Tuesday, August 26, 2014

AFZAL KHAN'S ALLEGATIONS



 پیارے افضل۔۔ٹو



خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں پیدا ہوئے محمد افضل خان نے اعلیٰ تعلیم کےلیے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کا رخ کیا اور 1978میں ایم اے صحافت کا امتحان پاس کیا اور 1979میں سرکاری نیوزایجنسی اے پی پی میں اسٹاف رپورٹر کی نوکری کی۔1996تک اے پی پی میں 17سال نوکری کےبعد انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنا باقی کیریئرگزارنے کا فیصلہ لیا اور 1996میں بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنزالیکشن کمیشن آف پاکستان میں آگئے الیکشن کمیشن میں انہوں نے سرکاری قوانین کے تحت اور بعض اوقات سفارشوں کے سہارے ترقی کے زینے طے کیے اور17سال نوکر ی کے بعد سرکاری طور پر ان کو ان کی عمر عزیز پوری ہونے پران کی خواہش کے خلاف ریٹائرکردیا گیا۔الیکشن کمیشن میں تعیناتی کے دوران ہی وہ ڈیپوٹیشن پر خیبرپختونخوا حکومت میں سیکریٹری انفارمیشن بھی رہے ۔

افضل خان میرٹ کے اس قدر دلدادہ تھے کہ انہوں نے اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی خلاف قواعد الیکشن کمیشن میں سینئراسسٹنٹ کی اسامی پر گریڈ15میں بھرتی کرالیاتاکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں پاکستانی سرکار ان کے خاندان کی خدمات جلیلہ سے محروم نہ ہوجائے۔ افضل خان صاحب 21ویں گریڈ میں ریٹائر کردیے گئے لیکن ان کو سرکاری گھراپنی جان سے بھی زیادہ عزیزتھا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اسی سرکاری گھر میں رہنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے کامیاب منصوبہ بنایا اس کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کا استعمال کیا ۔گریڈ15میں ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹی سرکاری گھر کی حقدار نہیں تھیں تو انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت میں گریڈ 16میں ان کو ڈیپوٹیشن پر بھجوانے کی درخواست کی جو ڈیپوٹیشن پر پابندی کےباوجود انہوں نے منظور کرائی اور اب سولہویں گریڈ کے اہلکارکو21ویں گریڈ کا گھر الاٹ ہے اور موصوف افضل خان اسی سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ بیٹی کی ڈیپوٹیشن کی درخواست آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں



افضل خان صاحب کو سرکاری نوکری سے خاص محبت تھی وہ 34سال تک پاکستان کی خدمت کو بہت کم شمارکرتے تھے ۔مئی 2013میں ان کی ریٹارمنٹ کی تاریخ یوں یوں قریب آرہی تھی انہیں نوکری سے دوری بہت ستاتی تھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو اپنی نوکری میں توسیع کی درخواست دی ۔فخروبھائی نے ان کی یہ درخواست الیکشن کمیشن کے ممبران کو بھجواکررائے طلب کی ۔جسٹس ریاض کیانی جنہوں نے افضل خان کے بقول 90فیصد الیکشن تباہ کیا،نے ان کی اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے سخت ریمارکس لکھے اور ان کی اس درخواست کو خلاف ضابطہ قراردے کر واپس کردیا ۔جس کے بعد پاکستان اس عظیم مجاہد کی خدمات سے محروم ہوگیا۔جسٹس ریاض کیانی کے ریمارکس اس درخواست میں پڑھے جاسکتے ہیں۔



افضل خان کا مولانا فضل الرحمان کی جماعت جےیوآئی ف سے بھی بہت لگاؤ تھا اس لیے الیکشن کمیشن کی نوکری کےدوران انہوں نے 2004میں خیبرپختونخوا میں اپنی خدمات دینے کا فیصلہ کیا۔وہاں اس وقت ایم ایم کی حکومت تھی اور اکرم خان درانی صوبے کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے اس بطل جلیل کو خیبرپختونخوا کا سیکریٹری انفارمیشن لگادیا۔یہاں رہتے ہوئے انہوں نے خوب سرکاری اشتہارات جاری کیے ان اشتہارات میں کمیشن لینے کی دوانکوائریاں ان کے خلاف شروع ہوئیں تو انہوں نے کہاکہ انہیں استثنیٰ حاصل ہے لیکن کرپشن میں استثنیٰ کی ان کی عرضی قبول نہ کی گئی اور افضل خان کے پی کے سے واپس الیکشن کمیشن آگئے اور یہاں اپنی خدمات جاری رکھیں۔

افضل خان صحافت سے وابستہ رہے تھے اس لیے انہیں میڈیا پر خود نمائی کا بہت شوق تھا ۔نگران حکومت میں جب وہ قائم مقام وزیرداخلہ سے الیکشن سکیورٹی پر اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے آئے تو رپورٹر قائم مقام وزیرداخلہ ملک حبیب سے سوال کرتے تو افضل خان ان کو چپ کراکر جواب دینے لگتے اسی کشمکش میں ان کی رپورٹروں سے اچھی خاصی جھڑپ ہوگئی اور بریفنگ ادھوری چھوڑنا پڑی ۔

الیکشن کمیشن کے سابق ایڈشنل سیکریٹری اور اے آروائی پر نشر کیے گئے سپر ہٹ ڈرامہ سیریل پیارے افضل میں کوئی مماثلت نہیں ۔۔۔ہاں صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ پیارے افضل میں ڈرامے کا ہیرو ایک مولوی کا بیٹا تھا اور ہمارے افضل ماشاءاللہ خود مولوی ہیں اور ڈرانے والا افضل ایک امیرآدمی کی بیٹی کی محبت میں مبتلا تھا تو ہمارے افضل سرکاری نوکری کی محبت میں گم تھے۔۔۔

آخر میں صرف یہ کہ محمد افضل خان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں وہ عمران خان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے دھرنے میں اپنے خاندان کے ساتھ شریک ہیں تویہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنی وابستگی جس کے ساتھ رکھنا چاہیں رکھیں۔ اس بات کی بھی اہمیت نہیں کہ وہ ڈیڑھ سال تک کیوں خاموش رہے ۔میں تو صرف یہ کہتاہوں کہ جب 2013کےالیکشن ہورہے تھے تو وہ الیکشن کمیشن میں بہت ہی اعلیٰ عہدے پر فائزتھے ۔براہ راست سارے معاملات میں ملوث تھے اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو پیارے افضل براہ راست خود بھی اس جرم میں ملوث ہیں ۔اگر وہ بہت پاک صاف تھے تو اس وقت الیکشن کی پاکیزگی کا ڈھنڈورا کیوں پیٹ رہے تھے یا کم ازکم وہ اتنے ثبوت ہی جمع کرلیتے کہ آج ان کو یہ کہنے کےساتھ ساتھ کہ الیکشن دونمبر نہیں 100نمبر ہے کم ازکم کوئی ثبوت تو دینے کےلیے ہوتا۔۔ڈرامے کے آخر میں پیارا افضل گینگسٹر بن کر جان سے چلاجاتاہے اور ہمارے افضل بھی بس خوامخوا پتہ نہیں کس کےلیے خود کش بمبار بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔


No comments: