Wednesday, August 20, 2014

FROM INDIAN AAP TO PAKISTANI PTI


بےصبراعام آدمی 


بھارتی ریاست اترپردیش میں پیدا ہوئے اروند کیجری وال نے1995میں مقابلےکا امتحان پاس کیا اور بھارتی سول سروس جوائن کی۔سن 2000میں کیجری وال نے مزید تعلییم کےلیے تین سال کی چھٹی لی اس عرصے میں ان کوتنخواہ ملتی رہی۔انہوں نے بھارت سرکارسے معاہدہ کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے بعد دوبارہ نوکری جوائن کریں گے اور کم از کم تین سال تک عہدے سے مستعفی نہیں ہوسکیں گے اگر انہوں نے تین سال سے پہلے استعفیٰ دیا تو انہیں چھٹی کے عرصہ میں وصول کی گئی تنخواہ واپس کرنی پڑے گی۔



2003میں کیجری وال کی تعلیم پوری ہوئی تو وہ معاہدے کےمطابق دوبارہ نوکری پر حاضر ہوئے اور دلی میں انکم ٹیکس کے جوائنٹ کمشنر بن گئے۔انہوں نے ڈیڑھ سال تک نوکری کی ۔اس دوران ان کو خیال آیا کہ بھارت میں کرپشن بہت ہے اور وہ اس کرپشن کو روک سکتے ہیں ۔دوستوں نے مشورہ دیا کہ انہیں انا ہزارے کی احتجاجی تحریک کا حصہ بن جاناچاہیئے ۔وہ بھارت سے کرپشن ختم کرنے کےلیے اتنے بے تاب ہوئے کہ ریاست سے کیےعہد کو توڑنے کا سوچنے لگے انہوں نے ریاست کے خرچے پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے عوض مزید 3سال بھارتی سرکارکی نوکری کرنے کا عہد کیا تھا لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی ان کے دل میں بھارتی معاشرے سے کرپشن ختم کرنے اور ملک میں انقلاب لانے کاخواب ستانے لگا۔اسی لگن میں کیجریوال نے ریاست سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور قانونی کارروائی سے بچنے کےلیے ڈیڑھ سال کی بغیر تنخواہ چھٹی کی درخواست دے ڈالی ۔اس دوران وہ اناہزارے کے قریبی ساتھی بن گئے اور دھرنوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شریک ہونے لگے۔ ڈیڑھ سال بعد 2006میں جب ان کی بغیر تنخواہ چھٹی پوری ہوئی تو اروند کیجری وال نے سرکاری نوکری سے استعفی دے دیا۔


ریاست نے اروند کیجری وال  کو  معاہدہ یاد دلاتے ہوئے ان سے تنخواہ کی واپسی کا مطالبہ کیا وہ اس مطالبے کو یہ کہہ کرٹالتے رہے کہ انہوں نے 3میں سے ڈیڑھ سال کام کیا اور ڈیرھ سال بغیر تنخواہ کے چھٹی لی ہے اس طرح3سال پورے ہوگئے لیکن بھارت کی ریاست اتنی کمزور نہیں ہے وہاں دیر ہے لیکن اندھیر واقعی نہیں ہے ۔ریاست نے اروند کیجری وال کی یہ دلیل ماننے سے انکار کردیا اور پیسوں کا مطالبہ جاری رکھا ۔یہاں تک کہ 5سال بعد 2011میں اروند کیجری وال کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے انہوں نے دوستوں سے ادھار پیسے پکڑ کر ریاست کو واپس کیے اور جان خلاصی کروائی ۔

اروند کیجری وال نے ریاست سے جان چھڑا کر اسی ریاست پرحکمرانی کامنصوبہ بنایا اس مقصد کےلیے اروند کیجری وال نے دسمبر 2012میں عام آدمی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا۔اس سیاسی جماعت کے بننے کے ٹھیک ایک سال بعد دسمبر 2013میں دہلی کے ریاستی الیکشن کا اعلان ہوا تو اروند کیجری وال نے الیکشن لڑے کا اعلان کیا۔دہلی کے عوام نے عام آدمیوں کی اس پارٹی کو اپنا نجات دہندہ مان کر خوب ساتھ دیا ۔مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی اس پارٹی نے دہائیوں سے دہلی میں موجود کانگریس سرکارکاتخت ووٹ کے ذریعےالٹ دیا ۔اروند کیجری وال نے تخت دہلی پر براجمان وزیراعلیٰ شیلاڈکشت کو28ہزارووٹوں سے شکست دی ۔مجموعی طور پرعام آدمی پارٹی نے70میں سے 28نشتیں جیت لیں۔اس الیکشن میں بھارتی جنتا پارٹی نے سب سے زیادہ 31نشستیں جیتیں لیکن واضح اکثریت کسی کو نہ ملی ۔کانگریس نے اس الیکشن میں 8نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔اروند کیجری وال نے جس پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا اسی پارٹی یعنی کانگریس کے ساتھ مل کر دہلی میں حکومت بنائی اور 28دسمبر2013کودہلی کے ساتویں وزیراعلیٰ بن گئے ۔انہوں نے اقتدار میں آنے کے15دن میں کرپشن کے خلاف جان لوک پال بل اسمبلی سے منظور کرانے کااعلان کیا۔

دہلی میں عام لوگوں کی حکومت بننے پر اروند کیجری وال کی واہ واہ شروع ہوئی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث بھارتی سیاستدان بننے والے کیجری وال نے عام آدمی کےلیے کچھ فیصلے کیے انہوں نے لوگوں کو مفت پانی فراہم کرنے اور بجلی کی قیمت آدھی کرنے کااعلان کیا۔ان اعلانات پر عمل اور مزید اچھے کاموں کے لیے اس عام آدمی کو لمبی اننگز کھیلنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔عام آدمی خاص جگہ پہنچ کر اوقات سے باہر چلا گیا اس عام آدمی نے اختیارات کےلیے مرکزی حکومت سے لڑنا شروع کردیا ۔کرپشن کےخلاف جس قانون کی منطور ی کا 15دن میں اعلان کیا تھا اپنی 49دن کی حکومت میں وہ بھی پاس نہ 
ہوسکا۔۔۔۔


اروند کیجری وال نے تین پولیس والوں کےخلاف مرکزی حکومت سے کارروائی کامطالبہ کیا نہ کیے جانے پر وزیراعلیٰ نے احتجاج شروع کردیا۔یہ احتجاج دھرنے کی شکل اختیارکرگیا،کیجریوال وزیراعلیٰ ہاؤس چھوڑکر سڑک پر بستر لےآئے انہوں نے وہیں رہنا  شروع کردیا۔وہ سونے کےلیے بھی گھر نہ جاتے۔اس جذباتی عام آدمی نے حکمت سے کام نہ لیا ایک صوبے کی حکومت ملی اس کو خود شہید کردیا،کرپشن کے خلاف قانون نہ بن سکا،عام لوگوں کو ریلیف نہ ملا۔۔بھارت کا یہ عام آدمی جذباتی اور فرسٹریٹ ثابث ہوا۔صرف49دن بعد اپنی حکومت ختم کرڈالی۔سوچا کوئی بڑا انقلابی کام کیا ہے لوگ احتجاج کریں گے واپس لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اپنی مقبولیت کے زعم میں مبتلا یہ عام آدمی بھارت میں اتبا غیر مقبول ہوا کہ اس حکومت کے خاتمے کے صرف 5ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں بری طرح شکست کھاگیا،دلی کی ریاست جہاں اس کی حکومت تھی وہاں سے ایک بھی سیٹ عام آدمی پارٹی کو نہ مل سکی ،اروند کیجری وال نے نریندر مودی کو چیلنج کیا اس کے مقابلے میں الیکشن پر کھڑا ہوا اور اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھا۔

اس کو بھلے آپ بے وقوفی نہ مانیں لیکن عقلمندی نہیں کہاجاسکتا کہ اپنی ہی حکومت پر خود کش حملہ کیوں؟ اگر وہ صبر کرتے تو مین سٹریم سیاست میں جگہ بناتے،دہلی کے لوگوں کے لیے کام کرکے وہاں اپنا آپ مضبوط کرتے لیکن انہوں نے فراراختیار کیا۔۔


پاکستان میں جب 2012کے شروع میں تحریک انصاف کو عروج ملا تو لوگوں کی توقعات پاکستان کے عام آدمی عمران خان سے لگ گئیں ،عوام نے تیسرے آپشن کے طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا ایک صوبے میں حکومت بن گئی ۔۔لیکن صبر ان میں بھی نہیں ہے ۔۔۔سوچا ایک صوبہ نہیں پورے ملک پر حکومت ان کا حق ہے اسی حق کو لینے کےلیے اروند کیجری وال کی طرح سڑک پر ہیں۔۔کیجری وال گھر نہیں جاتے تھے لیکن پاکستان کا عام آدمی بنی گالا چلاجاتاہے۔یہ عام آدمی کانمائندہ بھی بہت بے صبرانظرآرہاہے ۔قومی اسمبلی میں موجود ارکان سے استعفے لےکر جیب میں رکھ چکا ہے۔۔جس صوبے میں حکومت ہے وہاں تحریک عدم اعتماد لائی جاچکی ہے ۔۔۔



کیجری وال اورعمران خان کی ذات میں کوئی اور قدر مشترک ہو یا نہ ہو لیکن بے صبری دونوں میں مشترک ہے۔۔۔جلد بازی نے بھارتی عام آدمی کی ضمانت ضبط کرادی  ۔پاکستان میں بھی اس وقت عام آدمی کو بہت بے صبری ہے وہ عقلمندی،حکمت اور مصلحت کے بجائے پاپولرسیاست کے سرپٹ گھوڑے پر سوار ہے ۔اگر اس عام آدمی نے بھی بھارتی عام آدمی جیسا فیصلہ کردیا تو الیکشن ضمنی ہوں یا چارسال بعد عام الیکشن۔ اس عام آدمی کی ضمانتیں ضبط ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔۔اس بے صبری سے بھارت کے بعد پاکستان کا عام آدمی بھی یقینن مایوس ہوگا۔۔۔۔

No comments: