Thursday, September 11, 2014

NARATIVE OF HATE AND JINNAH'S PAKISTAN


اللہ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان

جنگ اچھائی اور برائی میں ہوتی تومیرے جیسا برے سے برے حالات میں بھی پرامید رہنے والایہ گمان رکھنے میں حق بجانب تھا کہ کبھی نہ کبھی اچھائی کی جیت ہوہی جائے گی۔جنگ اگرنیکی اور بدی میں ہوتی تو نیکی کے غالب آنے کی توقع بدرجہ اتم موجود تھی۔جنگ اگر امن اور بد امنی میں ہوتی تو امن کی جیت کی توقع کی جاسکتی تھی ۔جنگ اگرمحبت اور نفرت میں ہوتی تو محبت کے میدان مارنے کے امکانات ہرحال میں روشن دیکھے جاسکتے تھے لیکن کیا کریں یہاں تو جنگ ہی نفرتوں کے درمیان ہے۔اچھے سے اچھا نتیجہ بھی نکلے گا تو نتیجہ نفرت ہی ہوگا یا کم یا زیادہ نفرت ہوسکتی ہے ۔نفرت تو بحرحال نفرت ہی ہے اچھی تو ہونہیں سکتی۔یہاں صرف نفرتوں کے بیج بوئے اور نفرتوں کا پھل کاٹ کر اسے جیت کانام دے لیاجاتاہے،مختلف تاولیں کرکے خود کو اور اس نفرت کی جنگ میں ساتھ دینے والوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر وہی جنگ دوسرا جیت لے تواس سے بڑا معرکہ بپا کرنے کی تدبیریں
کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم ہے،یہ ملک اسلام کے نام پر بناہے،اسلام کے لیے بنا ہے اسلام کا قلعہ ہے یہ ۔ایسے نعرے صبح شام گونجتے ہیں۔قائد اعظم اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ہاں قائد اعظم اس ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہوں گے اسی لیے ان کو ایسے مرنے دیاگیا کہ ان کی ایمبولیس پٹرول نہ ہونے پر بروقت اسپتال ہی نہ پہنچ سکی۔اور یہاں انہوں نے آخری دنوں میں قیام کیا اس کو ایسے جلایاگیا کہ اس راکھ میں نفرتوں کے الاو جلتے دیکھے جاسکتے تھے۔جس قائد نے یہ معاشرہ بنانے کا جرم کیا اس کی ایک ایک نشانی کو مٹانے کےلیے پوری رات محنت کی گئی،اور تواور ان مناظر کو پوری طرح فلمایا اور ریلیز کیاگیا کہ سب لوگ دیکھ لیں اسلامی معاشرے کاخواب ایسے شرمندہ تعبیر کیاجاتاہے۔

اسلام کی تونہیں کہ آفاقی دین ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ بھی،  لیکن مسلمانوں کی تاریخ تو ایسی ہی ہے،نفرتوں سے بھرپور،محلاتی سازشوں سے اٹی ہوئی،قدم قدم پر دھوکہ دہی اور نفرتوں کی عمارتیں بنی پڑی ہیں۔سلطنت بنو امیہ کاذکر ہو یا برصغیر کے مغلوں کی بادشاہت،شہنشاہوں کے سرشہنشاہوں اور شہزادے شہزادوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔عدم برداشت اور سب کچھ بڑھ کر چھین لینے کی روش نے ہمیں کہیں کانہیں چھوڑا۔ہماری پستی کایہ عروج کہ جب بھی کسی اچھائی کی مثال دیناہوتوچودہ سو سال کی تاریخ چھوٹی پرجاتی ہے اور مغربی معاشرے ہمارے لیے مشعل راہ بنے نظر آتے ہیں۔

عدم برداشت نے اس ملک پاکستان کی بنیادیں اس قدرہلاکررکھ دی ہیں کہ ہمیں دوسرے مسلک اور نظریات سے اختلاف کرنے والا شخص زہر لگتاہے۔ہم عجب مخلوق بن گئے ہیں کہ جو چیز اللہ نے بات کرنے کےلیے عطا کی ہے اس کا استعمال کرنے کے ہی روادار نہیں ہوتے ہم زبان کے بجائے ہاتھ سے بات کرنے میں یدطولیٰ حاصل کرچکے اور ہاتھ سے بھی آگے بندوق کادھانا بولتاہے۔کوئی اس بات کا عزم لے کر سوتاہے کہ کل جو شیعہ ملے گااس کو قتل کرکے صحابہ کرام کے دفاع کا حق اداکردوں گا اور کوئی اس تاک میں رہتا ہےکہ معاذاللہ حضرت علی کو پہلا خلیفہ نہ قبول کرنے والے کو زندہ چھوڑدیا تویوم محشر کہیں کافروں سے نہ اٹھایاجاوں۔کل شمس الرحمان معاویہ قتل ہوتاہے تو آج ناصر عباس پر زندگی تنگ ہونا ضروری ہے۔صبح مولانا علی اکبر کمیلی کاجنازہ اٹھتا ہے تو شام کو مولانا مسعود کی زندگی کا چراغ گل کرنا فرض بن جاتاہے۔کیا یہ سب کچھ عدم برداشت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟

کیا یہ بھی عدم برداشت ہی نہیں کہ عمران خان صاحب  ایک کنٹینر چڑھ کر ہر روز سچ جھوٹ بولتے رہے کہ انہیں کسی اور کے ہاتھ میں طاقت گواراہی نہیں؟

دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب ایک کنٹینر میں بند رہے۔جس کنٹینر میں چار چار ٹی وی نصب تھے کہ تمام چینلز کی مانیٹرنگ بھی کرنی ہے، یہ بھی جاننا ہے کہ کون کون کیا کہہ رہا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ڈاکٹرصاحب عالی شان کنٹینر میں بیٹھے ہیں تو اس کو جواب یہ دیناہے کہ کون کہتاہے کہ یہ عالی شان ہے۔یہ تو ایک درویش کی کٹیاہے۔ڈاکٹر صاحب جن درویشوں کے قصے آپ نے ہمیں سنائے ہیں ان درویشوں کو تو شہروں سے وحشت تھی وہ انسانوں سے دور بھاگتے اور جنگلوں میں خوش رہتے تھے آپ کیسے درویش ہیں کہ ایک کے بجائے دوملکوں کی شہریت کی ضرورت پڑگئی؟

جس قائد کو اس  کی قوم نے مطلب نکل جانے پر چلتا کیا وہ کیساپاکستان چاہتے
تھے کہ جب آپ زیارت ریزیڈنسی میں قیام پذیر تھے توصحت اتنی خراب ہوئی کہ آپ نے کھانا پینا انتہائی کم کردیا،ڈاکٹر نے محترمہ فاطمہ جناح کومشورہ دیا کہ قائد کوکھانے کی طرف راغب کرنے کےلیے ان کا پسندیدہ کھانا بنایاجائے،محترمہ فاطمہ جناح نے بتایاکہ بمبئی میں ایک باورچی تھا جس کے ہاتھ کاکھانا قائد بہت شوق سے کھاتے تھے وہ باورچی اب لائلپور(موجودہ فیصل آباد) میں ہے۔وہ اگر آجائے تو مسئلہ حل ہوسکتاہے۔انتظامیہ کو حکم ہوا اوپر سے نیچے تک مشینری حرکت میں آئی اور باورچی زیارت پہنچادیاگیا،باورچی نے کھاناپکایا جوقائد کو پسند آیا پوچھاکس نے پکایامحترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا آپ کے بمبئی والے خانساماں نے،پوچھا وہ یہاں کیسے پہنچا؟توانہیں سارا قصہ سنایاگیا۔یہ سب سن کر قائد سخت ناراض ہوئےاورفرمایاکہ میری ذات کےلیے سرکاری ذرائع اور مشینری کیوں استعمال کی گئی،اس باورچی کا یہاں آنے تک کا سارا خرچہ ان کی جیب سے اداکیاجائے اور ان کی ناراضی ان تک پہنچا دی جائے جنہوں نے سرکاری خرچ سے یہ کام کیا۔

آخری ایام میں آپ کی تیمارداری کےلیے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ایک نرس کو متعین کردیاگیا۔ایک دن نرس نے آپ کابخار چیک کیا تو قائد نے نرس سے پوچھا کہ کتنا بخار ہے ۔نرس نے کہا کہ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر وہ نہیں بتاسکتی۔قائد اعظم دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ اس نرس نے گورنرجنرل پاکستان کے سامنے میں بھی قانون کی پیروی کی ہے۔

11ستمبر کو جب ماری پور کے ہوائی اڈے سے آپ کو فوجی ایمبولینس کے ذریعے گورنرجنرل ہاوس لایاجارہاتھا تو صرف چار پانچ کلومیٹر بعد ایمبولیس بند ہوگئی اور فاطمہ جناح کو بتایاگیا کہ پٹرول ختم ہوگیا ہے دوسری ایمبولیس آئے گی توپہنچاجاسکے گا۔دوسری ایمبولینس ڈیڑھ گھنٹے بعد آئی اور قائد کو ان کی رہائشگاہ پہنچایاگیا۔جب آپ وہاں پہنچے توساتھ آئے ڈاکٹر آرام کرنے ہوٹل چلے گئے۔9بجے شب محترمہ فاطمہ جناح نے ڈاکٹروں کو فون پر اطلاع دی کمزوری بہت ہوگئی ہے بے قراری میں اضافہ ہوگیا آپ فوری چلے آئیں۔قائد اعظم کے یہ آخری لمحات تھے ڈاکٹر آگئے کئی ٹیکے لگائے گئے لیکن آپ جانبر نہ ہوئے۔چند منٹ بعد دل ڈوبنے لگااورسانس رکنے لگی بے ہوشی کے عالم میں آپ کےمنہ سے نکلا۔۔

اللہ۔۔۔۔۔پاکستان

No comments: