Thursday, August 28, 2014

END GAME?


کہانی ختم؟

حکومت نے فوج کے سربراہ سے درخواست کی کہ آپ اس ڈی چوک کی صفائی کرنے میں آگے آئیں۔۔فوج نے ذمہ داری لی اور سب دھرناماسٹر اوقات میں آگئے۔دونوں بھائی اپنے اپنے کنٹینر سے نکلے مظاہرین کوبتایا کہ غلیل والوں نے ذمہ داری لےلی ہے کہ وہ گارنٹی دیں گےکہ انقلاب آئے گا۔کل کیا ہوگا اس پر کل سہی ۔میں آج کی اس پیش رفت پر کچھ لکھنا چاہتاتھا لیکن اس وقت کےلیے جناب قبلہ  وسعت اللہ خان صاحب کا کچھ دن پہلے بی بی سی اردو کی ویب سائیٹ پر شائع  شدہ آرٹیکل  سےبہتر کچھ نہیں لکھا جاسکتا تو اسی کوکافی سمجھتے ہوئے یہاں 
کاپی کرنے کی جسارت کررہاہوں۔



سب لفٹین بن جائیں گے

اصول یہی ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد تھوڑا آرام کیا جاتا ہے اور پھر اترائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ شوق کوئی بھی ہو جب تک پورا نہ ہو تب تک دل میں پھانس رہتی ہے۔ ارمان دل میں ہی رہ جائے تو خلش تا زندگی بے کل رکھتی ہے۔
جمہوریت تو بنی ہی اسی لیے ہے کہ جس کا جو شوق اور خواہش ہو پورا کر لے اور اس کے بعد یکسوئی کے ساتھ کوئی کام کی بات سوچے۔

اور رہی بات دوستوں کی، تو اچھے جمہوری دوستوں کی یہی پہچان ہے کہ جس کا جو دل چاہتا ہے اسے کرنے دیں اور جب وہ کسی خطرے کی جانب ان جانے میں جانے لگے تو سمجھا بجھا کے رخ موڑ دیں اور پھر آزاد چھوڑ دیں مگر اسے آس پاس منڈلاتے خطرات سے بھی آگاہ کرتے رہیں۔ اور جب کوئی تھکا ماندہ ساتھی شوقِ مہم جوئی پورا کر کے ان کہی مدد کے لیے ادھر ادھر دیکھے تو دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی جانب ہاتھ دراز کر کے اسے خاموشی سے اوپر کھینچ لیں۔

مدبر کون ہوتا ہے اور وہ اپنے حامیوں کی امیدیں کیسے بڑھاتا ہے اور جب امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو اس وقت حامیوں کو ذہنی شکست و ریخت سے کیسے بچاتا ہے۔ اس بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم۔ بس ایک واقعہ سنائے دیتا ہوں۔

جب دوسری عالمی جنگ کے لیے عام بھرتی شروع ہوئی تو بازوئے شمشیر زن پنجاب کے انگریز ڈپٹی کمشنروں نے مراعات یافتہ معززین، چوہدریوں، کلاہ داروں اور نمبرداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ جوان بھرتی کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

وسطی پنجاب کے کسی گاؤں میں ایک نمبردار نے جنگ اور حالات سے بیزار جوانوں کو جمع کیا اور انھیں خواب دکھایا کہ اس گاؤں سے جو جوان بھی فوج میں بھرتی ہوگا میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے کم ازکم لفٹین کا عہدہ دلواؤں گا۔ چنانچہ تمام نوجوان جوق در جوق نمبردار کی سربراہی میں شہر کی جانب چل پڑے اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر جمع ہوگئے۔

ڈپٹی کمشنر نے وفادار نمبردار کو اتنے نوجوان لانے پر شاباشی دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے حکامِ بالا سے بطور انعام دس مربع زمین کی سفارش کرے گا۔ لیکن جب نمبردار نے کہا کہ میں ان نوجوانوں کو بہت مشکل سے اس وعدے پر بھرتی کے لیے راضی کر پایا ہوں کہ سب کو لفٹین بھرتی کیا جائے گا تو ڈپٹی کمشنر صاحب کا منھ اتر گیا۔ کہنے لگا یہ ناممکن ہے۔ لفٹین صرف وہی بھرتی ہوسکتا ہے جو کم ازکم میٹرک پاس ہو۔ میں صرف کچھ اضافی سہولتوں کا تو وعدہ کرسکتا ہوں مگر لفٹین بنوانا میرے اختیار سے باہر ہے۔

نمبردار کے پسینے چھوٹ گئے لیکن کمرے سے باہر نکلتے ہی اس نے ہوا میں مکے کا نشان بنایا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے نوجوانوں سے مخاطب ہوا:

’میرے بچو! خوشخبری یہ ہے کہ کمشنر صاحب نے وعدہ کر لیا ہے کہ آپ سب کو انشااللہ لفٹین بنایا جائے گا۔ مگر اس وقت چونکہ جنگ ہو رہی ہے لہٰذا لفٹینوں کی تربیت کا کام بھی رک گیا ہے۔ جنگ ختم ہوتے ہی جیسے ہی تربیت چالو ہوئی آپ سب کو سب سے پہلے کمیشن دیا جائے گا۔ لیکن میں نے کمشنر صاحب سےمطالبہ کیا کہ جب تک میرے بچے لفٹین نہیں بنتے تب تک وہ تمام چیزیں اور سہولتیں فوراً اور مفت مہیا کی جائیں جو ایک لفٹین کا حق ہیں:
نمبر ایک: مفت وردی، بیلٹ اور ٹوپی

نمبر دو: کم ازکم دو نئے جوڑی جوتے
نمبر تین: راشن اور کراکری
نمبر چار: خیمہ اور بستر
نمبر پانچ: ہر طرح کی مفت ٹرانپسورٹ اور سال میں کم ازکم ایک مہینے کی تنخواہ دار چھٹی
نمبر چھ: مفت بندوق اور دیگر اسلحہ گولیوں سمیت۔

’میرے بچو کمشنر صاحب نے بہت ضد کی کہ میں ان میں سے کچھ مطالبات کم کر لوں لیکن میں بھی اڑ گیا۔ چنانچہ کمشنر صاحب کو ہار ماننا پڑی اور انھوں نے یہ کہتے ہوئے تمام مطالبات منظور کر لیے کہ محمد بخشا تو نے مجھے بہت مشکل میں ڈال دیا لیکن پھر بھی میں تیرے خلوص کو دیکھتے ہوئے تمام مطالبات فوری منظور کرتا ہوں۔‘

نوجوانوں نے نمبردار محمد بخش کو کندھے پر اٹھا لیا اور بھرتی میں نام لکھوانے کے بعد محمد بخش زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے خوشی خوشی گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔

Tuesday, August 26, 2014

AFZAL KHAN'S ALLEGATIONS



 پیارے افضل۔۔ٹو



خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں پیدا ہوئے محمد افضل خان نے اعلیٰ تعلیم کےلیے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کا رخ کیا اور 1978میں ایم اے صحافت کا امتحان پاس کیا اور 1979میں سرکاری نیوزایجنسی اے پی پی میں اسٹاف رپورٹر کی نوکری کی۔1996تک اے پی پی میں 17سال نوکری کےبعد انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنا باقی کیریئرگزارنے کا فیصلہ لیا اور 1996میں بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنزالیکشن کمیشن آف پاکستان میں آگئے الیکشن کمیشن میں انہوں نے سرکاری قوانین کے تحت اور بعض اوقات سفارشوں کے سہارے ترقی کے زینے طے کیے اور17سال نوکر ی کے بعد سرکاری طور پر ان کو ان کی عمر عزیز پوری ہونے پران کی خواہش کے خلاف ریٹائرکردیا گیا۔الیکشن کمیشن میں تعیناتی کے دوران ہی وہ ڈیپوٹیشن پر خیبرپختونخوا حکومت میں سیکریٹری انفارمیشن بھی رہے ۔

افضل خان میرٹ کے اس قدر دلدادہ تھے کہ انہوں نے اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی خلاف قواعد الیکشن کمیشن میں سینئراسسٹنٹ کی اسامی پر گریڈ15میں بھرتی کرالیاتاکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کہیں پاکستانی سرکار ان کے خاندان کی خدمات جلیلہ سے محروم نہ ہوجائے۔ افضل خان صاحب 21ویں گریڈ میں ریٹائر کردیے گئے لیکن ان کو سرکاری گھراپنی جان سے بھی زیادہ عزیزتھا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اسی سرکاری گھر میں رہنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے کامیاب منصوبہ بنایا اس کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کا استعمال کیا ۔گریڈ15میں ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹی سرکاری گھر کی حقدار نہیں تھیں تو انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت میں گریڈ 16میں ان کو ڈیپوٹیشن پر بھجوانے کی درخواست کی جو ڈیپوٹیشن پر پابندی کےباوجود انہوں نے منظور کرائی اور اب سولہویں گریڈ کے اہلکارکو21ویں گریڈ کا گھر الاٹ ہے اور موصوف افضل خان اسی سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ بیٹی کی ڈیپوٹیشن کی درخواست آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں



افضل خان صاحب کو سرکاری نوکری سے خاص محبت تھی وہ 34سال تک پاکستان کی خدمت کو بہت کم شمارکرتے تھے ۔مئی 2013میں ان کی ریٹارمنٹ کی تاریخ یوں یوں قریب آرہی تھی انہیں نوکری سے دوری بہت ستاتی تھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو اپنی نوکری میں توسیع کی درخواست دی ۔فخروبھائی نے ان کی یہ درخواست الیکشن کمیشن کے ممبران کو بھجواکررائے طلب کی ۔جسٹس ریاض کیانی جنہوں نے افضل خان کے بقول 90فیصد الیکشن تباہ کیا،نے ان کی اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے سخت ریمارکس لکھے اور ان کی اس درخواست کو خلاف ضابطہ قراردے کر واپس کردیا ۔جس کے بعد پاکستان اس عظیم مجاہد کی خدمات سے محروم ہوگیا۔جسٹس ریاض کیانی کے ریمارکس اس درخواست میں پڑھے جاسکتے ہیں۔



افضل خان کا مولانا فضل الرحمان کی جماعت جےیوآئی ف سے بھی بہت لگاؤ تھا اس لیے الیکشن کمیشن کی نوکری کےدوران انہوں نے 2004میں خیبرپختونخوا میں اپنی خدمات دینے کا فیصلہ کیا۔وہاں اس وقت ایم ایم کی حکومت تھی اور اکرم خان درانی صوبے کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے اس بطل جلیل کو خیبرپختونخوا کا سیکریٹری انفارمیشن لگادیا۔یہاں رہتے ہوئے انہوں نے خوب سرکاری اشتہارات جاری کیے ان اشتہارات میں کمیشن لینے کی دوانکوائریاں ان کے خلاف شروع ہوئیں تو انہوں نے کہاکہ انہیں استثنیٰ حاصل ہے لیکن کرپشن میں استثنیٰ کی ان کی عرضی قبول نہ کی گئی اور افضل خان کے پی کے سے واپس الیکشن کمیشن آگئے اور یہاں اپنی خدمات جاری رکھیں۔

افضل خان صحافت سے وابستہ رہے تھے اس لیے انہیں میڈیا پر خود نمائی کا بہت شوق تھا ۔نگران حکومت میں جب وہ قائم مقام وزیرداخلہ سے الیکشن سکیورٹی پر اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے آئے تو رپورٹر قائم مقام وزیرداخلہ ملک حبیب سے سوال کرتے تو افضل خان ان کو چپ کراکر جواب دینے لگتے اسی کشمکش میں ان کی رپورٹروں سے اچھی خاصی جھڑپ ہوگئی اور بریفنگ ادھوری چھوڑنا پڑی ۔

الیکشن کمیشن کے سابق ایڈشنل سیکریٹری اور اے آروائی پر نشر کیے گئے سپر ہٹ ڈرامہ سیریل پیارے افضل میں کوئی مماثلت نہیں ۔۔۔ہاں صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ پیارے افضل میں ڈرامے کا ہیرو ایک مولوی کا بیٹا تھا اور ہمارے افضل ماشاءاللہ خود مولوی ہیں اور ڈرانے والا افضل ایک امیرآدمی کی بیٹی کی محبت میں مبتلا تھا تو ہمارے افضل سرکاری نوکری کی محبت میں گم تھے۔۔۔

آخر میں صرف یہ کہ محمد افضل خان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں وہ عمران خان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے دھرنے میں اپنے خاندان کے ساتھ شریک ہیں تویہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنی وابستگی جس کے ساتھ رکھنا چاہیں رکھیں۔ اس بات کی بھی اہمیت نہیں کہ وہ ڈیڑھ سال تک کیوں خاموش رہے ۔میں تو صرف یہ کہتاہوں کہ جب 2013کےالیکشن ہورہے تھے تو وہ الیکشن کمیشن میں بہت ہی اعلیٰ عہدے پر فائزتھے ۔براہ راست سارے معاملات میں ملوث تھے اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو پیارے افضل براہ راست خود بھی اس جرم میں ملوث ہیں ۔اگر وہ بہت پاک صاف تھے تو اس وقت الیکشن کی پاکیزگی کا ڈھنڈورا کیوں پیٹ رہے تھے یا کم ازکم وہ اتنے ثبوت ہی جمع کرلیتے کہ آج ان کو یہ کہنے کےساتھ ساتھ کہ الیکشن دونمبر نہیں 100نمبر ہے کم ازکم کوئی ثبوت تو دینے کےلیے ہوتا۔۔ڈرامے کے آخر میں پیارا افضل گینگسٹر بن کر جان سے چلاجاتاہے اور ہمارے افضل بھی بس خوامخوا پتہ نہیں کس کےلیے خود کش بمبار بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔


Sunday, August 24, 2014

PTI'S RIGGING ALLEGATIONS AND 4 CONSTITUENCIES


تحریک انصاف کےچار حلقے


یہ تحریر پڑھنے سے پہلے اگر آپ یویوہنی سنگھ کا گانا

چاربوتل واڈکا      کام میرا روزکا

دوتین بار سن لیں تو آپ کو چار حلقوں کا معمہ سمجھنے میں کافی آسانی پیدا ہونے کی امید ہے۔۔۔یہ میرامشورہ ہے حکم نہیں۔۔۔۔لیکن گزارش ہے کہ گانا سننے کےفوری بعد اس آرٹیکل کو پڑھنا شروع کردیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چاربوتلوں کو چار حلقوں پر ترجیح دیناشروع کردیں اور چار حلقوں کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑجائے اور عمران خان کو ایک اور دھرنا دینا پڑے۔
الیکشن 2013میں تحریک انصاف نے پورے ملک میں 70کے قریب حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کےلیے الیکشن ٹریبیونلز میں درخواستیں دائر کیں ان ستر میں قومی اسمبلی کے چار حلقے بھی شامل ہیں جن کا بہت زیادہ شور ہورہاہے گویا تحریک انصاف کو 70میں سے صرف انہی چار حلقوں پر سب سے زیادہ اعتراض تھا۔ان چار حلقوں میں تین پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک حلقے پر آزاد امیدوار نے تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین کو شکست دی۔ن لیگ کے جیتنے والوں میں دو کامیابی کے بعد وزیر بنے اور ایاز صادق اسپیکر کے منصب پر فائز ہیں۔
ان چار حلقوں میں دوحلقے لاہور میں ہیں ان میں این اے 122ہے جس میں ن لیگ کے ایازصادق نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہرایا لاہور کے حلقہ 125میں ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کے حامد خان کو ہرایا جو عمران خان صاحب کےقریبی رشتہ دار ہیں،تیسرا حلقہ سیالکوٹ کا این اے110ہے یہاں سے خواجہ آصف کا میاب ہوئے جبکہ چوتھا حلقہ این اے 154ہے یہاں سے آزادامیدوار صدیق بلوچ جیتے تھے۔
ان چار حلقوں کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں

این اے122لاہور5

اس حلقے میں تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان صاحب مسلم لیگ ن کے ایازصادق صاحب کے مدمقابل تھے نتائج کےمطابق ایازصادق نے93362 ووٹ لےکر کامیابی حاصل کی ان کے مدمقابل عمران خان نے 84417ووٹ حاصل کیے ۔اس حلقے میں ایاز صادق کے 9ہزارووٹ عمران خان سے زائد ہیں ۔اس حلقے میں 20امیدواروں نے الیکشن لڑا ۔اگر باقی 17امیدواروں کو ڈالے گئے ووٹ ملا کر بھی عمران خان کومل جاتے تو بھی عمران خان اس حلقے سے کامیاب نہ ہوپاتے۔عمران خان نے الیکشن کمیشن کو اس حلقے میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست دی الیکشن کمیشن نےمعاملہ ریٹرننگ افسر کو ریرکردیا  اس پر ایازصادق نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ ریٹرننگ افسر کا کردار صرف الیکشن کرانے تک محدود ہے دوبارہ گنتی کےلیے الیکشن ٹریبیونل میں معاملہ جانا چاہیئے اس کیس پر لاہور ہائی کورٹ نے اسٹے دیدیا اور کیس چل رہاہے،عمران خان خود بھی ایک بار ہائی کورٹ میں پیش ہوچکے ہیں۔اور ایک بار الیکشن ٹریبیونل میں بھی پیش ہوگئے ہیں یہاں انہوں نے اس جج (جسٹس کاظم ملک)کی کافی تعریف کی جسے ان کے رشتہ دارحامد خان گالیاں دے چکے ہیں۔

این اے125لاہور8

اس حلقے میں ن لیگ کے سعدرفیق نے ایک لاکھ23ہزارووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے حامد خان نے 83190ووٹ حاصل کیے یوں دونوں میں ووٹوں کا فرق 40ہزار ہے۔اس حلقے کا معاملہ بھی الیکشن ٹریبیونل میں چل رہاہے۔خواجہ سعد رفیق کا کہناہے کہ الیکشن ڈے پر 700میں سے کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر پورادن پی ٹی آئی کے کسی پولنگ ایجنٹ نے ایک بھی ووٹ چیلنج کیا نہ کوئی شکایت کی اور 40گھنٹے بعد دھاندلی کا شورمچایا۔۔الیکشن ٹریبیونل میں کیس شروع ہوا تو حامد خان نے انگوٹھوں کی تصدیق کا حکم دینے کی درخواست کی ۔جسٹس کاظم ملک نے کہا کہ پہلے دھاندلی کے شواہد فراہم کریں اگر ضرورت ہوئی تو انگوٹھوں کی تصدیق کا حکم دیاجائے گا۔اس پر حامد خان کے وکلا بھڑک اٹھے اور جسٹس کاظم ملک کو بہت ہی برابھلا کہا ۔جسٹس کاظم نے اس کیس کوسننے سے معذرت کرتے ہوئے جونوٹ لکھا اس میں انہوں نے اس کیس کو اپنی پروفیشنل زندگی کا براترین تجربہ قراردیا اور کہا کہ تحریک انصاف اپنی خواہش کے فیصلے کےلیے ججوں کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کررہے ۔اب یہ کیس تحریک انصاف نے فیصل آباد کے ایک ٹریبیونل میں لگوایا ہے یہاں اس کی سنوائی ہورہی ہے ۔۔اس حوالے سے خواجہ سعد رفیق کے مؤقف کےلیے اس لنک کو کلک کریں 


این اے110سیالکوٹ 1

اس حلقے میں ن لیگ کے خواجہ محمد آصف اور تحریک انصاف کے عثمان ڈار مد مقابل تھے نتیجہ ن لیگ کے خواجہ محمد آصف کے حق میں آیا جنہوں نے 92803ووٹ حاصل کیے ۔تحریک انصاف کے عثمان ڈار نے 71525ووٹ لیے دونوں میں ووٹو ں کا فرق 20ہزارکے قریب رہا ۔یہ کیس بھی ٹریبیونل میں گیا یہاں ۔جج کے بلانے پر عثمان ڈار پیش ہی نہیں ہورہے ۔جج نے عثمان ڈار کو کئی بار تنبیہ کی کہ وہ ثبوت پیش کریں لیکن عثمان ڈار کاروباری مصروفیات میں ملک سے باہر رہے اسی پر جج نے تحریک انصاف کے امیدوار پر 30ہزار روپے جرمانہ عائد کیا انہوں نے وہ جرمانہ بھی جمع نہیں کرایا۔

این اے 154لودھراں 1

اس حلقے میں تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار صدیق بلوچ میں مقابلہ تھا اور نتیجہ آزاد امیدوار صدیق بلوچ کے حق میں آیا،تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر خان ترین دوسرے نمبر اور مسلم لیگ ن کے امیدوار سید رفیع الدین تیسرے نمبر پر رہے۔یہاں صورتحال دلچسپ رہی صدیق بلوچ نے 86046ووٹ لیے جہانگیر ترین نے 75814اور مسلم لیگ کے رفیع الدین نے 45406ووٹ لیے ۔مسلم لیگ ن کا امیدوار یہاں تیسرے نمبر پر تھا لیکن پی ٹی آئی نے یہاں بھی الزام اسی پر لگایا۔یہ حلقہ بھی ٹریبیونل میں سنا جارہا ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی اس حلقے میں ووٹوں کی گنتی کا حکم دیا جس میں نتیجہ تبدیل نہ ہوا۔اس مقدمے میں ملک کے نامور وکیل شریف الدین پیرزادہ کی خدمات جہانگیر ترین نے حاصل کررکھی ہیں۔معاملہ ابھی تک چل رہاہے ۔کچھ ذرائع کا یہ بھی کہناہے کہ جہانگیر ترین نے انگوٹھوں کی تصدیق نہ کرانے کی درخواست بھی کی ہے ۔
اگر پی ٹی آئی کے احتجاج کا مقصد انہی چار حلقوں کی تحقیقات تھی تو اس کامعاملہ تو کسی صورت بھی تحریک انصاف کے حق میں نظر نہیں آرہا اور تاثر یہی ہے کہ معاملہ کی تاخیر تحریک انصاف کے امیدواروں کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن اگر خان صاحب نیا پاکستان اپنی شادی کےلیے بنارہے ہیں تو پھر ان حلقوں اور دھاندلیوں کو آپ ذرا خاطر میں نہ لائیں اور چپ کرکے آواز اونچی کریں اور ہنی سنگ کا گانا رپیٹ پہ لگا کر صرف سنتے رہیں۔۔
چاربوتل واڈکا۔۔۔کام میرا روزکا

Wednesday, August 20, 2014

FROM INDIAN AAP TO PAKISTANI PTI


بےصبراعام آدمی 


بھارتی ریاست اترپردیش میں پیدا ہوئے اروند کیجری وال نے1995میں مقابلےکا امتحان پاس کیا اور بھارتی سول سروس جوائن کی۔سن 2000میں کیجری وال نے مزید تعلییم کےلیے تین سال کی چھٹی لی اس عرصے میں ان کوتنخواہ ملتی رہی۔انہوں نے بھارت سرکارسے معاہدہ کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے بعد دوبارہ نوکری جوائن کریں گے اور کم از کم تین سال تک عہدے سے مستعفی نہیں ہوسکیں گے اگر انہوں نے تین سال سے پہلے استعفیٰ دیا تو انہیں چھٹی کے عرصہ میں وصول کی گئی تنخواہ واپس کرنی پڑے گی۔



2003میں کیجری وال کی تعلیم پوری ہوئی تو وہ معاہدے کےمطابق دوبارہ نوکری پر حاضر ہوئے اور دلی میں انکم ٹیکس کے جوائنٹ کمشنر بن گئے۔انہوں نے ڈیڑھ سال تک نوکری کی ۔اس دوران ان کو خیال آیا کہ بھارت میں کرپشن بہت ہے اور وہ اس کرپشن کو روک سکتے ہیں ۔دوستوں نے مشورہ دیا کہ انہیں انا ہزارے کی احتجاجی تحریک کا حصہ بن جاناچاہیئے ۔وہ بھارت سے کرپشن ختم کرنے کےلیے اتنے بے تاب ہوئے کہ ریاست سے کیےعہد کو توڑنے کا سوچنے لگے انہوں نے ریاست کے خرچے پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے عوض مزید 3سال بھارتی سرکارکی نوکری کرنے کا عہد کیا تھا لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی ان کے دل میں بھارتی معاشرے سے کرپشن ختم کرنے اور ملک میں انقلاب لانے کاخواب ستانے لگا۔اسی لگن میں کیجریوال نے ریاست سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور قانونی کارروائی سے بچنے کےلیے ڈیڑھ سال کی بغیر تنخواہ چھٹی کی درخواست دے ڈالی ۔اس دوران وہ اناہزارے کے قریبی ساتھی بن گئے اور دھرنوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شریک ہونے لگے۔ ڈیڑھ سال بعد 2006میں جب ان کی بغیر تنخواہ چھٹی پوری ہوئی تو اروند کیجری وال نے سرکاری نوکری سے استعفی دے دیا۔


ریاست نے اروند کیجری وال  کو  معاہدہ یاد دلاتے ہوئے ان سے تنخواہ کی واپسی کا مطالبہ کیا وہ اس مطالبے کو یہ کہہ کرٹالتے رہے کہ انہوں نے 3میں سے ڈیڑھ سال کام کیا اور ڈیرھ سال بغیر تنخواہ کے چھٹی لی ہے اس طرح3سال پورے ہوگئے لیکن بھارت کی ریاست اتنی کمزور نہیں ہے وہاں دیر ہے لیکن اندھیر واقعی نہیں ہے ۔ریاست نے اروند کیجری وال کی یہ دلیل ماننے سے انکار کردیا اور پیسوں کا مطالبہ جاری رکھا ۔یہاں تک کہ 5سال بعد 2011میں اروند کیجری وال کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے انہوں نے دوستوں سے ادھار پیسے پکڑ کر ریاست کو واپس کیے اور جان خلاصی کروائی ۔

اروند کیجری وال نے ریاست سے جان چھڑا کر اسی ریاست پرحکمرانی کامنصوبہ بنایا اس مقصد کےلیے اروند کیجری وال نے دسمبر 2012میں عام آدمی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا۔اس سیاسی جماعت کے بننے کے ٹھیک ایک سال بعد دسمبر 2013میں دہلی کے ریاستی الیکشن کا اعلان ہوا تو اروند کیجری وال نے الیکشن لڑے کا اعلان کیا۔دہلی کے عوام نے عام آدمیوں کی اس پارٹی کو اپنا نجات دہندہ مان کر خوب ساتھ دیا ۔مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی اس پارٹی نے دہائیوں سے دہلی میں موجود کانگریس سرکارکاتخت ووٹ کے ذریعےالٹ دیا ۔اروند کیجری وال نے تخت دہلی پر براجمان وزیراعلیٰ شیلاڈکشت کو28ہزارووٹوں سے شکست دی ۔مجموعی طور پرعام آدمی پارٹی نے70میں سے 28نشتیں جیت لیں۔اس الیکشن میں بھارتی جنتا پارٹی نے سب سے زیادہ 31نشستیں جیتیں لیکن واضح اکثریت کسی کو نہ ملی ۔کانگریس نے اس الیکشن میں 8نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔اروند کیجری وال نے جس پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا اسی پارٹی یعنی کانگریس کے ساتھ مل کر دہلی میں حکومت بنائی اور 28دسمبر2013کودہلی کے ساتویں وزیراعلیٰ بن گئے ۔انہوں نے اقتدار میں آنے کے15دن میں کرپشن کے خلاف جان لوک پال بل اسمبلی سے منظور کرانے کااعلان کیا۔

دہلی میں عام لوگوں کی حکومت بننے پر اروند کیجری وال کی واہ واہ شروع ہوئی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث بھارتی سیاستدان بننے والے کیجری وال نے عام آدمی کےلیے کچھ فیصلے کیے انہوں نے لوگوں کو مفت پانی فراہم کرنے اور بجلی کی قیمت آدھی کرنے کااعلان کیا۔ان اعلانات پر عمل اور مزید اچھے کاموں کے لیے اس عام آدمی کو لمبی اننگز کھیلنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔عام آدمی خاص جگہ پہنچ کر اوقات سے باہر چلا گیا اس عام آدمی نے اختیارات کےلیے مرکزی حکومت سے لڑنا شروع کردیا ۔کرپشن کےخلاف جس قانون کی منطور ی کا 15دن میں اعلان کیا تھا اپنی 49دن کی حکومت میں وہ بھی پاس نہ 
ہوسکا۔۔۔۔


اروند کیجری وال نے تین پولیس والوں کےخلاف مرکزی حکومت سے کارروائی کامطالبہ کیا نہ کیے جانے پر وزیراعلیٰ نے احتجاج شروع کردیا۔یہ احتجاج دھرنے کی شکل اختیارکرگیا،کیجریوال وزیراعلیٰ ہاؤس چھوڑکر سڑک پر بستر لےآئے انہوں نے وہیں رہنا  شروع کردیا۔وہ سونے کےلیے بھی گھر نہ جاتے۔اس جذباتی عام آدمی نے حکمت سے کام نہ لیا ایک صوبے کی حکومت ملی اس کو خود شہید کردیا،کرپشن کے خلاف قانون نہ بن سکا،عام لوگوں کو ریلیف نہ ملا۔۔بھارت کا یہ عام آدمی جذباتی اور فرسٹریٹ ثابث ہوا۔صرف49دن بعد اپنی حکومت ختم کرڈالی۔سوچا کوئی بڑا انقلابی کام کیا ہے لوگ احتجاج کریں گے واپس لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اپنی مقبولیت کے زعم میں مبتلا یہ عام آدمی بھارت میں اتبا غیر مقبول ہوا کہ اس حکومت کے خاتمے کے صرف 5ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں بری طرح شکست کھاگیا،دلی کی ریاست جہاں اس کی حکومت تھی وہاں سے ایک بھی سیٹ عام آدمی پارٹی کو نہ مل سکی ،اروند کیجری وال نے نریندر مودی کو چیلنج کیا اس کے مقابلے میں الیکشن پر کھڑا ہوا اور اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھا۔

اس کو بھلے آپ بے وقوفی نہ مانیں لیکن عقلمندی نہیں کہاجاسکتا کہ اپنی ہی حکومت پر خود کش حملہ کیوں؟ اگر وہ صبر کرتے تو مین سٹریم سیاست میں جگہ بناتے،دہلی کے لوگوں کے لیے کام کرکے وہاں اپنا آپ مضبوط کرتے لیکن انہوں نے فراراختیار کیا۔۔


پاکستان میں جب 2012کے شروع میں تحریک انصاف کو عروج ملا تو لوگوں کی توقعات پاکستان کے عام آدمی عمران خان سے لگ گئیں ،عوام نے تیسرے آپشن کے طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا ایک صوبے میں حکومت بن گئی ۔۔لیکن صبر ان میں بھی نہیں ہے ۔۔۔سوچا ایک صوبہ نہیں پورے ملک پر حکومت ان کا حق ہے اسی حق کو لینے کےلیے اروند کیجری وال کی طرح سڑک پر ہیں۔۔کیجری وال گھر نہیں جاتے تھے لیکن پاکستان کا عام آدمی بنی گالا چلاجاتاہے۔یہ عام آدمی کانمائندہ بھی بہت بے صبرانظرآرہاہے ۔قومی اسمبلی میں موجود ارکان سے استعفے لےکر جیب میں رکھ چکا ہے۔۔جس صوبے میں حکومت ہے وہاں تحریک عدم اعتماد لائی جاچکی ہے ۔۔۔



کیجری وال اورعمران خان کی ذات میں کوئی اور قدر مشترک ہو یا نہ ہو لیکن بے صبری دونوں میں مشترک ہے۔۔۔جلد بازی نے بھارتی عام آدمی کی ضمانت ضبط کرادی  ۔پاکستان میں بھی اس وقت عام آدمی کو بہت بے صبری ہے وہ عقلمندی،حکمت اور مصلحت کے بجائے پاپولرسیاست کے سرپٹ گھوڑے پر سوار ہے ۔اگر اس عام آدمی نے بھی بھارتی عام آدمی جیسا فیصلہ کردیا تو الیکشن ضمنی ہوں یا چارسال بعد عام الیکشن۔ اس عام آدمی کی ضمانتیں ضبط ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔۔اس بے صبری سے بھارت کے بعد پاکستان کا عام آدمی بھی یقینن مایوس ہوگا۔۔۔۔

Sunday, August 17, 2014

IMRAN KHAN AND AZADI MARCH


دوپہرکوروزہ کھولنےکی فرمائش


(عمران خان کے علاوہ باقی تمام پٹھانوں سے معذرت کےساتھ)
ایک مرتبہ ایک پٹھان نے روزہ رکھ لیا،دوپہر کاوقت ہوا تو بھوک اور پیاس سے خان صاحب کا براحال ہوگیا،ہارتھک کرریڈیو آن کیا کہ شاید کچھ وقت گزرجائے ۔ریڈیوپر آپ کی فرمائش پروگرام چل رہاتھا ،خان صاحب نے فون اٹھایا اور پروگرام میں کال کردی۔۔
پروگرام ہوسٹ نے پوچھا ۔۔جی کون اور کہاں سے
خان صاحب نے جواب دیا،پیاس خان پشاور سے۔۔۔۔
جی خان صاحب ۔۔کیا سننا پسند کریں گے۔۔
خان صاحب ۔۔۔او کوچہ جلدی کرو مغرب کی آذان سنادو۔۔۔۔۔۔۔

یہ لطیفہ سن کر نہ جانے کیوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب یاد آگئے ،ویسے تو وہ بھی پٹھان ہیں لیکن کل انہوں نے خود کہا کہ وہ فاسٹ باؤلر ہیں اور فاسٹ باؤلر سے صبر نہیں ہوتا۔۔۔۔خان صاحب کے دماغ سے ایک تویہ کرکٹ نہیں نکلتی ۔۔وہ ہر مسئلے کو کرکٹ کامیچ ہی سمجھتے ہیں۔۔جن لوگوں نے خان صاحب کوکرکٹ کھیلتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب یہ فاسٹ باؤلر باؤلنگ کرتا تھا اور جب وکٹ نہیں ملتی تھی تو فرسٹریشن ان کے چہرے پر نظر آنے لگتی تھی۔۔خان صاحب کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا۔۔خان صاحب وکٹ لینے کےلیے اس قدر بے تاب ہوجائے کہ لائن لینتھ بھول جاتے پٹائی کراتے اور اسی فرسٹریشن میں قومی ٹیم کا جنازہ نکال لیتے ۔۔۔۔جب بات حد سے گزرنے لگتی تو جاوید میانداد جیسے تحمل مزاج ساتھی ان کو سمجھاتے کہ خان صاحب ضروری نہیں کہ وکٹ آپ کوہی ملے ٹیم میں اور بھی باؤلر ہیں کسی اور کو آزمالیتے ہیں ۔۔لیکن ضدی خان کہتاکہ مجھے ہارنا منظور ہے لیکن میں اس کو آؤٹ کرکے ہی چھوڑوں گا۔۔۔اسی ضدمیں خود آؤٹ ہوکر گراؤنڈ سے باہر بھی چلے جاتے۔۔۔


خان صاحب سے واقعہ ہی صبر نہیں ہوتا ۔۔انہوں نے اسی بے صبری طبیعت کی وجہ سے بنوں میں ایک دن پہلے ہی عید منالی۔۔جب پوری قوم کا روزہ تھا تو خان صاحب بنوں میں بکرے کا گوشت کھارہے تھے۔۔۔

خان صاحب کے بدلتے بیانات پر تو اب ہنسی بھی کم کم ہی آتی ہے ۔۔۔انہوں نے لاہور سے ایک لاکھ موٹر سائیکل سوار نکالنے کا اعلان کیا جو شاہدرہ میں جاتے ہی پٹ گیا۔۔خیر اس پر تو ان کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ لوگ اتنے بھی فارغ نہیں ۔۔۔۔

خان صاحب نے کل کے خطاب میں کہا کہ جو سیاسی نہیں ہوتاوہ جانور ہوتا ہے۔۔۔انسان غیر سیاسی نہیں ہوسکتا۔۔غیر سیاسی صرف جانور ہوتے ہیں ۔۔انہوں نے بکریوں ،شیروں اور ہرنیوں کی مثالوں سے کارکنوں کو سمجھایاکہ کون سیا سی ہے اور کون غیر سیاسی ۔۔۔۔ایک دن پہلے زوروشور سے کہہ رہے تھے کہ اس ملک میں غیرسیاسی حکومت بنائی جائے ۔۔خان صاحب بتائیں کس جانور کی حکومت بنادیں پاکستان میں ؟

خان صاحب بنی گالہ سے آتے ہیں اور کہتے ہیں میں آپ کے ساتھ سڑک پر سوجاؤں گا۔۔حکومت کے خاتمے تک یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا۔۔خطاب کے بعد ان کو پھر اپنامحل یاد آنے لگتاہے اور اسٹیج سے مطالبے کراتے ہیں کہ انہیں گھریاد آرہاہے جانے دیاجائے ۔۔۔۔۔پچھلی رات کارکنوں نے صاف انکار کردیا تو انہیں علامتی طور پر کنٹینر پر کچھ دیر سونے کی ایکٹنگ کرناپڑی۔۔اٹھے ہی ناشتے میں پیزا کھایا اور ریڈبل پی کر کنٹینر سے اترے اور پھر تین بجے کا کہہ کر بنی گالہ پہنچ گئے۔۔۔

خان صاحب واقعی بے صبرے ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں جانے کےلیے مرے جارہے ہیں ۔۔خیبر پختونخوا حکومت لے کر بھی ان کو صبر نہیں آیا۔۔۔ان کے صوبے کے چیف ایگزیکٹو اسلام آباد دھرنے میں گانوں پر ہیجڑوں کی طرح ڈانس میں مصروف ہیں اور پشاور میں 16لوگ بارش کی وجہ سے مرگئے ۔۔۔۔۔آپ ترجیحات ملاحظہ کریں۔۔۔۔




خان صاحب کے اندر کی بات باہر آگئی کہ ان سے اب صبر نہیں ہوتا ۔۔اس بے صبری میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان میں حکومت پانچ سال کےلیے بنتی ہے ۔۔وہ بے صبری میں سب کچھ بھول کر اقتدار حاصل کرنے کےلیے منہ سے آگ نکال رہے ہیں ۔۔۔

خان صاحب کو وکٹ نہیں مل رہی ہے وہ ایک بار پھر فرسٹریٹ ہیں ۔۔۔۔لائن اور لینتھ بھول چکے ہیں ۔۔مسلسل پٹائی ہورہی ہے ۔۔ان کی ہربال شارٹ بچ ہورہی ہے ۔۔وکٹ سے باہر جاتی بالوں پر چوکے اور چھکے لگ رہے ہیں ۔۔۔۔خان صاحب! ویسے تو آپ کی پارٹی میں کسی کی نہیں چلتی ۔۔لیکن ہم پھر بھی گزارش کریں گے کہ کوئی سمجھدار کھلاڑی کچھ دیر کےلیے خان صاحب کا اسپل تبدیل کرے اور نئے باؤلر کو موقع دے شاید کوئی وکٹ مل جائے۔۔۔۔کہ کوئی بھی ٹیم ہرورلڈ کپ نہیں جیت سکتی ۔۔۔۔ایک آخری بات کہ اگر خان صاحب بہت بے صبرے ہیں تو ہماری پوری قوم کا یہی المیہ ہے کہ ہم سب ہی بے صبرے ہیں ۔۔اگر آج خان صاحب اقتدار میں آبھی آگئے تو کل کوئی دوسرا بے صبرا ہوجائے گا اور یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔۔۔۔

خان صاحب دوپہر کے وقت مغرب کی اذان کی فرمائش نہ کریں ۔۔ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں اور صبر کرکے روزہ کھلنے کا انتظار کریں ۔۔۔۔۔

Thursday, August 14, 2014

14th AUGUST...HAPPY INDEPENDENCE DAY


جشن آزادی مبارک

پاکستان آج 68سال کاہوچکاہے۔میری عمر وطن عزیز پاکستان سے آدھی ہے میں نے اپنی زندگی میں آزادی کی 35صبحیں دیکھی ہیں لیکن آج 14اگست جیسی صبح آزادی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہاہوں ۔اس سے پہلے آزادی کا جشن منایا جاتاتھا لیکن اس میں کچھ پابندیاں بھی لگتی تھیں یہ الگ بات کہ یہ پابندیاں موٹرسائیکلوں کے سائلنسرزکے راستے ہوا میں تحلیل کردی جاتی تھیں۔گزشتہ سالوں میں آزادی کا جشن منایا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ جشن منانے کےلیے آزادی حاصل کرنے کی تگ ودو ہورہی ہے۔

پہلا یوم آزادی ہے جب ہر کسی کو آزادی ۔۔بلکہ مادرپدر آزادی ہے۔اس یوم آزادی پر عمران خان کو آزادی ہے کہ وہ جس شخص کی چاہیں پگڑی اچھالیں۔میڈیا کےکیمرے اور ایئرٹائم ان کے گھر پر ہاتھ باندھے کھڑا ہے وہ خود بادشاہ سلامت کی زندگی گزاریں لیکن وہ بادشاہ صرف نوازشریف کو ہی کہیں گے۔عمران خان کو آزادی ہے کہ وہ جس پر چاہیں دھاندلی کاالزام لگائیں اورہاں ان پر اس الزام کو ثابت نہ کرنے کی بھی مکمل آزادی ہے ۔عمران خان کو یہ بھی آزادی ہے کہ وہ رات ایک بات کہیں اور صبح اس بات سے آزادی سے مکرجائیں ۔۔۔ان کو آزادی ہے کہ وہ افتخار چودھری کی تعریف کریں،جسٹس رمدے کو منصف اعظم قرار دیں ،جسٹس ناصرالملک پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کریں لیکن اس کے بعد ان کو گالیاں دینے کی آزادی سے بھی بھرپورلطف اٹھانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔


خان صاحب فخرالدین جی ابراہیم کی تعریف کرنے میں بھی آزاد ہیں اور ان پر دھاندلی میں ملوث ہونے اور تاریخ کے بدترین الیکشن کرانے کاالزام لگانے میں بھی آزاد ہیں ۔عمران خان صاحب کو یہ بھی آزادی ہے کہ وہ طالبان کو تو پاکستان پر حکومت کرنے کی آزادی دے سکتے ہیں لیکن شریف برادران حکمران ہوں تو ان کو گھر بھیجنے کےلیے جتن کرنے میں بھی آزاد ہیں۔

عمران خان دوسروں کو ڈکٹیٹر کہنے میں آزاد ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ خود ڈکٹیٹربننے میں بھی آزاد ہی ہیں۔ان کی اسی طرح کی شخصیت اور ملک میں اسی طرح کی حکومت کی خواہش ان کی اپنی پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی کو ان سے دور لےگئی اور رعونت میں ایسے آزادکہ کہا کہ جاوید ہاشمی نے جو حرکت کی ہے اس سے تحریک انصاف کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہاشمی کو ہی نقصان ہوگا۔۔ہاشمی کو بادشاہ سلامت کا یہی پیغام ملا تو ان کی عقل ٹھکانے آگئی اور کہا کہ خان صاحب نے وضاحت کردی ہے میں اب مان گیاہوں۔

اچھا خان صاحب اپنے بیانات کی حالات و واقعات کے مطابق تشریح کرنے میں بھی آزاد ہیں وہ ٹیکنوکریٹ حکومت کا مطالبہ کریں اور جب یہ مطالبہ ان کے گلے کا ہاربننے لگے تو کہیں کہ ٹیکنوکریٹ سے مراد غیر سیاسی حکومت ہوتی ہے اور ہاشمی صاحب ان سے اتفاق کرنے میں بھی آزاد ہونے کے پابند۔


اس یوم آزادی پر ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی آزادی ہے کہ وہ ملک میں انقلاب لائیں،نظام تہہ وبالا کریں،اپنے کارکنوں کو لاہور میں جمع کریں ۔ان کا وہاں دس دن تک وہاں رکھیں،کھانا اور پانی نہ ملنے پر انسانی المیے کا باعث بنیں۔۔اپنے کارکنوں کو کہیں کہ پولیس والوں کواٹھاکر ساتھ لاہور لے آئیں ۔ کارکنوں کو کہیں کہ جو واپس جائے اس کو شہید کردیں۔ اس کے بعد دباؤ میں آکر اپنے تمام بیانات کی تردید کرنے میں بھی ڈاکٹر صاحب  آزاد ہیں۔چودھری براداران اور شیخ رشید شامل واجا ہونے میں مکمل آزاد ہیں۔

اس یوم آزادی پر حکومت شہریوں کو مکمل پابند کرنے میں آزاد ہے ۔لاہوریوں کو کنٹینروں میں قید کرنے میں آزاد ہے،شہریوں کے موبائل فون بند کرنے میں مکمل آزاد ہے۔لانگ مارچ روکنے کے عدالتی  حکم کی پابند اورکنٹینر ہٹانے کا حکم نہ ماننے میں آزاد ہے۔



اس یوم آزادی پر وطن عزیز کی معزز عدالتیں بھی مبہم فیصلے دینے میں آزاد ہیں ایسے فیصلے جس کو دونوں میں سے جو فریق چاہے اپنے مطابق قراردے ۔عدالتیں یہ فیصلہ دینے میں مکمل آزاد ہیں کہ ۔؛؛غیرآئینی لانگ مارچ اور دھرنا نہیں دیاجسکتا؛؛ اس فیصلے کے بعد حکومت کےلیے یہ دھرنا اور مارچ غیرآئینی ہے اور مظاہرین کےلیے یہ لانگ مارچ آئینی ہے ۔کرتے رہیں تشریح اس فیصلے کی ۔۔۔مجھے بھی کل پتہ چلا کہ دھرنے کی دو قسمیں ہوتی ہیں آئینی اور غیر آئینی دھرنا۔۔۔شکریہ آزاد عدلیہ


اور آخر میں اس یوم آزادی پر بھی پاکستان کے آزاد شہری ،بھوک،افلاس،بے روگاری ،ظلم اور جبر کے ہاتھوں مرنے کےلیے مکمل آزاد ہیں۔ایسے تمام پاکستانیوں کو جشن آزادی مبارک۔۔۔۔۔۔۔

Monday, August 11, 2014

DEMISE OF PAKISTANI SOCIETY


انتقال پرملال 

حضرات۔۔! ایک ضروری اعلان سنیئے ۔۔۔نہایت افسوس کے ساتھ اعلان کیاجاتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کا گزشتہ رات انتقال ہوگیا ہے ،مرحوم کی عمر چھاسٹھ سال تھی ۔مرحوم کی لاش نفرت تعصب اورذات پات کے ٹکڑوں میں بٹی پاکستان کے ہرگلی کوچے، سڑک اور چوراہے پر بے یارومددگار پڑی ہے ۔مرحوم کا جنازہ آج رات کے اندھیرے میں ادا کیا جائےگا۔اور ہاں مرحوم کے کفن دفن کےخرچ کےلیے چندے کی بھی اپیل ہے۔

پاکستانی معاشرے کو اس کی پیدائش سے ہی مختلف بیماریاں لاحق ہوگئی تھیں۔اس معاشرے کو پیداکرنے والے بابے کو اس کی پرورش اور درست سمت میں چلانے کی تربیت کا موقع ہی نہ مل سکا بلکہ وہ خود بھی اسی معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور معاشرے کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی چل بسے تھے۔

پاکستانی معاشرہ چونکہ اپنی پیدائش سے پہلے ہندو معاشرے کے ساتھ پلا بڑاتھا اس لیے اونچ نیچ اور ذات پات اپنے ساتھ ہی پاکستان لےکرآیا تھا۔پاکستان آکر نفرت کی صنعت نے بڑے زوروشور سے ترقی کی ۔دوسروں کو برداشت نہ کرنے کی خصوصیت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس معاشرے کے افراداپنے علاوہ کسی دوسرے کو ترقی کرتے نہ دیکھ سکے ۔دوسروں کاسرکچل کرخود اس کی جگہ لینے کی دوڑ لگ گئی،دوسروں کے سر پر پیر رکھ کر اونچی جگہ پہنچنے کی روش پیدا ہوئی اور جو کسی کے سر تک نہ پہنچ سکا اس نے نیچے سے ٹانگیں کھینچ کر اپنی انا کی تسکین کا سامان کیا۔

مرنے والا معاشرہ خود کو اسلامی  معاشرہ کہلاتاتھا اوربدقسمتی سے اس معاشرے میں دوسروں کو سب سے زیادہ نقصان  بھی اسلام کے ہی نام پر پہنچایاگیا۔اسلام کے نام پر سب سے زیادہ خون بہایاگیا۔مذہب کے نام پر فرقے بندی عروج پر رہی ۔مدارس اور مساجد سے اسلام کی تبلیغ کےبجائے اپنے اپنے مذہب کی ترویج کی جاتی رہی۔ہرکسی نے صرف اپنے فرقے کو ہی خالص اسلام کا درجہ دیا دوسروں کو کافر اور موت کا حقدار قراردے کر قتل کیا جاتارہا۔پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا سربلندکرنے کا بیڑااٹھانے والوں نے مسلمانوں کو ہی سب سے بڑی رکاوٹ قراردے کر خوب قتل وغارت کی۔جہادی تنظیمیں سب سے زیادہ اسی معاشرے میں بنیں ۔

مرحوم معاشرے کی بیماریوں میں ایک بیماری دکھاوا اور ریاکاری بھی تھی جس نے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا تھا۔یہاں تک کہ نیکی کا کام بھی اللہ کی رضا کےلیے کم اور لوگوں کو دکھانے کےلیے زیادہ کیا جاتاتھا۔یہاں رہنے والے لوگ جب حج جیسے مذہبی فریضے پر روانہ ہوتے تو پورے علاقے میں اعلان کرواتے کہ فلاں ابن فلاں حج پر جارہے ہیں آپ ان کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں اور اپنی دعاؤں کی پرچیاں بھی ان کو دیں تاکہ وہ آپ کی حاجات بھی اللہ کے گھر تک پہنچاسکیں۔بسیں بھر کر لوگ انہیں رخصت  کرنے ایئرپورٹ پر جایاکرتے تھے۔ لوگ دکھاوے کے اتنے شوقین تھے کہ حج سے واپس آکر خود کو حاجی کہلاتے تھے یہاں تک کہ عمرہ کرنے والے بھی حاجی کا سابقہ لگانے میں راحت محسوس کرتے تھے ۔

 اس معاشرے نے ’’رول آف لاء‘‘ کا لفظ ایجاد کرنے والے کو بھی شرمندہ کردیا تھا ۔قانون کی حکمرانی کا اس معاشرے میں کہیں نام ونشان نہ تھا ۔بلکہ قانون کا مذاق اڑانا ،طاقت کے استعمال سے اس کی دھجیاں بکھیرنا اس میں رہنے والوں کا من پسند کام تھا۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا عملی نمونہ تھا یہ معاشرہ ۔سب لوگ طاقت کے مراکز کو سلام کرتے تھے ۔اس معاشرے میں فوج کے پاس بندوق تھی  اس کو یہ بندوق دشمن کےخلاف استعمال کےلیے دی گئی تھی اس نے دیکھا کہ بندوق تو بندوق ہے ضروری تھوڑا ہے کہ دشمن کےخلاف ہی استعمال کی جائے کیوں نہ اس کو اسی معاشرے پر حکمرانی کے طور پر استعمال کرکے دیکھاجائے لہٰذا فوج نے 1958میں تجربہ کیاجو کامیاب رہا پھر عوام کی طاقت سے حکمرانی اور بندوق کے زور پر حکمرانی میں خوب جوڑ پڑا جو اس معاشرے کے پوری طرح مرنے تک جاری رہا۔یہاں تک کہ عوام کو بھی اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سیاسی حکمران اچھے ہوتے ہیں یا فوجی حکمران۔

اس معاشرے  میں سفری سہولیات  تو عوام کو مل ہی نہ سکیں لوگ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم و کرم  پر رہے۔امیروں نے  سفر کی سہولت کےلیے  بڑی بڑی گاڑیاں خرید لیں لیکن گاڑیوں میں بیٹھنے کےباوجود ان کی ذہنیت موٹرسائیکل سوار کی رہی،سڑک استعمال کرنے کی تمیز نہ انہیں آئی اور نہ کسی نے سکھائی کہ قانون کی حکمرانی تو تھی نہیں نہ ہی انہوں نے اس کی پابندی ضروری خیال کی ۔اس معاشرے نے  دوسرے معاشروں کی دیکھا دیکھی ٹریفک قوانین بنالیے اور چوراہوں پر ٹریفک اشارے بھی  لگالیے  لیکن لوگوں کو ان اشاروں کی پابندی کرانے کےلیے ایک پولیس اہلکار کو چالان کرنے کی کتاب لے کر کھڑا کرنا پڑا۔اس کا علاج بھی امیروں نے کرلیا اور ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر رشوت کا خون ان پولیس اہلکاروں کے منہ کو لگادیا ۔۔پھر سب چلنا شروع ہوگیا۔

اس معاشرے کو شفقت،پیار،محبت،رواداری،اخلاق  نرم خوئی اور اسی طرح کی دوسری اچھی صفات جن کا مسلمان ہونے کے ناطے بھی ان میں ہونا ضروری تھا ،اچھی خاصی چڑ تھی بلکہ ان تمام صفات سے انہوں نے ٹھیک ٹھاک دشمنی پال رکھی تھی۔ پھل کھانے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے لیکن محنت کرنے سے جی چراتے تھے،یہاں رہنے والوں کوصفائی ستھرائی سے بھی اچھا خاصا بیرتھا۔حکومت نے شہروں میں صفائی بہترکرنے کےلیے نظام وضع کیا اور کوڑا ڈالنے کےلیے گلیوں میں بڑے بڑے ڈسٹ بن رکھوادیے ۔یہاں کے باسی  اپنے گھروں سے کوڑا اکٹھا کرتے ،اٹھاتے اور ڈسٹ بن کے اندر ڈالنے کے بجائے اس کے قریب باہر ہی پھینک دیتے یوں رکھی گئی ڈسٹ بن خالی رہتی اور ارد گرد کا پورا علاقہ گند سے بھرجاتا۔۔صفائی والے آتے تو پہلے سارا کوڑا اٹھاکر اس ڈسٹ بن میں ڈالتے پھر اسے اٹھاکر گاڑی میں ڈالتے۔۔۔

اس معاشرے میں میڈیا بھی تھا جس نے خود ساختہ طورپر رہنمائی کا ٹھیکہ لےلیا تھا،جب ٹی وی آزاد ہوا اور نیوزچینل دھڑادھڑآنے لگے تو بہت سے بیوپاری اس میدان میں گھس آئے ،چینلز کے ٹاک شوزپر گھس بیٹھیے افراد کا قبضہ ہوگیا۔یہ لوگ پرائم ٹائم میں ٹی وی پر عدالتیں لگاتے جو ان کو ناپسند ہوتا اس کی کلاس لیتے جوپسند ہوتا اس کی تعریفیں کرتے۔جس کی چاہتے اس کی عزت اتارتے ۔معاشرے کے دوسرے لوگ ان سے ڈرنے لگے ۔زیادتی کاشکار لڑکیوں کو شوزمیں بلواکر ان کے جنسی استحصال کے قصے مزے لےلےکرسننے لگے ۔پروگرام ختم ہونے پر خواتین معاشرے میں رسوا ہوتیں اور یہ جغادری اپنی ریٹنگ دیکھ کر خوش ہوتے ۔اس میڈیا نے بھی معاشرے کی بنیادیں ہلانے میں اپنا پورا حصہ ڈالا،لوگوں کو تقسیم کیا یہاں سے پیسا ملا اس کو ہیروجس نے انکار کیا اس کی زندگی تباہ ۔

اس معاشرےمیں باسیوں کوانصاف فراہم کرنے کےلیے عدالتی نظام بنایاگیا۔عدالت میں بیٹھے لوگوں نے ،ریڈرسے جج تک سب نے دیکھا کہ انصاف بیچ کر اچھاخاصا پیسا کمایا جاسکتاہے پھر کیا تھا انصاف سرعام نیلام ہونے لگا،ایک ایک مقدمہ سالوں پر محیط ہوگیا،عدالتی نظام کرپشن اور شوت کا گڑھ بن گیا۔عدالت کی طرح تمام سرکاری محکموں میں جائز کام بھی ناجائز بنادیے گئے اسی معاشرے کےباسیوں  نے اپنی بھوک مٹانے کےلیے دوسروں کو کنگال کرنے کے منصوبے بنائے۔

اس معاشرے کو ایک بیماری احتجاج کی بھی بری طرح چمٹ گئی تھی ۔کسی کو اپنی نااہلی اور کاہلی کی وجہ سے روٹی پانی نہ ملتا وہ دھرنا دینے کا اعلان کردیتا۔یہاں ریاست سے تنخواہ لینے والے ملازمین کا سال میں زیادہ ٹائم اپنے دفاتر میں کام کے بجائے سڑکوں پر احتجاج میں گزرجاتا۔یہاں پھیلے ٹی وی چینلز کے کیمرے اس احتجاج کو مزید بڑھانے کا باعث بنتے یہاں تک کہ یہ تاثر گہرا کردیا گیا کہ پرامن احتجاج کچھ نہیں ہوتا احتجاج میں اپنی ہی ریاست کی املاک کو نقصان نہ پہنچایا تو کیا احتجاج کیا۔شفاف الیکشن کی ٹرم انتہائی متنازع تھی ۔جیتنے والے کے نزدیک انتخاب شفاف اور ہارنے والے کے نزدیک الیکشن غیر شفاف ہوتا۔شکست تسلیم کرنے کا رواج  موجود تھا نہ اخلاقی جرات۔

لوگ اس انتقال پرملال کی خبر سن کر اکٹھے ہونا شروع ہوگئے کہ اس کے کفن دفن کا بندوبست کیا جائے ۔سبھی آپس میں مرحوم کی صفات پر بحث بھی کررہے تھے لیکن کسی بھی چہرے پر اس کے انتقال پر ابھی کوئی ملال تھا نہ مستقبل میں سدھرنے کی کوئی چاہ۔بس اس موقع پر بھی اسی حسد،دکھاوے اور نفرتوں کی باتیں تھیں۔سب لوگ قبرستان جانے لگے تو یکایک لاؤڈاسپیکر آن ہوا ۔لاؤڈ اسپیکر پر پھر ایک اعلان ہوا۔۔


حضرات ایک ضروری اعلان سنیں ۔۔۔معاشرے کے کچھ حکیم طبیعت ،منجھے ہوئے اور نبض شناس  افرادکے ایک پینل نے معاشرے  کی لاش کا جائزہ لیا ہے ان کا کہناہےکہ وہ جائزہ لےکر اس نتیجے پر پہنچے ہیں  کہ یہ معاشرہ ابھی پوری طرح مرا نہیں ہے بلکہ اپنی آخری سانسیں لےرہا ہے اگر کچھ افراد خلوص دل سے کوشش کریں تو اس کی صحت میں بہتری  کی گنجائش موجود ہے اس لیے متفقہ طورپر فیصلہ کیاگیا ہے کہ اس معاشرے کو اس کی صحت میں بہتری تک آئی سی یو میں رکھا جائےگا۔اس کے باسیوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ اس معاشرے کو مرنے سے بچانے کےلیے اپنے حصے کا کردار خلوص نیت سے اداکریں ۔