Tuesday, September 30, 2014

POLIO AND PAKISTAN


پولیوزدہ نیاپاکستان

دس ماہ میں 235 بچے پولیو کا شکار ہوگئےتو کون سی قیامت آگئی۔۔اس سال پاکستان نےپولیو میں اپنا ہی ریکارڈ توڑدیا ہے تو کون سی شرم کی بات ہے،عالمی دنیا نے اپنے ممالک کا سفر کرنےپرپابندیاں لگادیں تو کون سی فکر کی بات ہےہمارے تومجموعی رویے ہی پولیو زدہ ہیں

Wednesday, September 17, 2014

A RUDE AWAKENING.....FLOOD COMMISSION REPORT 2010


چڑیاکےشکارکےلیےتوپ کااستعمال


جسٹس منصورعلی شاہ کی رپورٹ کے ٹائٹل کاعکس

  اکتیس جولائی 2010دن ڈھائی بجے جب پاکستان کی اکثر آبادیاں سیلاب میں ڈوب رہی تھیں،دریائے سندھ اوقات سے باہر کسی کے قابو میں آنے کےلیے تیار نہیں تھا،حکومت اس سیلاب کے آنے اور نقصانات سے بچنے کی پوری تیاری نہ کرکے شرمندگی کے سیلاب میں بہی جارہی تھی کہ میانوالی میں دریائے سندھ پربنے جناح بیراج کےقریب شگاف پڑگیا،معاملہ حکومتی کنٹرول سے باہرنکل گیا توضلعی انتظامیہ میں سے کمشنر میانوالی محمد افضل اورڈی پی او راناعبدالجبار نے اس شگاف کے قریب واقع میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجرسے مدد کی درخواست کی اور کہاکہ آپ کچھ مشینری ہمیں دے دیں تاکہ اس شگاف کو پر کیاجاسکے۔سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجرمحمد اکرم نے فیکٹری مالک محمد سعید سہگل سے اجازت طلب کی فیکٹری مالک سعید سہگل نے اپنے جنرل مینیجر کو اجازت دیتے ہوئے فوری انتظامیہ کی مددکرنے کوکہا،مالک سے اجازت ملنے کےبعد جنرل مینیجر نے20ڈمپراور مل کے تین ملازم روانہ کردیےاس وقت دن کے ڈھائی بجے تھے۔یونہی وہ لوگ مشینری لےکر نکلے تو جناح بیراج سے کافی دور ان کو روک دیاگیا،انہیں بتایاگیا کہ اس وقت وزیراعلیٰ جناح بیراج کا دورہ کررہے ہیں اس لیے کوئی بھی ان کے وہاں سے جانے تک جناح بیراج پر نہیں جاسکتا۔یہ ٹیم جو ایمرجنسی میں شگاف پر کرنے کےلیے بلائی گئی تھی وہیں پھنس کررہ گئی اور پانی آبادیوں کو ڈبوتاہواآگے بڑھتا رہا۔ڈھائی گھنٹے بعد وزیراعلیٰ جناح بیراج سے واپس گئے تو اس ٹیم کو آگے جانے کی اجازت ملی ۔یہ ٹیم جب شگاف کے مکان پر پہنچی تو دن کے ساڑھےچار بج چکے تھےاور بہت دیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔
یہ بیان میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجر محمد اکرم نے2010کےسیلاب کی تحقیقات کےلیےبنائے گئے لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے سامنے دیا۔اس کمیشن کی سربراہی جسٹس منصور علی شاہ نے کی انہوں نے چار سوصفحات پر مشتمل رپورٹ لکھی جس کا عنوان انہوں نے رووڈ اویکننگ رکھا جو جسے پاکستان میں سیلاب اور محکمہ آبپاشی کی کوتاہیوں کی نشاندہی کے لیے مشعل راہ اور تاریخی دستاویز قراردیاجاسکتاہے۔۔


فیکٹری کے جنرل مینیجر کے بیان کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ قدرتی آفات کے بعد متاثرین کی بحالی کے لیے حکومتی کاوشوں کو بجا طور پر مثبت قراردیاجسکتاہے لیکن ایمرجنسی کے دوران وزرائے اعلیٰ سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کے دورے کسی صورت فائدہ مند نہیں ہوتے۔انہوں نے کہاکہ یہ اس سسٹم کی ناکامی اور نظام کے منہ پر بدنما داغ ہے کہ جس نظام کو خود بخود کام کرنا چاہیئے اس سے کام لینے کےلیے دھکا لگانا پڑتاہے اور جو کام مقامی سطح پر ایک چیف انجیئر یاایکسئین کو کرنا چاہیئے وہ کام ایک وزیراعلیٰ کو کرنا پڑتا ہے یا اس کی رفتارتیز کرنے کےلیے ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو آنا 
پڑتا ہے ۔جس سے ایک تو بھاری رقم خرچ ہوتی ہے اور دوسرا تمام بیوروکریسی اور اس علاقے کی حکومتی مشینری اس دورے کی دیکھ بھال میں لگ جاتی ہے یوں بہت سی ضروری چیزیں اور فوری توجہ کے طالب مسائل  حل نہیں ہوپاتے۔


اس طویل رپورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے اور بھی بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی انہوں نے محکمہ آبپاشی پنجاب کے اس وقت کے سیکرٹیری رب نواز کو اس ساری تباہی کا مرکزی ملزم قراردے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کی سفارش کی لیکن پنجاب حکومت نے انہیں صرف تبدیل کرکے ایک وفاقی محکمے کا سیکریٹری لگادیا ۔چونکہ رب نواز کا تعلق بیوروکریسی میں ڈی ایم جی جیسے طاقتور گروپ سے تھا اس لیے پنجاب کی حکومت اس کے خلاف کارروائی کی جرات ہی نہ کرپائی۔

کمیشن نے واضح کہاکہ دریاؤں کے قریبی علاقوں میں تعمیرات نہ ہونے دی جائیں اور وہاں آبادیاں قائم نہ کرنے دی جائیں کہ یہ لوگ وقت آنے پر حق ملکیت ظاہر کرکے اٹھنے سے ہی انکار کردیتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔لیکن حکومت یہ بھی نہ کرپائی۔

حکمرانوں سمیت ہم پوری قوم کا وطیرہ ہی ڈھنگ ٹپاؤ ہے ۔جب آفت سر پر پڑتی ہے تو ایک سرے سے دوسرے تک بھاگے پھرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس آفت کا پیشگی اندازہ لگانے اور تیاری کی زحمت نہیں کرتے۔اس نظام کو مضبوط نہیں کرتے۔ملک میں ترقی ریاست کی مضبوطی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے اس نظام کو اس قدر فعال بنانے کی ضرورت ہے کہ چڑیا کے شکار کےلیے غلیل کےبجائے توپ کے استعمال سے بچاجائے۔

Thursday, September 11, 2014

NARATIVE OF HATE AND JINNAH'S PAKISTAN


اللہ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان

جنگ اچھائی اور برائی میں ہوتی تومیرے جیسا برے سے برے حالات میں بھی پرامید رہنے والایہ گمان رکھنے میں حق بجانب تھا کہ کبھی نہ کبھی اچھائی کی جیت ہوہی جائے گی۔جنگ اگرنیکی اور بدی میں ہوتی تو نیکی کے غالب آنے کی توقع بدرجہ اتم موجود تھی۔جنگ اگر امن اور بد امنی میں ہوتی تو امن کی جیت کی توقع کی جاسکتی تھی ۔جنگ اگرمحبت اور نفرت میں ہوتی تو محبت کے میدان مارنے کے امکانات ہرحال میں روشن دیکھے جاسکتے تھے لیکن کیا کریں یہاں تو جنگ ہی نفرتوں کے درمیان ہے۔اچھے سے اچھا نتیجہ بھی نکلے گا تو نتیجہ نفرت ہی ہوگا یا کم یا زیادہ نفرت ہوسکتی ہے ۔نفرت تو بحرحال نفرت ہی ہے اچھی تو ہونہیں سکتی۔یہاں صرف نفرتوں کے بیج بوئے اور نفرتوں کا پھل کاٹ کر اسے جیت کانام دے لیاجاتاہے،مختلف تاولیں کرکے خود کو اور اس نفرت کی جنگ میں ساتھ دینے والوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر وہی جنگ دوسرا جیت لے تواس سے بڑا معرکہ بپا کرنے کی تدبیریں
کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم ہے،یہ ملک اسلام کے نام پر بناہے،اسلام کے لیے بنا ہے اسلام کا قلعہ ہے یہ ۔ایسے نعرے صبح شام گونجتے ہیں۔قائد اعظم اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ہاں قائد اعظم اس ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہوں گے اسی لیے ان کو ایسے مرنے دیاگیا کہ ان کی ایمبولیس پٹرول نہ ہونے پر بروقت اسپتال ہی نہ پہنچ سکی۔اور یہاں انہوں نے آخری دنوں میں قیام کیا اس کو ایسے جلایاگیا کہ اس راکھ میں نفرتوں کے الاو جلتے دیکھے جاسکتے تھے۔جس قائد نے یہ معاشرہ بنانے کا جرم کیا اس کی ایک ایک نشانی کو مٹانے کےلیے پوری رات محنت کی گئی،اور تواور ان مناظر کو پوری طرح فلمایا اور ریلیز کیاگیا کہ سب لوگ دیکھ لیں اسلامی معاشرے کاخواب ایسے شرمندہ تعبیر کیاجاتاہے۔

اسلام کی تونہیں کہ آفاقی دین ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ بھی،  لیکن مسلمانوں کی تاریخ تو ایسی ہی ہے،نفرتوں سے بھرپور،محلاتی سازشوں سے اٹی ہوئی،قدم قدم پر دھوکہ دہی اور نفرتوں کی عمارتیں بنی پڑی ہیں۔سلطنت بنو امیہ کاذکر ہو یا برصغیر کے مغلوں کی بادشاہت،شہنشاہوں کے سرشہنشاہوں اور شہزادے شہزادوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔عدم برداشت اور سب کچھ بڑھ کر چھین لینے کی روش نے ہمیں کہیں کانہیں چھوڑا۔ہماری پستی کایہ عروج کہ جب بھی کسی اچھائی کی مثال دیناہوتوچودہ سو سال کی تاریخ چھوٹی پرجاتی ہے اور مغربی معاشرے ہمارے لیے مشعل راہ بنے نظر آتے ہیں۔

عدم برداشت نے اس ملک پاکستان کی بنیادیں اس قدرہلاکررکھ دی ہیں کہ ہمیں دوسرے مسلک اور نظریات سے اختلاف کرنے والا شخص زہر لگتاہے۔ہم عجب مخلوق بن گئے ہیں کہ جو چیز اللہ نے بات کرنے کےلیے عطا کی ہے اس کا استعمال کرنے کے ہی روادار نہیں ہوتے ہم زبان کے بجائے ہاتھ سے بات کرنے میں یدطولیٰ حاصل کرچکے اور ہاتھ سے بھی آگے بندوق کادھانا بولتاہے۔کوئی اس بات کا عزم لے کر سوتاہے کہ کل جو شیعہ ملے گااس کو قتل کرکے صحابہ کرام کے دفاع کا حق اداکردوں گا اور کوئی اس تاک میں رہتا ہےکہ معاذاللہ حضرت علی کو پہلا خلیفہ نہ قبول کرنے والے کو زندہ چھوڑدیا تویوم محشر کہیں کافروں سے نہ اٹھایاجاوں۔کل شمس الرحمان معاویہ قتل ہوتاہے تو آج ناصر عباس پر زندگی تنگ ہونا ضروری ہے۔صبح مولانا علی اکبر کمیلی کاجنازہ اٹھتا ہے تو شام کو مولانا مسعود کی زندگی کا چراغ گل کرنا فرض بن جاتاہے۔کیا یہ سب کچھ عدم برداشت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟

کیا یہ بھی عدم برداشت ہی نہیں کہ عمران خان صاحب  ایک کنٹینر چڑھ کر ہر روز سچ جھوٹ بولتے رہے کہ انہیں کسی اور کے ہاتھ میں طاقت گواراہی نہیں؟

دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب ایک کنٹینر میں بند رہے۔جس کنٹینر میں چار چار ٹی وی نصب تھے کہ تمام چینلز کی مانیٹرنگ بھی کرنی ہے، یہ بھی جاننا ہے کہ کون کون کیا کہہ رہا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ڈاکٹرصاحب عالی شان کنٹینر میں بیٹھے ہیں تو اس کو جواب یہ دیناہے کہ کون کہتاہے کہ یہ عالی شان ہے۔یہ تو ایک درویش کی کٹیاہے۔ڈاکٹر صاحب جن درویشوں کے قصے آپ نے ہمیں سنائے ہیں ان درویشوں کو تو شہروں سے وحشت تھی وہ انسانوں سے دور بھاگتے اور جنگلوں میں خوش رہتے تھے آپ کیسے درویش ہیں کہ ایک کے بجائے دوملکوں کی شہریت کی ضرورت پڑگئی؟

جس قائد کو اس  کی قوم نے مطلب نکل جانے پر چلتا کیا وہ کیساپاکستان چاہتے
تھے کہ جب آپ زیارت ریزیڈنسی میں قیام پذیر تھے توصحت اتنی خراب ہوئی کہ آپ نے کھانا پینا انتہائی کم کردیا،ڈاکٹر نے محترمہ فاطمہ جناح کومشورہ دیا کہ قائد کوکھانے کی طرف راغب کرنے کےلیے ان کا پسندیدہ کھانا بنایاجائے،محترمہ فاطمہ جناح نے بتایاکہ بمبئی میں ایک باورچی تھا جس کے ہاتھ کاکھانا قائد بہت شوق سے کھاتے تھے وہ باورچی اب لائلپور(موجودہ فیصل آباد) میں ہے۔وہ اگر آجائے تو مسئلہ حل ہوسکتاہے۔انتظامیہ کو حکم ہوا اوپر سے نیچے تک مشینری حرکت میں آئی اور باورچی زیارت پہنچادیاگیا،باورچی نے کھاناپکایا جوقائد کو پسند آیا پوچھاکس نے پکایامحترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا آپ کے بمبئی والے خانساماں نے،پوچھا وہ یہاں کیسے پہنچا؟توانہیں سارا قصہ سنایاگیا۔یہ سب سن کر قائد سخت ناراض ہوئےاورفرمایاکہ میری ذات کےلیے سرکاری ذرائع اور مشینری کیوں استعمال کی گئی،اس باورچی کا یہاں آنے تک کا سارا خرچہ ان کی جیب سے اداکیاجائے اور ان کی ناراضی ان تک پہنچا دی جائے جنہوں نے سرکاری خرچ سے یہ کام کیا۔

آخری ایام میں آپ کی تیمارداری کےلیے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ایک نرس کو متعین کردیاگیا۔ایک دن نرس نے آپ کابخار چیک کیا تو قائد نے نرس سے پوچھا کہ کتنا بخار ہے ۔نرس نے کہا کہ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر وہ نہیں بتاسکتی۔قائد اعظم دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ اس نرس نے گورنرجنرل پاکستان کے سامنے میں بھی قانون کی پیروی کی ہے۔

11ستمبر کو جب ماری پور کے ہوائی اڈے سے آپ کو فوجی ایمبولینس کے ذریعے گورنرجنرل ہاوس لایاجارہاتھا تو صرف چار پانچ کلومیٹر بعد ایمبولیس بند ہوگئی اور فاطمہ جناح کو بتایاگیا کہ پٹرول ختم ہوگیا ہے دوسری ایمبولیس آئے گی توپہنچاجاسکے گا۔دوسری ایمبولینس ڈیڑھ گھنٹے بعد آئی اور قائد کو ان کی رہائشگاہ پہنچایاگیا۔جب آپ وہاں پہنچے توساتھ آئے ڈاکٹر آرام کرنے ہوٹل چلے گئے۔9بجے شب محترمہ فاطمہ جناح نے ڈاکٹروں کو فون پر اطلاع دی کمزوری بہت ہوگئی ہے بے قراری میں اضافہ ہوگیا آپ فوری چلے آئیں۔قائد اعظم کے یہ آخری لمحات تھے ڈاکٹر آگئے کئی ٹیکے لگائے گئے لیکن آپ جانبر نہ ہوئے۔چند منٹ بعد دل ڈوبنے لگااورسانس رکنے لگی بے ہوشی کے عالم میں آپ کےمنہ سے نکلا۔۔

اللہ۔۔۔۔۔پاکستان

Tuesday, September 2, 2014

FROM TAHRIR SQUARE TO AZADI SQUARE


تحریراسکوائرسے آزادی اسکوائرتک

ہماری جملہ معاشرتی بیماریوں میں سے ایک چھوت کی طرح کی بیماری یہ ہے ہم کسی بھی ٹوٹل پیکج سے صرف اپنی مرضی اور مفادکی چیز لیتے اور اسی کوبیان کرتے ہیں۔افتخار چودھری مشرف کے سامنے ڈٹ جائے تو وہ ہمارا ہیرو اور اگر عدلیہ کوشرمناک کہنے پر وہی افتخار چودھری آپ کو توہین عدالت میں بلالے تو گالیوں اور الزامات کامستحق۔سیشن کورٹ وزیراعظم کےخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے تو عدلیہ آزاداور انصاف کے تقاضے پورے،اسی فیصلے کی بنیاد پرحکمرانوں کو للکاریں توٹھیک۔اگر حکومت اس فیصلے کےخلاف اپیل کرے توہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی چھٹی اورسینئرترین جج کے اس عہدے پر آنے کو مکمل حکومتی سازش اور اپنی پسند کافیصلہ کرانے کےلیے پلاننگ قرار دے کر ہزاروں لوگوں اور ٹی وی پر دیکھنے والے لاکھوں عوام کے سامنے اعلان کردیں کہ اس پلاننگ کے بعد فیصلہ حکومت کے حق میں کردیا جائےگا۔ٹھیک دو دن بعد وہی ہائی کورٹ آپ کے اعلان اور خدشات کے برعکس پھر ایف ائی آر کاہی فیصلہ دے تو زبان گُنگ۔ پولیس اگر آپ کی دی گئی درخواست کو حرف بحرف ایف آر کاحصہ بنادے تو درست لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کو اسی ایف آرکو حصہ بنائے تو دھوکا؟ عدالت لانگ مارچ کو غیرقانونی قراردے تو حکومت کےلیے اس روکنے کاجوازاور اگر وہی عدالت ایف آئی آر کاحکم دے تو عملدرآمد روکنے کےلیے حیلے بہانے۔اسی طرح کی سیکڑوں مثالیں ہمیں اپنی روزہ مرہ زندگی سے مل سکتی ہیں۔

اسی بیماری کےسبب ہمیں تحریراسکوائر بہت اچھا لگتا ہے،جو اٹھتاہے یہی نعرہ لگاتا ہے کہ فلاں جگہ کو تحریر اسکوائربنادوں گا۔۔۔عمران خان صاحب ایک سانس میں دودومرتبہ اسی تحریر اسکوائراور حسنی مبارک کی بات کرتے ہیں ۔نوازشریف ان کی نظر میں حسنی مبارک ہیں اور پاکستان میں مصر کی سی جمہوریت ہے۔خان صاحب کو اس دھرنے اور احتجاج کےلیے قاہرہ ماڈل ہی دیاگیا ہے۔میں نے مصری انقلاب کامطالعہ کیا تو حیرت ہی حیرت نکلی۔عمران خان صاحب صرف  حسنی مبارک کا ذکرکرتے ہیں لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں بتایاکہ اس حسنی مبارک کے خلاف تحریر اسکوائر میں دھرنے کا آخری انجام یہ ہے کہ مصر میں اس وقت فوج کی ہی حکومت ہے۔میرے نزدیل تحریر اسکوائر اور مصر کا انقلاب ایک ناکام جدوجہد کانام ہے۔مصر کے انقلاب سے ایک ڈکٹیٹرسے دوسراڈکٹیٹرحکمران بنا،حسی مبارک گیا اورجنرل فتح السیسی آگیا،آئیے تحریراسکوائر میں چلی تحریک کا جائزہ لیتے ہیں۔اورپھر دیکھتے ہیں کہ خان صاحب اپنی تحریک کواس سے موازنہ کیوں کرتے ہیں۔
تحریر اسکوائرمیں جمع مظاہرین

تیونس کے صدر زین العابدین کا عوام کی جانب سے تختہ الٹے جانے کے بعد عرب سپرنگ (عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کے خاتمے کی خود ساختہ تحریک جس کے نتیجے میں لیبیاء تاراج کیاجاچکا،مصر میں خون خرابہ ہوچکا،شام میں خانہ جنگی اور صدر بشارالاسد کی مزاحمت جاری اور عراق میں شیعوں اور مسیحیوں کی نسل کشی کےلیے دولت اسلامیہ (داعش)نامی فتنہ اپنے جوبن پر)مصر کی جانب بڑھی مصری عوام نے تیونس میں اقتدارکے خاتمے کے بعد 30 سال سے حکومت کرنے والے فوجی سربراہ محمد حسنی السید مبارک کے اقتدار کے خاتمے کےلیے تحریک کا آغاز کیا۔اس تحریک کے نتیجے میں مصرکے دارلحکومت قاہرہ میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیاگیا۔اس فیصلے کےبعد 20لاکھ لوگ قاہرہ کے مرکز میں تحریر اسکوائرپر جمع ہوئے اور وہاں دھرنا دینے کا اعلان ہوگیا۔تحریر اسکوائر پر دھرنے اور مظاہرے کا آغاز 25 فروری 2011کو کیاگیا۔آغازمیں یہ دھرنا پرامن تھا ۔ اس دھرنے میں زیادہ تعداد قاہرہ کے شہریوں کی تھی ۔فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے طاقت کا استعمال شروع کیا۔تحریک اسکوائر دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے میدان میں تبدیل ہوا۔اس کے ساتھ ایک اور شہر اسکندریہ میں بھی مظاہرے شروع ہوئے ۔ تحریراسکوائر میں 18 دن گزرے تو846 لوگ جان سے جاچکے تھے،6467لوگ زخمی ہوکر اسپتالوں میں جاپہنچے۔اس تشدد کے نتیجے میں 12ہزارلوگ گرفتار کرلیے گئے۔18ویں دن ملک کے صدر حسنی مبارک نے استعفیٰ دیدیا اور 6ماہ کےلیے اقتدارپر فوج نے قبضہ کرلیا۔

تحریر اسکوائر کی تحریک کے لیے پولیس کے مظالم،ایمرجنسی لاز،الیکشن فراڈ،کرپشن،مہنگائی،بےروزگاری اور کم تنخواہوں کوجوازبنایاگیا۔ان مقاصد کےلیے ۔سول نافرمانی،مظاہرے،سوشل میڈیا کااستعمال اور ہڑتالوں کوہتھیاربنایاگیا۔اس تحریک کے نتائج کےطورپر ملک میں مارشل لاء لگ گیا،حسنی مبارک کی حکومت ختم ہوگئی،آئین معطل کردیاگیا،پارلیمنٹ تحیل کردی گئی،حسنی مبارک کے ٹرائیل کافیصلہ کیاگیا۔

تحریراسکوائرمیں دھرنا دینے والے 20لاکھ مظاہرین ہزار جانیں دینے کےبعد اقتدارپر فوج کاقبضہ کرواکرگھروں کولوٹ گئے۔فوج نے 6ماہ بعد الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں ملک میں پہلی مرتبہ سول جمہوری حکومت آئی اور اخوان المسلمون کے محمد مرسی مصر کےصدر بن گئے۔محمد مرسی نے اقتدرسنبھالا تو ساتھ ہی اپوزیشن نے وہی کام شروع کردیا جو 6ماہ پہلے تحریر اسکوائرپر ہواتھا۔تحریراسکوائر ایک بار پھر آباد ہوگیا۔مظاہرے معمول بن گئے۔محمد مرسی نے وہی کیا جو حسنی مبارک نے کیاتھا۔پھر فوج طلب کی گئی،مظاہرین کی فوج سے جھڑپیں شروع ہوئیں ان جھڑپوں میں ایک بار پھر قتل عام ہوااور3 سو لوگ جان سے چلے گئے۔محمد مرسی کی حکومت کےخلاف وہی سول نافرمانی شروع ہوگئی جو انہوں نے حسنی مبارک کےخلاف شروع کی تھی۔اس میں بھی 3705افراد زخمی ہوئے اور 13ہزارسے زائد لوگ گرفتار ہوگئے۔محمد مرسی صرف 9 ماہ بعد ہی قدموں سے اکھاڑدیے گئے۔3جولائی 2013کو ایک بار پھر ملک کامنتخب صدرمحمد مرسی کا تختہ آرمی نے الٹادیا،محمد مرسی گرفتارکرلیے گئے ان کے ساتھ اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکن بھی گرفتارکرلیے۔آرمی چیف جنرل عبدالفتح السیسی نے ملک کا آئین معطل کردیا،پارلیمنٹ پھر گھر چلی گئی،ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔السیسی نےاپنی نگرانی میں الیکشن کرائےاوراب وہی مصرکے صدرہیں۔یوں 2011 میں تحریر اسکوائر کی تحریک کےآخری نتیجے کےطورپراقتدارایک آمر حسنی مبارک سے دوسرے آمرفتح السیسی کومنتقل ہوگیا۔جمہوریت مرگئی،حقوق کےلیےجانیں قربان کرنےوالوں کے ہاتھ 
کچھ نہ آیا۔

اسلام آباد میں آزادی اسکوائرکامنظر

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے17 دن پرامن دھرنادیا اور جب 18دن پورے ہوئے توشایدانہیں تحریر اسکوائر کے18دن بعد حکومت گرنا یاد آنےلگا۔لیکن اسلام آباد کے آزادی اسکوائرمیں حالات بہت مختلف رہے یہاں حکومت نے فوج کو بالکل استعمال ہی نہیں کیا،جب بھی یہ لوگ آگے بڑھے پولیس کو پیچھے ہٹالیاگیا،لاشیں نہ گرسکیں۔18 دن بعد لاشوں کے حصول کےلیےوزیراعظم کے گھرپر دھاوابولنے کااعلان ہوا،اسپیکر سے آگے بڑھو،قبضہ کروکےاعلانات۔ریڈ لائن عبورکرنے پرپولیس نے آنسو گیس کااستعمال کیا،مظاہرین پیچھے ہٹ کر وہیں آگئے یہاں سے چلے تھے۔تحریر اسکوائر میں 20 لاکھ لوگ بیٹھے تھے یہاں بھی ہدف اتناہی تھا لیکن 20لاکھ کے بجائے 20 ہزارہی جمع کیے جاسکےاس لیے بھی نتیجہ ابھی تک نہیں نکل سکا۔

اگر مصری ماڈل ہی خان صاحب کےپیش نظر ہے، لوازمات بھی ویسے ہی ہیں،مقاصد بھی وہی رکھے گئے ہیں اورطریقہ کار بھی ویساہی اپنایاگیا تو کیا خان صاحب کو اس کا نتیجہ معلوم نہیں ہے؟کیاعمران خان صاحب پاکستان کے حسنی مبارک نوازشریف کو اقتدار سے ہٹاکر یہاں کسی جنرل السیسی کو لانے کاسبب بنناچاہتے ہیں؟اگریہاں بھی نتیجہ تحریراسکوائروالا ہی نکلا تو کیا پھر یہاں کبھی  جمہوریت واپس آسکے گی؟اور تحریک انصاف جیسی پاکستانیوں کی امنگوں کی ترجمان جماعت اور عمران خان جیسا لیڈرصرف استعمال شدہ ٹشوکےطورپر یادرکھاجائےگا؟