Tuesday, September 2, 2014

FROM TAHRIR SQUARE TO AZADI SQUARE


تحریراسکوائرسے آزادی اسکوائرتک

ہماری جملہ معاشرتی بیماریوں میں سے ایک چھوت کی طرح کی بیماری یہ ہے ہم کسی بھی ٹوٹل پیکج سے صرف اپنی مرضی اور مفادکی چیز لیتے اور اسی کوبیان کرتے ہیں۔افتخار چودھری مشرف کے سامنے ڈٹ جائے تو وہ ہمارا ہیرو اور اگر عدلیہ کوشرمناک کہنے پر وہی افتخار چودھری آپ کو توہین عدالت میں بلالے تو گالیوں اور الزامات کامستحق۔سیشن کورٹ وزیراعظم کےخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے تو عدلیہ آزاداور انصاف کے تقاضے پورے،اسی فیصلے کی بنیاد پرحکمرانوں کو للکاریں توٹھیک۔اگر حکومت اس فیصلے کےخلاف اپیل کرے توہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی چھٹی اورسینئرترین جج کے اس عہدے پر آنے کو مکمل حکومتی سازش اور اپنی پسند کافیصلہ کرانے کےلیے پلاننگ قرار دے کر ہزاروں لوگوں اور ٹی وی پر دیکھنے والے لاکھوں عوام کے سامنے اعلان کردیں کہ اس پلاننگ کے بعد فیصلہ حکومت کے حق میں کردیا جائےگا۔ٹھیک دو دن بعد وہی ہائی کورٹ آپ کے اعلان اور خدشات کے برعکس پھر ایف ائی آر کاہی فیصلہ دے تو زبان گُنگ۔ پولیس اگر آپ کی دی گئی درخواست کو حرف بحرف ایف آر کاحصہ بنادے تو درست لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کو اسی ایف آرکو حصہ بنائے تو دھوکا؟ عدالت لانگ مارچ کو غیرقانونی قراردے تو حکومت کےلیے اس روکنے کاجوازاور اگر وہی عدالت ایف آئی آر کاحکم دے تو عملدرآمد روکنے کےلیے حیلے بہانے۔اسی طرح کی سیکڑوں مثالیں ہمیں اپنی روزہ مرہ زندگی سے مل سکتی ہیں۔

اسی بیماری کےسبب ہمیں تحریراسکوائر بہت اچھا لگتا ہے،جو اٹھتاہے یہی نعرہ لگاتا ہے کہ فلاں جگہ کو تحریر اسکوائربنادوں گا۔۔۔عمران خان صاحب ایک سانس میں دودومرتبہ اسی تحریر اسکوائراور حسنی مبارک کی بات کرتے ہیں ۔نوازشریف ان کی نظر میں حسنی مبارک ہیں اور پاکستان میں مصر کی سی جمہوریت ہے۔خان صاحب کو اس دھرنے اور احتجاج کےلیے قاہرہ ماڈل ہی دیاگیا ہے۔میں نے مصری انقلاب کامطالعہ کیا تو حیرت ہی حیرت نکلی۔عمران خان صاحب صرف  حسنی مبارک کا ذکرکرتے ہیں لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں بتایاکہ اس حسنی مبارک کے خلاف تحریر اسکوائر میں دھرنے کا آخری انجام یہ ہے کہ مصر میں اس وقت فوج کی ہی حکومت ہے۔میرے نزدیل تحریر اسکوائر اور مصر کا انقلاب ایک ناکام جدوجہد کانام ہے۔مصر کے انقلاب سے ایک ڈکٹیٹرسے دوسراڈکٹیٹرحکمران بنا،حسی مبارک گیا اورجنرل فتح السیسی آگیا،آئیے تحریراسکوائر میں چلی تحریک کا جائزہ لیتے ہیں۔اورپھر دیکھتے ہیں کہ خان صاحب اپنی تحریک کواس سے موازنہ کیوں کرتے ہیں۔
تحریر اسکوائرمیں جمع مظاہرین

تیونس کے صدر زین العابدین کا عوام کی جانب سے تختہ الٹے جانے کے بعد عرب سپرنگ (عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کے خاتمے کی خود ساختہ تحریک جس کے نتیجے میں لیبیاء تاراج کیاجاچکا،مصر میں خون خرابہ ہوچکا،شام میں خانہ جنگی اور صدر بشارالاسد کی مزاحمت جاری اور عراق میں شیعوں اور مسیحیوں کی نسل کشی کےلیے دولت اسلامیہ (داعش)نامی فتنہ اپنے جوبن پر)مصر کی جانب بڑھی مصری عوام نے تیونس میں اقتدارکے خاتمے کے بعد 30 سال سے حکومت کرنے والے فوجی سربراہ محمد حسنی السید مبارک کے اقتدار کے خاتمے کےلیے تحریک کا آغاز کیا۔اس تحریک کے نتیجے میں مصرکے دارلحکومت قاہرہ میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیاگیا۔اس فیصلے کےبعد 20لاکھ لوگ قاہرہ کے مرکز میں تحریر اسکوائرپر جمع ہوئے اور وہاں دھرنا دینے کا اعلان ہوگیا۔تحریر اسکوائر پر دھرنے اور مظاہرے کا آغاز 25 فروری 2011کو کیاگیا۔آغازمیں یہ دھرنا پرامن تھا ۔ اس دھرنے میں زیادہ تعداد قاہرہ کے شہریوں کی تھی ۔فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے طاقت کا استعمال شروع کیا۔تحریک اسکوائر دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے میدان میں تبدیل ہوا۔اس کے ساتھ ایک اور شہر اسکندریہ میں بھی مظاہرے شروع ہوئے ۔ تحریراسکوائر میں 18 دن گزرے تو846 لوگ جان سے جاچکے تھے،6467لوگ زخمی ہوکر اسپتالوں میں جاپہنچے۔اس تشدد کے نتیجے میں 12ہزارلوگ گرفتار کرلیے گئے۔18ویں دن ملک کے صدر حسنی مبارک نے استعفیٰ دیدیا اور 6ماہ کےلیے اقتدارپر فوج نے قبضہ کرلیا۔

تحریر اسکوائر کی تحریک کے لیے پولیس کے مظالم،ایمرجنسی لاز،الیکشن فراڈ،کرپشن،مہنگائی،بےروزگاری اور کم تنخواہوں کوجوازبنایاگیا۔ان مقاصد کےلیے ۔سول نافرمانی،مظاہرے،سوشل میڈیا کااستعمال اور ہڑتالوں کوہتھیاربنایاگیا۔اس تحریک کے نتائج کےطورپر ملک میں مارشل لاء لگ گیا،حسنی مبارک کی حکومت ختم ہوگئی،آئین معطل کردیاگیا،پارلیمنٹ تحیل کردی گئی،حسنی مبارک کے ٹرائیل کافیصلہ کیاگیا۔

تحریراسکوائرمیں دھرنا دینے والے 20لاکھ مظاہرین ہزار جانیں دینے کےبعد اقتدارپر فوج کاقبضہ کرواکرگھروں کولوٹ گئے۔فوج نے 6ماہ بعد الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں ملک میں پہلی مرتبہ سول جمہوری حکومت آئی اور اخوان المسلمون کے محمد مرسی مصر کےصدر بن گئے۔محمد مرسی نے اقتدرسنبھالا تو ساتھ ہی اپوزیشن نے وہی کام شروع کردیا جو 6ماہ پہلے تحریر اسکوائرپر ہواتھا۔تحریراسکوائر ایک بار پھر آباد ہوگیا۔مظاہرے معمول بن گئے۔محمد مرسی نے وہی کیا جو حسنی مبارک نے کیاتھا۔پھر فوج طلب کی گئی،مظاہرین کی فوج سے جھڑپیں شروع ہوئیں ان جھڑپوں میں ایک بار پھر قتل عام ہوااور3 سو لوگ جان سے چلے گئے۔محمد مرسی کی حکومت کےخلاف وہی سول نافرمانی شروع ہوگئی جو انہوں نے حسنی مبارک کےخلاف شروع کی تھی۔اس میں بھی 3705افراد زخمی ہوئے اور 13ہزارسے زائد لوگ گرفتار ہوگئے۔محمد مرسی صرف 9 ماہ بعد ہی قدموں سے اکھاڑدیے گئے۔3جولائی 2013کو ایک بار پھر ملک کامنتخب صدرمحمد مرسی کا تختہ آرمی نے الٹادیا،محمد مرسی گرفتارکرلیے گئے ان کے ساتھ اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکن بھی گرفتارکرلیے۔آرمی چیف جنرل عبدالفتح السیسی نے ملک کا آئین معطل کردیا،پارلیمنٹ پھر گھر چلی گئی،ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔السیسی نےاپنی نگرانی میں الیکشن کرائےاوراب وہی مصرکے صدرہیں۔یوں 2011 میں تحریر اسکوائر کی تحریک کےآخری نتیجے کےطورپراقتدارایک آمر حسنی مبارک سے دوسرے آمرفتح السیسی کومنتقل ہوگیا۔جمہوریت مرگئی،حقوق کےلیےجانیں قربان کرنےوالوں کے ہاتھ 
کچھ نہ آیا۔

اسلام آباد میں آزادی اسکوائرکامنظر

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے17 دن پرامن دھرنادیا اور جب 18دن پورے ہوئے توشایدانہیں تحریر اسکوائر کے18دن بعد حکومت گرنا یاد آنےلگا۔لیکن اسلام آباد کے آزادی اسکوائرمیں حالات بہت مختلف رہے یہاں حکومت نے فوج کو بالکل استعمال ہی نہیں کیا،جب بھی یہ لوگ آگے بڑھے پولیس کو پیچھے ہٹالیاگیا،لاشیں نہ گرسکیں۔18 دن بعد لاشوں کے حصول کےلیےوزیراعظم کے گھرپر دھاوابولنے کااعلان ہوا،اسپیکر سے آگے بڑھو،قبضہ کروکےاعلانات۔ریڈ لائن عبورکرنے پرپولیس نے آنسو گیس کااستعمال کیا،مظاہرین پیچھے ہٹ کر وہیں آگئے یہاں سے چلے تھے۔تحریر اسکوائر میں 20 لاکھ لوگ بیٹھے تھے یہاں بھی ہدف اتناہی تھا لیکن 20لاکھ کے بجائے 20 ہزارہی جمع کیے جاسکےاس لیے بھی نتیجہ ابھی تک نہیں نکل سکا۔

اگر مصری ماڈل ہی خان صاحب کےپیش نظر ہے، لوازمات بھی ویسے ہی ہیں،مقاصد بھی وہی رکھے گئے ہیں اورطریقہ کار بھی ویساہی اپنایاگیا تو کیا خان صاحب کو اس کا نتیجہ معلوم نہیں ہے؟کیاعمران خان صاحب پاکستان کے حسنی مبارک نوازشریف کو اقتدار سے ہٹاکر یہاں کسی جنرل السیسی کو لانے کاسبب بنناچاہتے ہیں؟اگریہاں بھی نتیجہ تحریراسکوائروالا ہی نکلا تو کیا پھر یہاں کبھی  جمہوریت واپس آسکے گی؟اور تحریک انصاف جیسی پاکستانیوں کی امنگوں کی ترجمان جماعت اور عمران خان جیسا لیڈرصرف استعمال شدہ ٹشوکےطورپر یادرکھاجائےگا؟


No comments: