Thursday, August 28, 2014

END GAME?


کہانی ختم؟

حکومت نے فوج کے سربراہ سے درخواست کی کہ آپ اس ڈی چوک کی صفائی کرنے میں آگے آئیں۔۔فوج نے ذمہ داری لی اور سب دھرناماسٹر اوقات میں آگئے۔دونوں بھائی اپنے اپنے کنٹینر سے نکلے مظاہرین کوبتایا کہ غلیل والوں نے ذمہ داری لےلی ہے کہ وہ گارنٹی دیں گےکہ انقلاب آئے گا۔کل کیا ہوگا اس پر کل سہی ۔میں آج کی اس پیش رفت پر کچھ لکھنا چاہتاتھا لیکن اس وقت کےلیے جناب قبلہ  وسعت اللہ خان صاحب کا کچھ دن پہلے بی بی سی اردو کی ویب سائیٹ پر شائع  شدہ آرٹیکل  سےبہتر کچھ نہیں لکھا جاسکتا تو اسی کوکافی سمجھتے ہوئے یہاں 
کاپی کرنے کی جسارت کررہاہوں۔



سب لفٹین بن جائیں گے

اصول یہی ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد تھوڑا آرام کیا جاتا ہے اور پھر اترائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ شوق کوئی بھی ہو جب تک پورا نہ ہو تب تک دل میں پھانس رہتی ہے۔ ارمان دل میں ہی رہ جائے تو خلش تا زندگی بے کل رکھتی ہے۔
جمہوریت تو بنی ہی اسی لیے ہے کہ جس کا جو شوق اور خواہش ہو پورا کر لے اور اس کے بعد یکسوئی کے ساتھ کوئی کام کی بات سوچے۔

اور رہی بات دوستوں کی، تو اچھے جمہوری دوستوں کی یہی پہچان ہے کہ جس کا جو دل چاہتا ہے اسے کرنے دیں اور جب وہ کسی خطرے کی جانب ان جانے میں جانے لگے تو سمجھا بجھا کے رخ موڑ دیں اور پھر آزاد چھوڑ دیں مگر اسے آس پاس منڈلاتے خطرات سے بھی آگاہ کرتے رہیں۔ اور جب کوئی تھکا ماندہ ساتھی شوقِ مہم جوئی پورا کر کے ان کہی مدد کے لیے ادھر ادھر دیکھے تو دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی جانب ہاتھ دراز کر کے اسے خاموشی سے اوپر کھینچ لیں۔

مدبر کون ہوتا ہے اور وہ اپنے حامیوں کی امیدیں کیسے بڑھاتا ہے اور جب امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو اس وقت حامیوں کو ذہنی شکست و ریخت سے کیسے بچاتا ہے۔ اس بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم۔ بس ایک واقعہ سنائے دیتا ہوں۔

جب دوسری عالمی جنگ کے لیے عام بھرتی شروع ہوئی تو بازوئے شمشیر زن پنجاب کے انگریز ڈپٹی کمشنروں نے مراعات یافتہ معززین، چوہدریوں، کلاہ داروں اور نمبرداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ جوان بھرتی کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

وسطی پنجاب کے کسی گاؤں میں ایک نمبردار نے جنگ اور حالات سے بیزار جوانوں کو جمع کیا اور انھیں خواب دکھایا کہ اس گاؤں سے جو جوان بھی فوج میں بھرتی ہوگا میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے کم ازکم لفٹین کا عہدہ دلواؤں گا۔ چنانچہ تمام نوجوان جوق در جوق نمبردار کی سربراہی میں شہر کی جانب چل پڑے اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر جمع ہوگئے۔

ڈپٹی کمشنر نے وفادار نمبردار کو اتنے نوجوان لانے پر شاباشی دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے حکامِ بالا سے بطور انعام دس مربع زمین کی سفارش کرے گا۔ لیکن جب نمبردار نے کہا کہ میں ان نوجوانوں کو بہت مشکل سے اس وعدے پر بھرتی کے لیے راضی کر پایا ہوں کہ سب کو لفٹین بھرتی کیا جائے گا تو ڈپٹی کمشنر صاحب کا منھ اتر گیا۔ کہنے لگا یہ ناممکن ہے۔ لفٹین صرف وہی بھرتی ہوسکتا ہے جو کم ازکم میٹرک پاس ہو۔ میں صرف کچھ اضافی سہولتوں کا تو وعدہ کرسکتا ہوں مگر لفٹین بنوانا میرے اختیار سے باہر ہے۔

نمبردار کے پسینے چھوٹ گئے لیکن کمرے سے باہر نکلتے ہی اس نے ہوا میں مکے کا نشان بنایا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے نوجوانوں سے مخاطب ہوا:

’میرے بچو! خوشخبری یہ ہے کہ کمشنر صاحب نے وعدہ کر لیا ہے کہ آپ سب کو انشااللہ لفٹین بنایا جائے گا۔ مگر اس وقت چونکہ جنگ ہو رہی ہے لہٰذا لفٹینوں کی تربیت کا کام بھی رک گیا ہے۔ جنگ ختم ہوتے ہی جیسے ہی تربیت چالو ہوئی آپ سب کو سب سے پہلے کمیشن دیا جائے گا۔ لیکن میں نے کمشنر صاحب سےمطالبہ کیا کہ جب تک میرے بچے لفٹین نہیں بنتے تب تک وہ تمام چیزیں اور سہولتیں فوراً اور مفت مہیا کی جائیں جو ایک لفٹین کا حق ہیں:
نمبر ایک: مفت وردی، بیلٹ اور ٹوپی

نمبر دو: کم ازکم دو نئے جوڑی جوتے
نمبر تین: راشن اور کراکری
نمبر چار: خیمہ اور بستر
نمبر پانچ: ہر طرح کی مفت ٹرانپسورٹ اور سال میں کم ازکم ایک مہینے کی تنخواہ دار چھٹی
نمبر چھ: مفت بندوق اور دیگر اسلحہ گولیوں سمیت۔

’میرے بچو کمشنر صاحب نے بہت ضد کی کہ میں ان میں سے کچھ مطالبات کم کر لوں لیکن میں بھی اڑ گیا۔ چنانچہ کمشنر صاحب کو ہار ماننا پڑی اور انھوں نے یہ کہتے ہوئے تمام مطالبات منظور کر لیے کہ محمد بخشا تو نے مجھے بہت مشکل میں ڈال دیا لیکن پھر بھی میں تیرے خلوص کو دیکھتے ہوئے تمام مطالبات فوری منظور کرتا ہوں۔‘

نوجوانوں نے نمبردار محمد بخش کو کندھے پر اٹھا لیا اور بھرتی میں نام لکھوانے کے بعد محمد بخش زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے خوشی خوشی گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔

No comments: