Thursday, October 17, 2019

New Steve Jobs


نیا اسٹیوجابز

وہ نوجوان ہے، اپنے کام میں بلا کا ماہرہے،ہونہار اس کے سامنے شاید چھوٹا لفظ ہے ،وہ اورسیز پاکستانی ہے ،بیرون ملک کامیابی کے جھنڈے گاڑرہاہے ، وہ اپنی ایجاد پاکستان لانا چاہتاہے لیکن  اس نئے پاکستان میں یہاں کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے نعرے میڈیا پر تو مارے جاتے ہیں لیکن جب عملی کام کی باری آتی ہے تو پھر وہی سرخ فیتا، وہی مشکلات ، وہی سوالات  اور وہی موٹا کمیشن اور کک بیکس  راستے کی دیوار چین بن کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔۔
پاکستان سے اس قدر محبت کہ آپشن کے باوجود پاکستان کا پاسپورٹ ہی سینے سے لگائے بیٹھا ہے ، دوسرے ملک کا پا سپورٹ نہیں لیا، شہریت لے سکتا ہے لیکن انکاری ہے ۔۔بھارت میں اس کی ایجاد کی مانگ ہے لیکن بھارتی کہتے ہیں کہ کمپنی لانچ کرنے دہلی آو۔۔جب وہ بتاتا ہے کہ وہ پاکستانی ہے اور کمپنی بھی پاکستانی ہے اور اس کے پاس پاسپورٹ بھی پاکستانی ہے تو سب کچھ رول بیک ہوجاتا ہے ۔۔بھارتی اسے مشورے دیتے ہیں کہ دوسرے ملک کا پاسپورٹ لے لو تمہاری چاندی ہوجائے گی ۔۔لیکن وہ بضد ہے کہ کاروبار  اور پیسہ کمانے کےلیے پاکستانی شہریت نہیں چھوڑ سکتا ۔۔
وہ نئے پاکستان میں اپنی پراڈکٹ لانا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ پاکستان الیکٹرانک کنزیومر ریسرچ کی جنت بن جائے ، ہم اپنی پراڈکٹ یہاں بنا کر ایکسپورٹ کرسکیں ، زر مبادلہ خرچ کرنےکے بجائے کماسکیں ۔ لیکن یہاں کوئی عبدلرزاق داود اس کا دوست نہیں ہے ، وہ انیل مسرت بھی نہیں ہے ۔۔وہ زلفی بخاری کا بھی دوست نہیں ہے  وہی زلفی بخاری جو سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر ہیں ۔۔وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن سرمایہ کاری بورڈ میں اس کی جان پہچان نہیں ہے ۔۔وہ بل گیٹس کی کمپنی مائیکرو سافٹ میں کام کرکے اپنی صلاحیت کا لوحا منوا چکاہے ۔۔ہم صرف بل گیٹس کو ہی دیکھنا ، سننا اور اس کو ہی ماننا چاہتے ہیں ، ہم بل گیٹ جیسوں یا اس سے بھی قابل اپنے لوگوں کو پروموٹ کرنا چاہتے ہیں نہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔۔ہم  سوئی سے لیکر جہاز تک باہر سے خرید کر لانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں ۔۔زر مبادلہ اسی امپورٹ پر خرچ مارتے ہیں ، پھر قرضے لیتے ہیں اور پھر انہی قرضوں کو اتارنے کےلیے دوبارہ قرضہ لے لیتےہیں اس طرح دائروں میں گھوم گھوم کر سمجھتے ہیں کروڑوں میل کا سفر طے کرچکے ہیں ۔۔ہمارے پاوں واقعی کروڑوں میل چل چکے ہیں لیکن سفر ایک میٹر بھی آگے نہیں بڑھتا کیوں کہ ہم نہ رسک لیتے ہیں اور نہ کسی نئے انسان کی حوصلہ افزائی کرتےہیں ۔۔ہم آزمائے ہووں کو دوبارہ اور سہہ بارہ آزماتے رہتے ہیں ۔۔
اس نوجوان کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ، سبق آموز بھی اور کامیاب بھی ہے ۔۔مجھے سے اس نوجوان کا رابطہ سماجی ویب سائیٹ  ٹوئٹر کے ذریعے ہوا ۔۔میں اس کی باتوں میں وضاحت دیکھی ۔۔آئیڈیاز کی کلیریٹی  دیکھی ۔۔پاکستان سے محبت کا جذبہ دیکھا  اور ساتھ ہی ساتھ کچھ شکوے بھی دیکھے وہ شکوے جو اس نے پاکستان میں اپنی کمپنی لانچ کرنے کے راستے میں فیس کیے ۔۔میں نے اس کی کہانی لکھنے کا فیصلہ کیا کہ شاید کسی زلفی بخاری کو یہ کہانی سمجھ آجائے ۔۔
لاہور کے علاقے سمن آباد سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا دادا برٹش آرمی میں افسر تھا، تقسیم ہند کے بعد ان کے دادا میجر ایم یو خان پاکستان آرمی میں آگئے اور پاک آرمی سے ریٹائر ہوئے ۔۔
میجر ایم یو خان

اس کے والد ایک ڈاکٹر ہیں۔۔دادا کی خواہش تھی کہ اس کا پوتا آرمی میں چلاجائے لیکن والد اس کو ڈاکٹر بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔۔دونوں کی خواہشوں کا بوجھ اپنی جگہ لیکن وہ کچھ اور سوچ کر بیٹھا تھا ۔۔ایک دن اس نے اپنے والد سے کہہ ہی دیا کہ ابا جی آپ چاہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بنوں ۔۔میں آپ کا حکم مان کر ایم بی بی ایس تو کرلوں گا لیکن شاید بہت ہی برا ڈاکٹر ثابت ہو گا ۔۔اگر میں  پڑھ کر بھی اپنے پیشے سے انصاف نہ کرسکا  تو بہت پچھتاوا رہے گا ۔۔والد کو سمجھ آگئی کہ ان کے بیٹے کا رجحان آئی ٹی اور ٹیکنالوجی میں ہے اس لیے انہوں نے اپنا فیصلہ بدل ڈالا ۔۔
پڑھائی کے ساتھ ہی صرف سولہ سال کی عمر میں اس نوجوان نے رات کے وقت کال سینٹر میں جونیئر ایگزیکٹو کی نوکری شروع کردی ۔۔اس نوکری میں انگریزوں کی کالیں اٹینڈ کرنا اس کا کام تھا ۔۔اس کام کے دوران اس نے اگریزی بولنا سیکھ لی ۔۔
پاکستان میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دبئی چلا گیا، محلے دار، رشتے دار اور دوست سب نے طعنے کسے کہ دبئی جاکر کیا کروگے ، صرف پیسے برباد کرکے واپس آجاو گے لیکن اس نے کسی نہ سنی ۔۔ٹھان لی کہ اب کچھ کرکے ہی واپس لوٹے گا ۔۔دبئی میں کام کرتے کرتے  اس کو مائکروسافٹ کا ایک پراجیکٹ مل گیا ۔۔یہ وہ  وقت تھا جب نوکیا نے مائکروسافٹ کے ساتھ اشتراک کرکے ونڈو بیسڈ موبائل ہینڈ سیٹ بنانے شروع کیے تھے ۔۔یہ نوجوان دبئی میں بیٹھ کر مائکرو سافٹ کے لیے یہ موبائل فون بنانے میں مصروف تھا۔۔پھر وہ لمحہ آیا جس نے اس کی زندگی نئی ڈگر پر ڈال دی ۔۔
رات کا وقت تھا ، آفس سے واپسی پر یہ نوجوان اپنی ٹیم کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھا رہا  تھا  کہ ایک شخص نے بات چیت کے دوران پوچھ لیا کہ کیا کرتے ہو۔۔اس نے بتایا کہ وہ موبائل ٹیکنالوجی کا ماہر ہے اور یہ کام کرتا ہے ۔۔۔اس نے پوچھا کہ اس میں" تمہارا"  کیا ہے ۔۔یہ "تمہارا " کیا ہے  اس نوجوان کو جیسے لڑ ہی گیا ۔۔وہ سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی اس میں "میرا" کیا ہے ۔میں تو کسی دوسرے کی کمپنی کے لیے کام کرتا ہوں ۔۔اس پراجیکٹ کے بعد کیا ہوگا ۔۔سوالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور وہ نوجوان ۔۔۔یہی وہ لمحہ تھا جب سب کچھ بدلنے کا وقت تھا ۔۔۔اس نے پراکیٹ سے استعفی دے کر کچھ اپنا کرنے کی ٹھا ن لی ۔۔۔
اس نے اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروائی اور خود سے موبائل ہینڈ سیٹ بنانا شروع کردیے ۔۔موبائل تیار ہوگئے تو ان کو بیچنے کا مرحلہ آیا ۔۔اس مرحلے میں اس کو شدید ناکامی ہوئی ۔۔جو کچھ کمایا تھا وہ اس موبائل کی مینوفکچرنگ میں لگا چکا تھا ۔۔ایک مرتبہ خیال آیا کہ واپس پاکستان چلاجائے پھر وہی رشتہ داروں اور محلے والوں کے طعنے کانوں میں گونجنے لگے ۔۔۔
یہ اس پر ایک مشکل وقت تھا کہ دبئی میں ایک بزنس کانفرنس میں ہوئی ۔۔اس نے اس کانفرنس میں چند منٹ مانگ لیے  تاکہ  وہ اپنا کام شرکا کو سمجھا سکے ۔۔اس کانفرنس میں اس نے بتایا کہ کس طرح اس کا موبائل آئی فون اور سامسنگ سے مختلف اور سستا ہے ۔۔وہ ۔۔"اینکرپٹڈ" ٹیکنالوجی پر کام کرچکا تھا ۔۔صارف کے ڈیٹا کی سکیورٹی اس موبائل کا خاصا تھا ۔یہ موبائل ملٹری استعمال کے لیے موزوں ترین  گیجٹ تھا ۔۔۔اس نے دنیا کے بزنس مینوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ۔۔اس کانفرنس میں شریک یہ جرمن شخص نے اس نوجوان کی بات سمجھ لی ۔۔
کانفرنس کے بعد اس نے اپنا وزٹنگ کارڈ اس نوجوان کو دیا اور کہا کہ وہ جرمنی آجائے اور اپنا کام وہاں آکر آگے بڑھا ئے ۔۔اس نوجوان نے کہا کہ میں اپنا سب کچھ لگاچکاہوں ۔۔بنائے ہوئے سارے موبائل اسٹور میں پڑے ہیں ۔۔اس شخص نے کہا کہ آپ میری کال کا انتظار کرنا ۔۔
وہ شخص واپس جرمنی چلا گیا ۔۔کچھ ہفتوں بعد اس شخص کی کال آگئی ۔۔اس نے کہا کہ آپ کے سارے موبائل جرمن ملٹری خرید لے گی آپ جرمنی آجائیں ۔۔نوجوان نے دبئی کو خدا حافظ کہا اور جرمنی میں جاکر کمنی لانچ کردی ۔۔ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ  میں اس کمپنی نے کما ل کام کیا ۔۔اس نے "سینسو" موبائل کے نام سے موبائل فون بنانا شروع کردیے ۔۔چند سالوں میں کامیابی اس کا پیچھا کرنے لگی ۔۔اس وقت وہ دس ممالک میں کمپنیاں کھول چکا ہے ۔۔اس نوجوان کا نام ہارون ایس خان ہے ۔۔ہارون یورپ میں درجنوں برانڈ ایوارڈ جیت چکاہے۔ ان کی کمپنی  ٹیکنالوجی کے کئی ایوارڈ اپنے نام کرچکی ہے ۔۔
ہارون خان 

ہارون نے دوہزار پندرہ سولہ میں پاکستان میں کمپنی بنانے کی کوشش کی ۔۔یہاں اس وقت "کیو" کا راج تھا ۔۔کیو موبائل انڈر انوائسنگ کرکے جو پیسا کماتا اس میں سرکاری اہلکاروں کو بڑا حصہ دیتا۔۔ ایسی صورتحال میں ہارون خان کو کسی نے اندر نہ گھسنے  دیا ۔۔۔
ہارون ایک بار پھر اس "سینسوموبائل کو پاکستان لانے کوشش کررہا ہے ۔۔ اس نے پاکستان میں موبائل مینوفیکرنگ کا لائسنس حاصل کیاہے  لیکن بہت سے مرحلے ابھی درپیش ہیں ، اس کو حکومت کی مدد درکار ہے ۔۔پاکستان میں حکومت بدلی ہے لیکن تبدیلی شاید ابھی دور ہے ۔۔میری دعا بھی ہے اور حکومت سے درخواست بھی کہ ہارون کو موقع دیں یہ نوجوان پاکستان میں موبائل ٹیکنالوجی میں انقلاب لاسکتا ہے ۔۔ہماری مہنگے فونوں سے جان چھڑا سکتا ہے ۔۔یورپ میں یہ موبائل آئی فون اور سامسنگ کا مقابلہ کررہاہے ۔۔پاکستان میں کام کرنا اس پاکستانی کا بھی حق ہے جس نے آج تک موقع ملنے کے باوجود پاکستانی پاسپورٹ  نہیں چھوڑا ۔۔
آپ ہارون کو اس کے ٹوئٹر ہنڈل ۔۔
کے ذریعے مل سکتے ہیں ۔۔۔






Friday, October 4, 2019

نتیجہ صفرہی کیوں۔۔۔؟



نتیجہ صفرہی کیوں۔۔۔؟

                                                                     تیرے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مرنہ جاتے  اگراعتبار ہوتا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم نریندر  مودی سے ملیں  یا پاکستان کے وزیر اعظم  عمران خان  صاحب سے ان کی ملاقات ہو۔۔بات چیت ہو یاعلیک سلیک ہو۔۔ ۔۔ کیمروں کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ  دونوں رہنما وں کی  ایک جیسی ہی تعریفیں کرتے ہیں۔۔عمران خان  سے ملیں تو فوری طورپر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کردیتے ہیں  لیکن یونہی مودی کے پاس جاتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں   کہ دونوں ملک  خود ہی مسئلہ کشمیر حل کرلیں گے ۔۔پاکستان کو کہتے ہیں کہ میں تو ثالثی کےلیے تیار ہوں لیکن بھارت تیار نہیں ہے ۔۔حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارت تیسرے فریق کی ثالثی کےلیے نہ پہلے کبھی راضی تھا نہ اب ہے  تو پھر ہم صرف ثالثی کی اس زبانی کلامی پیشکش پر اتنا خوش کیوں ہوجاتے ہیں ۔۔۔ٹرمپ کہتے رہیں کہ وہ ثالث ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا 
نتیجہ ہے ۔۔صفر ۔۔


وزیراعظم عمران خان صاحب   اسی سال جولائی میں اپنے پہلے دورے پر امریکا گئے ، بائیس جولائی کو وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی ۔۔ٹرمپ نے جھٹ سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کردی ۔۔۔عمران خان  کو لگا وہ ورلڈ کپ جیت گئے۔۔۔اس ملاقات کے صرف بارہ  دن بعد ہی  بھارت نے کشمیر پر شب خون مار دیا یو ں  ٹرمپ کی پیشکش کا نتیجہ رہا ۔۔صفر ۔۔۔

ٹرمپ کہتے ہیں عمران خان ایک  عظیم لیڈر ہیں، وہ ان سے بہت متاثر ہیں وہ خطے کے مسائل حل کرسکتے ہیں  لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں  بھارت کی طرف سے لگائے گئے کرفیو کو دوماہ سے زیادہ وقت ہوگیا۔۔کشمیری آج بھی مشکل میں ہیں ۔۔محاصرے میں ہیں، ادویات کو ترس رہے ہیں۔۔روزی روٹی کمانے کے لالے ہیں۔۔۔۔ہماری  تمام تر کوششوں کا نتیجہ ہے ۔۔۔صفر۔۔

ٹرمپ کہتے ہیں عمران خان بہت اچھے انسان ہیں، سچے انسان ہیں ۔۔کھرے انسان ہیں ۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں بچے اسکول جانے کو ترس رہے ہیں ، ان پر تعلیم کے دروازے بند ہیں اور نتیجہ ہے ۔۔صفر۔۔

وزیر اعظم عمران خان  کا کہنا ہے کہ امریکا طاقتور ترین ملک ہے اور ٹرمپ دنیا کے طاقتور ترین صدر ہیں جو مسئلہ حل کرواسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں دوائیں ختم ہوچکی ہیں ۔۔لوگ علاج نہ ہونے پر موت کے منہ میں جارہےہیں ۔۔یوں اس  طاقت کا نتیجہ ہے صفر ۔۔۔

ہم نے واشنگٹن میں احتجاج کرلیا، نیویارک میں بھی  میلہ لوٹ لیا، ہیوسٹن میں ہزار وں لوگ نکل آئے ، چین، جاپان ،جرمنی اور روس میں احتجاج کرلیا لیکن آج بھی بھارتی فوج کی کشمیر میں درندگی جاری ہے، یوں عملی نتیجہ رہا ۔۔صفر۔۔۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں کشمیر کا مسئلہ ہم خود لےکر  کر گئے ۔۔بہت اچھا کیا۔۔اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان  اور ان کے نائب کپتان  شاہ محمود قریشی نے اٹھا ون ممالک کی حمایت کا اعلان بھی کیا، عمران خان نے بھی ٹویٹ کرکے ان اٹھاون ممالک کا شکریہ اداکیا۔۔لیکن قرارداد پیش کرنے کے وقت نتیجہ رہا صفر۔۔۔

یہ نتیجہ کیوں صفر ہے اور کب تک یہ نتیجہ صفر ہی رہے گا ۔۔کیا اس صفر نتیجے میں وزیراعظم  کا کوئی قصور ہے ۔۔تو جواب ہے نہیں ۔۔اس میں کسی شخص  کا قصور نہیں  ہے بلکہ قصور ہے ان تجارتی مفادات کا جو امریکا کے بھارت سے جڑے ہوئے ہیں ۔۔اس صفر کی وجہ  کروڑو ں بھارتی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اگلا الیکشن جیتنے کےلیے ان بھارتی ووٹوں کی ضرورت  ہے ۔۔۔
 مزید پڑھ لیں کہ یہ نتیجہ آخر صفر ہی کیوں رہتاہے یا صفر ہی رہے گا۔۔۔

امریکہ کی  تجارتی لسٹ میں بھارت تیرھویں نمبر پر ہے اور  پاکستان  کا نمبر ہے پچپن۔۔
امریکہ کی بھارت کو برامدات کا حجم 33ارب ڈالر  سالانہ ہے جبکہ پاکستان کو امریکی برآمدات  صرف 3ارب ڈالر  سالانہ ہیں ۔۔۔
بھارت  کی امریکا کو برآمدات  کا حجم چون ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ پاکستان امریکا کو صرف ساڑے تین ارب ڈالر  کی اشیاء برآمد کرتاہے  ۔۔۔

امریکا کی بھارت میں ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کا حجم 44ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں یہ حجم صرف  پچاس کروڑ ڈالر ہے ۔۔۔
تو  یہ جو تینتیس اور تین کا فرق ہے ۔۔یہی وہ فرق ہے جو کوئی  نتیجہ پاکستان کے حق میں ہونے نہیں دیتا۔۔امریکا اور بھارت کے یہی وہ تجارتی مفادات ہیں جو نتیجہ صفر سے ایک ہونے نہیں دیتے۔۔۔

ہمیں ان  مفادات کی کھلی حقیقت کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا پڑے گا۔۔اپنے گھر میں صرف سیاسی حمایت اور سیاسی مفاد کے حصول کے لیے جھوٹے اور کھوکھلے نعروں کے بجائے  ۔۔پاکستان کے مفاد کے لیے فیصلے کرنا پڑیں گے ۔۔حقیقت کا سامنا تحمل اور سلیقے سے کرنا پڑے گا ۔۔دنیا کے ساتھ اپنے تجارتی مفادات کو بڑھانے پر کام کرنا پڑے گا ۔۔قوم کو یہ سب سچ سچ بتانا پڑے گا  کہ کس طرح یہ نتیجہ صفر سے ایک اور پھر پانچ اور دس میں تبدیل ہوسکے گا ۔۔پھر اصلی اور حقیقی تبدیلی آسکے گی۔۔۔