Thursday, August 14, 2014

14th AUGUST...HAPPY INDEPENDENCE DAY


جشن آزادی مبارک

پاکستان آج 68سال کاہوچکاہے۔میری عمر وطن عزیز پاکستان سے آدھی ہے میں نے اپنی زندگی میں آزادی کی 35صبحیں دیکھی ہیں لیکن آج 14اگست جیسی صبح آزادی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہاہوں ۔اس سے پہلے آزادی کا جشن منایا جاتاتھا لیکن اس میں کچھ پابندیاں بھی لگتی تھیں یہ الگ بات کہ یہ پابندیاں موٹرسائیکلوں کے سائلنسرزکے راستے ہوا میں تحلیل کردی جاتی تھیں۔گزشتہ سالوں میں آزادی کا جشن منایا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ جشن منانے کےلیے آزادی حاصل کرنے کی تگ ودو ہورہی ہے۔

پہلا یوم آزادی ہے جب ہر کسی کو آزادی ۔۔بلکہ مادرپدر آزادی ہے۔اس یوم آزادی پر عمران خان کو آزادی ہے کہ وہ جس شخص کی چاہیں پگڑی اچھالیں۔میڈیا کےکیمرے اور ایئرٹائم ان کے گھر پر ہاتھ باندھے کھڑا ہے وہ خود بادشاہ سلامت کی زندگی گزاریں لیکن وہ بادشاہ صرف نوازشریف کو ہی کہیں گے۔عمران خان کو آزادی ہے کہ وہ جس پر چاہیں دھاندلی کاالزام لگائیں اورہاں ان پر اس الزام کو ثابت نہ کرنے کی بھی مکمل آزادی ہے ۔عمران خان کو یہ بھی آزادی ہے کہ وہ رات ایک بات کہیں اور صبح اس بات سے آزادی سے مکرجائیں ۔۔۔ان کو آزادی ہے کہ وہ افتخار چودھری کی تعریف کریں،جسٹس رمدے کو منصف اعظم قرار دیں ،جسٹس ناصرالملک پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کریں لیکن اس کے بعد ان کو گالیاں دینے کی آزادی سے بھی بھرپورلطف اٹھانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔


خان صاحب فخرالدین جی ابراہیم کی تعریف کرنے میں بھی آزاد ہیں اور ان پر دھاندلی میں ملوث ہونے اور تاریخ کے بدترین الیکشن کرانے کاالزام لگانے میں بھی آزاد ہیں ۔عمران خان صاحب کو یہ بھی آزادی ہے کہ وہ طالبان کو تو پاکستان پر حکومت کرنے کی آزادی دے سکتے ہیں لیکن شریف برادران حکمران ہوں تو ان کو گھر بھیجنے کےلیے جتن کرنے میں بھی آزاد ہیں۔

عمران خان دوسروں کو ڈکٹیٹر کہنے میں آزاد ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ خود ڈکٹیٹربننے میں بھی آزاد ہی ہیں۔ان کی اسی طرح کی شخصیت اور ملک میں اسی طرح کی حکومت کی خواہش ان کی اپنی پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی کو ان سے دور لےگئی اور رعونت میں ایسے آزادکہ کہا کہ جاوید ہاشمی نے جو حرکت کی ہے اس سے تحریک انصاف کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہاشمی کو ہی نقصان ہوگا۔۔ہاشمی کو بادشاہ سلامت کا یہی پیغام ملا تو ان کی عقل ٹھکانے آگئی اور کہا کہ خان صاحب نے وضاحت کردی ہے میں اب مان گیاہوں۔

اچھا خان صاحب اپنے بیانات کی حالات و واقعات کے مطابق تشریح کرنے میں بھی آزاد ہیں وہ ٹیکنوکریٹ حکومت کا مطالبہ کریں اور جب یہ مطالبہ ان کے گلے کا ہاربننے لگے تو کہیں کہ ٹیکنوکریٹ سے مراد غیر سیاسی حکومت ہوتی ہے اور ہاشمی صاحب ان سے اتفاق کرنے میں بھی آزاد ہونے کے پابند۔


اس یوم آزادی پر ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی آزادی ہے کہ وہ ملک میں انقلاب لائیں،نظام تہہ وبالا کریں،اپنے کارکنوں کو لاہور میں جمع کریں ۔ان کا وہاں دس دن تک وہاں رکھیں،کھانا اور پانی نہ ملنے پر انسانی المیے کا باعث بنیں۔۔اپنے کارکنوں کو کہیں کہ پولیس والوں کواٹھاکر ساتھ لاہور لے آئیں ۔ کارکنوں کو کہیں کہ جو واپس جائے اس کو شہید کردیں۔ اس کے بعد دباؤ میں آکر اپنے تمام بیانات کی تردید کرنے میں بھی ڈاکٹر صاحب  آزاد ہیں۔چودھری براداران اور شیخ رشید شامل واجا ہونے میں مکمل آزاد ہیں۔

اس یوم آزادی پر حکومت شہریوں کو مکمل پابند کرنے میں آزاد ہے ۔لاہوریوں کو کنٹینروں میں قید کرنے میں آزاد ہے،شہریوں کے موبائل فون بند کرنے میں مکمل آزاد ہے۔لانگ مارچ روکنے کے عدالتی  حکم کی پابند اورکنٹینر ہٹانے کا حکم نہ ماننے میں آزاد ہے۔



اس یوم آزادی پر وطن عزیز کی معزز عدالتیں بھی مبہم فیصلے دینے میں آزاد ہیں ایسے فیصلے جس کو دونوں میں سے جو فریق چاہے اپنے مطابق قراردے ۔عدالتیں یہ فیصلہ دینے میں مکمل آزاد ہیں کہ ۔؛؛غیرآئینی لانگ مارچ اور دھرنا نہیں دیاجسکتا؛؛ اس فیصلے کے بعد حکومت کےلیے یہ دھرنا اور مارچ غیرآئینی ہے اور مظاہرین کےلیے یہ لانگ مارچ آئینی ہے ۔کرتے رہیں تشریح اس فیصلے کی ۔۔۔مجھے بھی کل پتہ چلا کہ دھرنے کی دو قسمیں ہوتی ہیں آئینی اور غیر آئینی دھرنا۔۔۔شکریہ آزاد عدلیہ


اور آخر میں اس یوم آزادی پر بھی پاکستان کے آزاد شہری ،بھوک،افلاس،بے روگاری ،ظلم اور جبر کے ہاتھوں مرنے کےلیے مکمل آزاد ہیں۔ایسے تمام پاکستانیوں کو جشن آزادی مبارک۔۔۔۔۔۔۔

No comments: