Wednesday, August 5, 2020

Kashmir Under siege


کیا فرق پڑتاہے ۔۔

جبارچودھری

سوچیں اگر میرے قائد اعظم اپنے چودہ نکات پیش کرنے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ  ایسے نکات پیش کرنےسے کیا فرق پڑتاہے ۔۔

سوچیں اگر میرے قائد اعظم ریڈکلف مشن سے پاکستان کی سرحدوں اور نقشے بارے تکرارکرنے اور ریڈکلف کی  گئی حد بندی کو تسلیم نہ کرنے کے اعلان سے پہلے سوچ لیتے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔

سوچیں اگر میرے قائد کانگریس سے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ شامل ہوں نہ ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔؟

سوچیں اگر میرے قائد قرارداد لاہور کے جلسے میں جانے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ ایسے جلسوں سے  کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔؟

سوچیں اگر شیر بنگال مولوی فضل حق انیس سو چالیس میں قرارداد پاکستان پیش کرنے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ ایسی قرارداد پیش کرنے سے  کیا فرق پڑتاہے ۔۔؟

سوچیں اگر علامہ محمد اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کو جگانے کے لیے کی گئی شاعری سے پہلے سوچ لیتے کہ اس  شاعری سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔؟

سوچیں اگر علامہ اقبال خطبہ الہ آباد دینے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ خطبہ دینے سے کیا فر ق پڑتا ہے ۔۔؟

سوچیں اگر مولانا محمد علی جوہر مسلمانوں کی آواز بننے والے اخبارات نکالنے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ ایسے اخبارات  نکالنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔؟

سوچیں اگر محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کے شانہ بشانہ جدوجہد سے پہلے یہ سوچ لیتیں اس سے کیا فرق پڑتاہے ۔۔؟

سوچیں اگر برصغیر کے مسلمان ، پاکستان کا مطلب کیا ۔۔لاالہ اللہ ۔۔کا نعرہ لگانے سے پہلے یہ سوچ لیتے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔؟

تحریک پاکستان کے قائدین نے یہ سب کرنے سے پہلے ایسا نہیں سوچا کہ کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ چودہ نکات سے فرق پڑتا ہے ۔۔قرارداد پاکستان سے فرق پڑتاہے ۔۔علامہ اقبال کی شاعری سے فرق پڑتاہے ، مولانا محمد علی جوہر کی صحافت سے فرق پڑتاہے ۔۔پاکستان کا مطلب کیا جیسے نعروں سے فرق پڑتا ہے ۔۔خطبہ الہ آباد سے فرق پڑتا ہے ۔۔ماونٹ بیٹن سے تقسیم کے فارمولے پر بحث سے فرق پڑتا ہے ۔۔تحریک پاکستان کے ہیروز نے یہ سب کیا ۔۔اس سے فرق پڑا اور آج ہم آزاد ہیں ۔۔ہم پاکستان میں ہیں ۔۔اگر فرق نہ پڑتا تو ہم آج بھی غلام ہوتے ۔۔ہندوستان میں ہوتے ۔۔

کشمیر کی آزادی کے لیے جو کچھ بھی کیا جارہاہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے ۔۔سوچ جنم لیتی ہے ۔۔سوچ سے تحریک پیدا ہوتی ہے ۔۔تحریک ولولہ لاتی ہے ، تحریک سے جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔۔جذبہ ظلم کی دیواروں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتا ہے ۔۔غاصب کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت دیتا ہے۔۔جابر کے سامنے بولنے کی جرات دیتا ہے ۔۔

بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر دوبارہ قبضے کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ۔۔پانچ اگست دوہزار انیس کو بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل تین سو ستر کا خاتمہ کردیا ۔۔یہ آرٹیکل مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا ۔۔غیرکشمیریوں کو کشمیری بننے سے روکتاتھا ۔۔بھارت نے اس کو ختم کرکے کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا ۔۔بھارت کی طرف سے کشمیر کے محاصرے کو ایک سال بیت گیا ۔۔یہ سال ظلم کا سال ہے ۔۔یہ سال نہتے کشمیریوں پر بربریت کا سال تھا ۔۔


پاکستان کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے سیاسی جنگ لڑرہاہے۔ سفارتی جدوجہد کررہا ہے ۔۔ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان نے اپنا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا، اس نقشے میں مقبوضہ کشمیر کو شامل کیاگیا ہے ۔۔کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھ دیا گیا ۔۔ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اور آئی ایس پی آر کی طرف سے ۔۔چھوڑ دے میری وادی کے نام سے ایک ملی نغمہ جاری کیا گیا ۔۔

اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔

کیا نیا نقشہ جاری کرنے سے کشمیرپاکستان کا حصہ بن جائے گا۔۔؟  کیا نغمے واقعی بھارتی فوج فوری کشمیر چھوڑ دے گی ۔۔؟ ۔۔کیا ڈاک ٹکٹ سے کشمیر میں فوری پاکستان کا سکہ رائج ہوجائے گا۔۔؟ اور کیا سری نگر ہائی وے نام رکھنے سے ہم سیدھا بغیر ویزے کے سری نگر چلے جائیں گے۔۔؟ ۔۔

 جواب ہے ہاں ۔۔ان اقدمات سے بہت کچھ ممکن ہے ۔۔۔کیونکہ ۔۔ آزادی کی تحریکوں میں ، نعروں کی  اہمیت ہوتی ہے ، اشعار کی اہمیت ہوتی ہے، یادگاروں کی اہمیت ہوتی ہے اور نغموں کی اہمیت ہوتی ہے ۔۔

پاکستان کا مطلب کیا ۔۔لاالہ اللہ ۔۔تحریک پاکستان کا ایک نعرہ ہی تو تھا ۔۔ مینار پاکستان بھی تحریک  تحریک  آزادی کی ایک یاد گار ہی تو ہے ۔۔پاکستان کا قومی ترانہ بھی ایک نغمہ ہے جو ہمیں اتحاد کی یاددلاتا ہے، حب الوطنی کا درس دیتا ہے ۔۔ 

اس لیے آزادی کی تحریکوں کو ہر اقدام سے فرق پڑتا ہے چاہے وہ کسی سڑک کا نام بدلنا ہو، یادگاری  ٹکٹ ہو یا ملی نغمہ یہ سب کچھ کشمیر کی آزادی کی سیاسی جدوجہد کے ہتھیار ہیں  ۔۔