیں ،اس کے کردار کو دیکھیں پھر فیصلہ کریں ۔۔اور ایمپراکوایک این جی او بننے سے روکیں۔۔اس کو ایک وائبرنٹ ایسوسی ایشن بنانے میں کردار ادا کریں۔۔۔ایک ایسی ایسوسی ایشن جو پبلک کی پراپرٹی ہوتی ہے جس کا دفترکسی کاگھر نہ ہوبلکہ پبلک پلیس ہوتاکہ ہم کہہ سکیں کہ پریس کلب کے علاوہ بھی صحافیوں کا کوئی کلب ہے۔۔۔