Sunday, August 24, 2014

PTI'S RIGGING ALLEGATIONS AND 4 CONSTITUENCIES


تحریک انصاف کےچار حلقے


یہ تحریر پڑھنے سے پہلے اگر آپ یویوہنی سنگھ کا گانا

چاربوتل واڈکا      کام میرا روزکا

دوتین بار سن لیں تو آپ کو چار حلقوں کا معمہ سمجھنے میں کافی آسانی پیدا ہونے کی امید ہے۔۔۔یہ میرامشورہ ہے حکم نہیں۔۔۔۔لیکن گزارش ہے کہ گانا سننے کےفوری بعد اس آرٹیکل کو پڑھنا شروع کردیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چاربوتلوں کو چار حلقوں پر ترجیح دیناشروع کردیں اور چار حلقوں کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑجائے اور عمران خان کو ایک اور دھرنا دینا پڑے۔
الیکشن 2013میں تحریک انصاف نے پورے ملک میں 70کے قریب حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کےلیے الیکشن ٹریبیونلز میں درخواستیں دائر کیں ان ستر میں قومی اسمبلی کے چار حلقے بھی شامل ہیں جن کا بہت زیادہ شور ہورہاہے گویا تحریک انصاف کو 70میں سے صرف انہی چار حلقوں پر سب سے زیادہ اعتراض تھا۔ان چار حلقوں میں تین پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک حلقے پر آزاد امیدوار نے تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین کو شکست دی۔ن لیگ کے جیتنے والوں میں دو کامیابی کے بعد وزیر بنے اور ایاز صادق اسپیکر کے منصب پر فائز ہیں۔
ان چار حلقوں میں دوحلقے لاہور میں ہیں ان میں این اے 122ہے جس میں ن لیگ کے ایازصادق نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہرایا لاہور کے حلقہ 125میں ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کے حامد خان کو ہرایا جو عمران خان صاحب کےقریبی رشتہ دار ہیں،تیسرا حلقہ سیالکوٹ کا این اے110ہے یہاں سے خواجہ آصف کا میاب ہوئے جبکہ چوتھا حلقہ این اے 154ہے یہاں سے آزادامیدوار صدیق بلوچ جیتے تھے۔
ان چار حلقوں کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں

این اے122لاہور5

اس حلقے میں تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان صاحب مسلم لیگ ن کے ایازصادق صاحب کے مدمقابل تھے نتائج کےمطابق ایازصادق نے93362 ووٹ لےکر کامیابی حاصل کی ان کے مدمقابل عمران خان نے 84417ووٹ حاصل کیے ۔اس حلقے میں ایاز صادق کے 9ہزارووٹ عمران خان سے زائد ہیں ۔اس حلقے میں 20امیدواروں نے الیکشن لڑا ۔اگر باقی 17امیدواروں کو ڈالے گئے ووٹ ملا کر بھی عمران خان کومل جاتے تو بھی عمران خان اس حلقے سے کامیاب نہ ہوپاتے۔عمران خان نے الیکشن کمیشن کو اس حلقے میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست دی الیکشن کمیشن نےمعاملہ ریٹرننگ افسر کو ریرکردیا  اس پر ایازصادق نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ ریٹرننگ افسر کا کردار صرف الیکشن کرانے تک محدود ہے دوبارہ گنتی کےلیے الیکشن ٹریبیونل میں معاملہ جانا چاہیئے اس کیس پر لاہور ہائی کورٹ نے اسٹے دیدیا اور کیس چل رہاہے،عمران خان خود بھی ایک بار ہائی کورٹ میں پیش ہوچکے ہیں۔اور ایک بار الیکشن ٹریبیونل میں بھی پیش ہوگئے ہیں یہاں انہوں نے اس جج (جسٹس کاظم ملک)کی کافی تعریف کی جسے ان کے رشتہ دارحامد خان گالیاں دے چکے ہیں۔

این اے125لاہور8

اس حلقے میں ن لیگ کے سعدرفیق نے ایک لاکھ23ہزارووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے حامد خان نے 83190ووٹ حاصل کیے یوں دونوں میں ووٹوں کا فرق 40ہزار ہے۔اس حلقے کا معاملہ بھی الیکشن ٹریبیونل میں چل رہاہے۔خواجہ سعد رفیق کا کہناہے کہ الیکشن ڈے پر 700میں سے کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر پورادن پی ٹی آئی کے کسی پولنگ ایجنٹ نے ایک بھی ووٹ چیلنج کیا نہ کوئی شکایت کی اور 40گھنٹے بعد دھاندلی کا شورمچایا۔۔الیکشن ٹریبیونل میں کیس شروع ہوا تو حامد خان نے انگوٹھوں کی تصدیق کا حکم دینے کی درخواست کی ۔جسٹس کاظم ملک نے کہا کہ پہلے دھاندلی کے شواہد فراہم کریں اگر ضرورت ہوئی تو انگوٹھوں کی تصدیق کا حکم دیاجائے گا۔اس پر حامد خان کے وکلا بھڑک اٹھے اور جسٹس کاظم ملک کو بہت ہی برابھلا کہا ۔جسٹس کاظم نے اس کیس کوسننے سے معذرت کرتے ہوئے جونوٹ لکھا اس میں انہوں نے اس کیس کو اپنی پروفیشنل زندگی کا براترین تجربہ قراردیا اور کہا کہ تحریک انصاف اپنی خواہش کے فیصلے کےلیے ججوں کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کررہے ۔اب یہ کیس تحریک انصاف نے فیصل آباد کے ایک ٹریبیونل میں لگوایا ہے یہاں اس کی سنوائی ہورہی ہے ۔۔اس حوالے سے خواجہ سعد رفیق کے مؤقف کےلیے اس لنک کو کلک کریں 


این اے110سیالکوٹ 1

اس حلقے میں ن لیگ کے خواجہ محمد آصف اور تحریک انصاف کے عثمان ڈار مد مقابل تھے نتیجہ ن لیگ کے خواجہ محمد آصف کے حق میں آیا جنہوں نے 92803ووٹ حاصل کیے ۔تحریک انصاف کے عثمان ڈار نے 71525ووٹ لیے دونوں میں ووٹو ں کا فرق 20ہزارکے قریب رہا ۔یہ کیس بھی ٹریبیونل میں گیا یہاں ۔جج کے بلانے پر عثمان ڈار پیش ہی نہیں ہورہے ۔جج نے عثمان ڈار کو کئی بار تنبیہ کی کہ وہ ثبوت پیش کریں لیکن عثمان ڈار کاروباری مصروفیات میں ملک سے باہر رہے اسی پر جج نے تحریک انصاف کے امیدوار پر 30ہزار روپے جرمانہ عائد کیا انہوں نے وہ جرمانہ بھی جمع نہیں کرایا۔

این اے 154لودھراں 1

اس حلقے میں تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار صدیق بلوچ میں مقابلہ تھا اور نتیجہ آزاد امیدوار صدیق بلوچ کے حق میں آیا،تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر خان ترین دوسرے نمبر اور مسلم لیگ ن کے امیدوار سید رفیع الدین تیسرے نمبر پر رہے۔یہاں صورتحال دلچسپ رہی صدیق بلوچ نے 86046ووٹ لیے جہانگیر ترین نے 75814اور مسلم لیگ کے رفیع الدین نے 45406ووٹ لیے ۔مسلم لیگ ن کا امیدوار یہاں تیسرے نمبر پر تھا لیکن پی ٹی آئی نے یہاں بھی الزام اسی پر لگایا۔یہ حلقہ بھی ٹریبیونل میں سنا جارہا ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی اس حلقے میں ووٹوں کی گنتی کا حکم دیا جس میں نتیجہ تبدیل نہ ہوا۔اس مقدمے میں ملک کے نامور وکیل شریف الدین پیرزادہ کی خدمات جہانگیر ترین نے حاصل کررکھی ہیں۔معاملہ ابھی تک چل رہاہے ۔کچھ ذرائع کا یہ بھی کہناہے کہ جہانگیر ترین نے انگوٹھوں کی تصدیق نہ کرانے کی درخواست بھی کی ہے ۔
اگر پی ٹی آئی کے احتجاج کا مقصد انہی چار حلقوں کی تحقیقات تھی تو اس کامعاملہ تو کسی صورت بھی تحریک انصاف کے حق میں نظر نہیں آرہا اور تاثر یہی ہے کہ معاملہ کی تاخیر تحریک انصاف کے امیدواروں کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن اگر خان صاحب نیا پاکستان اپنی شادی کےلیے بنارہے ہیں تو پھر ان حلقوں اور دھاندلیوں کو آپ ذرا خاطر میں نہ لائیں اور چپ کرکے آواز اونچی کریں اور ہنی سنگ کا گانا رپیٹ پہ لگا کر صرف سنتے رہیں۔۔
چاربوتل واڈکا۔۔۔کام میرا روزکا

No comments: