Monday, August 11, 2014

DEMISE OF PAKISTANI SOCIETY


انتقال پرملال 

حضرات۔۔! ایک ضروری اعلان سنیئے ۔۔۔نہایت افسوس کے ساتھ اعلان کیاجاتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کا گزشتہ رات انتقال ہوگیا ہے ،مرحوم کی عمر چھاسٹھ سال تھی ۔مرحوم کی لاش نفرت تعصب اورذات پات کے ٹکڑوں میں بٹی پاکستان کے ہرگلی کوچے، سڑک اور چوراہے پر بے یارومددگار پڑی ہے ۔مرحوم کا جنازہ آج رات کے اندھیرے میں ادا کیا جائےگا۔اور ہاں مرحوم کے کفن دفن کےخرچ کےلیے چندے کی بھی اپیل ہے۔

پاکستانی معاشرے کو اس کی پیدائش سے ہی مختلف بیماریاں لاحق ہوگئی تھیں۔اس معاشرے کو پیداکرنے والے بابے کو اس کی پرورش اور درست سمت میں چلانے کی تربیت کا موقع ہی نہ مل سکا بلکہ وہ خود بھی اسی معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور معاشرے کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی چل بسے تھے۔

پاکستانی معاشرہ چونکہ اپنی پیدائش سے پہلے ہندو معاشرے کے ساتھ پلا بڑاتھا اس لیے اونچ نیچ اور ذات پات اپنے ساتھ ہی پاکستان لےکرآیا تھا۔پاکستان آکر نفرت کی صنعت نے بڑے زوروشور سے ترقی کی ۔دوسروں کو برداشت نہ کرنے کی خصوصیت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس معاشرے کے افراداپنے علاوہ کسی دوسرے کو ترقی کرتے نہ دیکھ سکے ۔دوسروں کاسرکچل کرخود اس کی جگہ لینے کی دوڑ لگ گئی،دوسروں کے سر پر پیر رکھ کر اونچی جگہ پہنچنے کی روش پیدا ہوئی اور جو کسی کے سر تک نہ پہنچ سکا اس نے نیچے سے ٹانگیں کھینچ کر اپنی انا کی تسکین کا سامان کیا۔

مرنے والا معاشرہ خود کو اسلامی  معاشرہ کہلاتاتھا اوربدقسمتی سے اس معاشرے میں دوسروں کو سب سے زیادہ نقصان  بھی اسلام کے ہی نام پر پہنچایاگیا۔اسلام کے نام پر سب سے زیادہ خون بہایاگیا۔مذہب کے نام پر فرقے بندی عروج پر رہی ۔مدارس اور مساجد سے اسلام کی تبلیغ کےبجائے اپنے اپنے مذہب کی ترویج کی جاتی رہی۔ہرکسی نے صرف اپنے فرقے کو ہی خالص اسلام کا درجہ دیا دوسروں کو کافر اور موت کا حقدار قراردے کر قتل کیا جاتارہا۔پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا سربلندکرنے کا بیڑااٹھانے والوں نے مسلمانوں کو ہی سب سے بڑی رکاوٹ قراردے کر خوب قتل وغارت کی۔جہادی تنظیمیں سب سے زیادہ اسی معاشرے میں بنیں ۔

مرحوم معاشرے کی بیماریوں میں ایک بیماری دکھاوا اور ریاکاری بھی تھی جس نے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا تھا۔یہاں تک کہ نیکی کا کام بھی اللہ کی رضا کےلیے کم اور لوگوں کو دکھانے کےلیے زیادہ کیا جاتاتھا۔یہاں رہنے والے لوگ جب حج جیسے مذہبی فریضے پر روانہ ہوتے تو پورے علاقے میں اعلان کرواتے کہ فلاں ابن فلاں حج پر جارہے ہیں آپ ان کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں اور اپنی دعاؤں کی پرچیاں بھی ان کو دیں تاکہ وہ آپ کی حاجات بھی اللہ کے گھر تک پہنچاسکیں۔بسیں بھر کر لوگ انہیں رخصت  کرنے ایئرپورٹ پر جایاکرتے تھے۔ لوگ دکھاوے کے اتنے شوقین تھے کہ حج سے واپس آکر خود کو حاجی کہلاتے تھے یہاں تک کہ عمرہ کرنے والے بھی حاجی کا سابقہ لگانے میں راحت محسوس کرتے تھے ۔

 اس معاشرے نے ’’رول آف لاء‘‘ کا لفظ ایجاد کرنے والے کو بھی شرمندہ کردیا تھا ۔قانون کی حکمرانی کا اس معاشرے میں کہیں نام ونشان نہ تھا ۔بلکہ قانون کا مذاق اڑانا ،طاقت کے استعمال سے اس کی دھجیاں بکھیرنا اس میں رہنے والوں کا من پسند کام تھا۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا عملی نمونہ تھا یہ معاشرہ ۔سب لوگ طاقت کے مراکز کو سلام کرتے تھے ۔اس معاشرے میں فوج کے پاس بندوق تھی  اس کو یہ بندوق دشمن کےخلاف استعمال کےلیے دی گئی تھی اس نے دیکھا کہ بندوق تو بندوق ہے ضروری تھوڑا ہے کہ دشمن کےخلاف ہی استعمال کی جائے کیوں نہ اس کو اسی معاشرے پر حکمرانی کے طور پر استعمال کرکے دیکھاجائے لہٰذا فوج نے 1958میں تجربہ کیاجو کامیاب رہا پھر عوام کی طاقت سے حکمرانی اور بندوق کے زور پر حکمرانی میں خوب جوڑ پڑا جو اس معاشرے کے پوری طرح مرنے تک جاری رہا۔یہاں تک کہ عوام کو بھی اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سیاسی حکمران اچھے ہوتے ہیں یا فوجی حکمران۔

اس معاشرے  میں سفری سہولیات  تو عوام کو مل ہی نہ سکیں لوگ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم  پر رہے۔امیروں نے  سفر کی سہولت کےلیے  بڑی بڑی گاڑیاں خرید لیں لیکن گاڑیوں میں بیٹھنے کےباوجود ان کی ذہنیت موٹرسائیکل سوار کی رہی،سڑک استعمال کرنے کی تمیز نہ انہیں آئی اور نہ کسی نے سکھائی کہ قانون کی حکمرانی تو تھی نہیں نہ ہی انہوں نے اس کی پابندی ضروری خیال کی ۔اس معاشرے نے  دوسرے معاشروں کی دیکھا دیکھی ٹریفک قوانین بنالیے اور چوراہوں پر ٹریفک اشارے بھی  لگالیے  لیکن لوگوں کو ان اشاروں کی پابندی کرانے کےلیے ایک پولیس اہلکار کو چالان کرنے کی کتاب لے کر کھڑا کرنا پڑا۔اس کا علاج بھی امیروں نے کرلیا اور ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر رشوت کا خون ان پولیس اہلکاروں کے منہ کو لگادیا ۔۔پھر سب چلنا شروع ہوگیا۔

اس معاشرے کو شفقت،پیار،محبت،رواداری،اخلاق  نرم خوئی اور اسی طرح کی دوسری اچھی صفات جن کا مسلمان ہونے کے ناطے بھی ان میں ہونا ضروری تھا ،اچھی خاصی چڑ تھی بلکہ ان تمام صفات سے انہوں نے ٹھیک ٹھاک دشمنی پال رکھی تھی۔ پھل کھانے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے لیکن محنت کرنے سے جی چراتے تھے،یہاں رہنے والوں کوصفائی ستھرائی سے بھی اچھا خاصا بیرتھا۔حکومت نے شہروں میں صفائی بہترکرنے کےلیے نظام وضع کیا اور کوڑا ڈالنے کےلیے گلیوں میں بڑے بڑے ڈسٹ بن رکھوادیے ۔یہاں کے باسی  اپنے گھروں سے کوڑا اکٹھا کرتے ،اٹھاتے اور ڈسٹ بن کے اندر ڈالنے کے بجائے اس کے قریب باہر ہی پھینک دیتے یوں رکھی گئی ڈسٹ بن خالی رہتی اور ارد گرد کا پورا علاقہ گند سے بھرجاتا۔۔صفائی والے آتے تو پہلے سارا کوڑا اٹھاکر اس ڈسٹ بن میں ڈالتے پھر اسے اٹھاکر گاڑی میں ڈالتے۔۔۔

اس معاشرے میں میڈیا بھی تھا جس نے خود ساختہ طورپر رہنمائی کا ٹھیکہ لےلیا تھا،جب ٹی وی آزاد ہوا اور نیوزچینل دھڑادھڑآنے لگے تو بہت سے بیوپاری اس میدان میں گھس آئے ،چینلز کے ٹاک شوزپر گھس بیٹھیے افراد کا قبضہ ہوگیا۔یہ لوگ پرائم ٹائم میں ٹی وی پر عدالتیں لگاتے جو ان کو ناپسند ہوتا اس کی کلاس لیتے جوپسند ہوتا اس کی تعریفیں کرتے۔جس کی چاہتے اس کی عزت اتارتے ۔معاشرے کے دوسرے لوگ ان سے ڈرنے لگے ۔زیادتی کاشکار لڑکیوں کو شوزمیں بلواکر ان کے جنسی استحصال کے قصے مزے لےلےکرسننے لگے ۔پروگرام ختم ہونے پر خواتین معاشرے میں رسوا ہوتیں اور یہ جغادری اپنی ریٹنگ دیکھ کر خوش ہوتے ۔اس میڈیا نے بھی معاشرے کی بنیادیں ہلانے میں اپنا پورا حصہ ڈالا،لوگوں کو تقسیم کیا یہاں سے پیسا ملا اس کو ہیروجس نے انکار کیا اس کی زندگی تباہ ۔

اس معاشرےمیں باسیوں کوانصاف فراہم کرنے کےلیے عدالتی نظام بنایاگیا۔عدالت میں بیٹھے لوگوں نے ،ریڈرسے جج تک سب نے دیکھا کہ انصاف بیچ کر اچھاخاصا پیسا کمایا جاسکتاہے پھر کیا تھا انصاف سرعام نیلام ہونے لگا،ایک ایک مقدمہ سالوں پر محیط ہوگیا،عدالتی نظام کرپشن اور شوت کا گڑھ بن گیا۔عدالت کی طرح تمام سرکاری محکموں میں جائز کام بھی ناجائز بنادیے گئے اسی معاشرے کےباسیوں  نے اپنی بھوک مٹانے کےلیے دوسروں کو کنگال کرنے کے منصوبے بنائے۔

اس معاشرے کو ایک بیماری احتجاج کی بھی بری طرح چمٹ گئی تھی ۔کسی کو اپنی نااہلی اور کاہلی کی وجہ سے روٹی پانی نہ ملتا وہ دھرنا دینے کا اعلان کردیتا۔یہاں ریاست سے تنخواہ لینے والے ملازمین کا سال میں زیادہ ٹائم اپنے دفاتر میں کام کے بجائے سڑکوں پر احتجاج میں گزرجاتا۔یہاں پھیلے ٹی وی چینلز کے کیمرے اس احتجاج کو مزید بڑھانے کا باعث بنتے یہاں تک کہ یہ تاثر گہرا کردیا گیا کہ پرامن احتجاج کچھ نہیں ہوتا احتجاج میں اپنی ہی ریاست کی املاک کو نقصان نہ پہنچایا تو کیا احتجاج کیا۔شفاف الیکشن کی ٹرم انتہائی متنازع تھی ۔جیتنے والے کے نزدیک انتخاب شفاف اور ہارنے والے کے نزدیک الیکشن غیر شفاف ہوتا۔شکست تسلیم کرنے کا رواج  موجود تھا نہ اخلاقی جرات۔

لوگ اس انتقال پرملال کی خبر سن کر اکٹھے ہونا شروع ہوگئے کہ اس کے کفن دفن کا بندوبست کیا جائے ۔سبھی آپس میں مرحوم کی صفات پر بحث بھی کررہے تھے لیکن کسی بھی چہرے پر اس کے انتقال پر ابھی کوئی ملال تھا نہ مستقبل میں سدھرنے کی کوئی چاہ۔بس اس موقع پر بھی اسی حسد،دکھاوے اور نفرتوں کی باتیں تھیں۔سب لوگ قبرستان جانے لگے تو یکایک لاؤڈاسپیکر آن ہوا ۔لاؤڈ اسپیکر پر پھر ایک اعلان ہوا۔۔


حضرات ایک ضروری اعلان سنیں ۔۔۔معاشرے کے کچھ حکیم طبیعت ،منجھے ہوئے اور نبض شناس  افرادکے ایک پینل نے معاشرے  کی لاش کا جائزہ لیا ہے ان کا کہناہےکہ وہ جائزہ لےکر اس نتیجے پر پہنچے ہیں  کہ یہ معاشرہ ابھی پوری طرح مرا نہیں ہے بلکہ اپنی آخری سانسیں لےرہا ہے اگر کچھ افراد خلوص دل سے کوشش کریں تو اس کی صحت میں بہتری  کی گنجائش موجود ہے اس لیے متفقہ طورپر فیصلہ کیاگیا ہے کہ اس معاشرے کو اس کی صحت میں بہتری تک آئی سی یو میں رکھا جائےگا۔اس کے باسیوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ اس معاشرے کو مرنے سے بچانے کےلیے اپنے حصے کا کردار خلوص نیت سے اداکریں ۔

1 comment:

gulrani said...

Wawoooo very very thought provoking,write up, it's really shows the true face of our country. Yet invites us to play our role, deposit blaming each other, let's take first step to give new life to our society.