Saturday, June 27, 2015

MQM LEADER TARIQ MIR STATMENT TO LONDON POLICE



ایم کیوایم کے رہنماطارق میرکابیان

ایم کیوایم کے سینیئررہنمااور لندن میں جناب الطاف حسین کے انتہائی قریبی ساتھی اور مالی معاملات کے نگران طارق میرکا وہ بیان خفیہ ہاتھوں نے سوشل میڈیا پر جاری کردیا ہے جسے پاکستانی ٹی وی میڈیا نے مزید گرد اڑانےکےلیے ہاتھوں ہاتھ لیا لےلیا ہے ۔یہ بیان مبینہ طورپر لندن پولیس نے ریکارڈ کیا ہے ۔قارئین کےلیے اس بیان کا مکمل ترجمہ لکھ رہاہوں ۔


اس دستاویز میں اعلیٰ سطح کی معلومات ہیں
طارق میر سے انٹرویو: ٹی ایم
تیس مئی دوہزار بارہ ایجوائر پولیس اسٹیشن
موجودگی: جے این
مسٹر میر زیرحراست نہیں تھے اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر شرکت کی۔
یہ انٹرویو بڑی احتیاط سے مرتب کیا گیا اور تقریبا تین بج کر چونتیس منٹ پر شروع ہوا۔
(اس کے بعد والی سب باتیں وہ کہانی ہے جسے مرتب کرنے والےنے بیان کیا  ہے جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ انٹرویو کے دوران ان سوالات اور جوابات کو ریکارڈ کرے)
جے این:ہم نے بھارتی فنڈنگ سے متعلق محمد انور کا انٹرویو کیا ہے۔
ٹی ایم: پہلے میں نے کہا تھا کہ برطانیہ میں کوریئرز کے ذریعے آٹھ لاکھ پاؤنڈ کی رقم سالانہ بنیادوں پر آ رہی تھی۔شروع میں لیکن پھر برطانیہ میں دس ہزار پاؤنڈ کی حد (کرنسی کی درآمد پر) کی وجہ سے ہم نے کاروباری افراد کو ساتھ ملایا تاکہ یہ رقم حاصل کر سکیں اور اس سے ایم کیو ایم کے اخراجات پورے ہو سکیں۔
ایسا تقریبا ایک فیصد معاملات میں ہوا۔
یہ کہ ایم کیو ایم کے لوگ ہلاکتوں میں ملوث تھے۔
جے این: آپ کراچی میں اپنی سیاسی پوزیشن کو آگے بڑھانے کے معاملے میں ملوث ہیں، آپ بندوقوں اور بارودی مواد میں ملوث ہیں؟
ٹی ایم:میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے پاس کلنگ ٹیمز ہیں لیکن ایسے لوگ ہیں۔ایسے لوگ ہیں جو بغیر اجازت کے تشدد کرتے ہیں اور انہیں ہٹا دیا جاتا ہے، پارٹی سے
نکال دیا جاتا ہے۔
ٹی ایم: جس میں (حکیم سعید) کو قتل کیا گیا: نواز شریف نے اس مقدمے کیلئے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی: ایک شخص کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا۔دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس نے ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا۔جاوید ترک کے متعلق جہاں تک میں جانتا ہوں وہ پارٹی کا رکن نہیں تھا۔ اگر انیس خان کہتا ہے کہ وہ رکن ہے تو میں اس بارے میں نہیں جانتا۔ترک کے خط (میں) وہ لندن کو رپورٹ دینے کی بات بیان کرتا ہے کہ کام ہو گیا ہے اور پھر اس نے کلنگ ٹیمز کیلئے رقم دینے کو کہا)
بھارتی بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔میری پارٹی میں کسی نے ان کلنگز ٹیم پر بات نہیں کی۔رابطہ ٹیم نے کبھی اس پر بات نہیں کی۔
اب کلنگ ٹیمز بن چکی ہیں اور انہیں لندن سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
جے این: کیا یہ درست ہے کہ لوگوں کو ہتھیاروں کی تربیت کیلئے پاکستان بھیجا گیا؟
ٹی ایم: مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ہے۔ میں نے سنا ہے کہ لوگوں کو ہتھیاروں کی تربیت کے لئے بھیجا گیا۔
ٹی ایم: فوری طور پر ایک ملین پاؤنڈ کی فنڈنگ کی درخواست
ایک ملین پاؤنڈ گھروں سے متعلق ہو سکتے ہیں۔
بھارتیوں (منسلک) سے مزید کارکنوں کے لئے رقم کی درخواست۔ ہم نے فنڈنگ کے لئے کہا لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ بھارتی لوگوں نے کبھی ہمیٕں اتنا کچھ دیا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔کچھ رقم ہتھیاروں کی تربیت بھی خرچ ہوئی ہو گی۔ کچھ ہتھیاروں کی تربیت کے لئے لوگوں کو بھارت بھی بھیجا گیا ہو گا۔
جے این: کیا بھارتی اآپ کو اس لئے پیسے دے رہے تھے تاکہ وہ پاکستان میں کشیدگی پیدا کر سکیں اور کراچی میں ایک الگ سندھ کی ریاست بنا سکیں؟
ہم نے لوگوں کو ذاتی حفاظت کے لئے ہتھیاروں کی تربیت لینے کے لئے بھارت بھیجا۔
میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم بطور انتقام ہلاکتوں اور تشدد میں ملوث رہی ہے۔مثال کے طور پر ۔۔۔
شناخت اور عہدے۔جہاں تک میرا خیال ہے وہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینیلسز گروپ (را) سے تعلق رکھتے تھے۔سینئر شخص بہت بڑا عہدیدار تھا اور اس کی پہنچ انتہائی اعلیٰ سطح/وزیراعظم کی سطح تک تھی۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ ہم نے کتنی رقم مانگی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ ڈیڑھ ملین امریکی ڈالر۔مجھے نہیں پتا کہ انہوں نے ہمیں کیا دیا۔یہ سب کچھ حسین کو ملا۔ایک مرحلے پر ہمارے
اخراجات (سیکرٹریٹ کے) تقریبا ایک کروڑ پاؤنڈ ماہانہ تھے۔

مجھے پتا تھا کہ بھارتی رابطے کی وجہ سے ہماری فنڈنگ میں قابل ذکر اضافہ ہو گیا ہے۔یہ فنڈنگ کتنی دیر جاری رہی میں اس بارے میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتا۔
میٹنگ دوہزاردس میں ہوئی تھی (میرے خیال میں روم میں) اور ہمیں پیسے مل گئے۔شروع میں رقم امریکی ڈالرز میں ملتی تھی لیکن اسے سٹرلنگ میں تبدیل کرانے میں وقت لگتا تھا چنانچہ کچھ وقت کے بعد انہوں نے ہمیں ڈالرز کی بجائے سٹرلنگ میں ادائیگی شروع کر دی۔
ہم نے کئی طریقوں سے رقم حاصل کی۔کچھ رقم کو ایک بینک اکاؤنٹ میں بھیجا جاتا تھا یا یہ رقم پاکستان میں کسی جگہ  ہوتی تھی اور اسے تبدیل (؟) کیا جاتا تھا اور  پھر ہمیں دیا جاتا تھا۔
تمام رقم مسٹر ایچ کو ملتی تھی۔یا ایک تیسری بات (فنڈز کا ذریعہ) شاید رقم یا چیک کی صورت میں مسٹر ایچ کو دیا جاتا تھا۔یا پھر بھارتی ہاتھ (؟) سے مسٹر ایچ کو ملتی تھی۔رقم کو یا تو مسٹر ایچ کو حوالے کے ذریعے دیا جاتا تھا (؟)۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتاکہ مسٹر ایچ تک رقم کون پہنچاتا تھا۔یہ کام مسٹر انور کے ذریعے ہو سکتا تھا۔کیونکہ میرے علاوہ انور اور ڈاکٹر ایف کو اس بارے میں پتا تھا۔جہاں تک میں جانتا ہوں ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ بات سامنے آئے کہ ایم کیو ایم بھارت سے فنڈز لے رہی تھی۔یہ بہت خفیہ تھا۔
میں نے سب سے زیادہ جو رقم لی تھی وہ گھر خریدنے کے لئے تھی۔لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ رقم کا کتنا حصہ بھارت سے آیا تھا۔میں کہوں گا کہ گھروں کے لئے فنڈنگ کا زیادہ تر حصہ بھارتی پیسے سے آیا۔
میں نے پہلے کہا کہ لندن کو سالانہ آٹھ لاکھ پاؤنڈ ملتے تھے (اس میں گھر خریدنے کی قیمت شامل نہیں تھی)۔یہ رقم بالکل مستقل رہی تھی۔
جے این:بھارتی رقم
ٹی ایم: ہم ہر جگہ سے رقم کی تلاش میں تھے۔بھارتی ہم تک پہنچے۔پاسپورٹ کے بغیر لوگوں کے متعلق سوالات وغیرہ پوچھے گئے۔
تقریبا انیس سو چورانوے میں ہم  نے کچھ رقم حاصل کرنا شروع کر دی۔ہمارے کچھ منجمد اکاؤنٹ کھول دیئے گئے۔انیس سو پچانوے/چھیانوے میں میں نے نصرت سے مالی معاملات کا کنٹرول لے لیا اور یہ رقم بھارت سے آ رہی تھی۔مسٹر حسین کو اس کا علم تھا۔
مسٹر ایچ بھارت سے رقم لے رہے تھے۔ایچ نے مختلف ذرائع سے رقم حاصل کی۔
بھارتی حکومت نے ہمیں اس لئے پیسے دیئے کیونکہ اسے لگتا تھا کہ ہمیں سپورٹ کرنا اچھی بات ہے۔مجھے یاد نہیں کہ میں پہلی مرتبہ بھارتیوں سے کب ملا ۔میں ان سے ملا تھا۔
(بھارتیوں کے ساتھ) پہلی ملاقات ویانا یا روم میں ہوئی تھی۔انور (اور حسین؟) موجود تھا۔ہماری تین یا چار ملاقاتیں ہوئیں۔ایک تو یقینا روم میں تھی اور ایک ویانا میں، ایک زیورخ میں ہوئی اور ایک چھوٹے شہر آسٹریا (سالٹس برگ) میں ہوئی۔اور ایک ملاقات پراگ میں ہوئی۔
پہلی ملاقات شاید روم میں ہوئی تھی۔ملاقاتیں تب ہوتی تھیں جب بھی وہ ہم سے ملنا چاہتے تھے۔ملاقاتوں کا مقصد ایک دوسرے کو سمجھنا تھا۔مجھے یقین ہے کہ ان کے نام اصلی نہیں تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی۔۔۔
جے این:بھارتیوں سے ملاقات
سربراہ آیا کرتا تھا۔بھارت سے کل چار لوگ اآتے تھے۔نمبر ٹو کو بدل دیا گیا۔ملاقات زیادہ لمبی نہیں چلتی تھی۔گپ شپ ہوتی تھی۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ پاکستانی سیاست میں میں عمومی طور پر کیا ہو رہا تھا، علاقائی سیاست میں اور کیونکہ افغان اور طالبان: ہم نے کراچی میں ہونے والے واقعات پر بات کی۔وہ لنچ کرتے تھے۔بنیادی طور پر وہ مسٹر حسین سے ملنا چاہتے تھے تاکہ ہمارے درمیان رابطہ کھلا رہے۔
جے این:
میں ٹریول ایجنٹس سے ٹکٹیں خریدتا تھا۔کبھی اس جگہ براہ راست نہیں جاتا تھا جہاں میٹنگ ہوتی تھی مثال کے طور پر روم براستہ فرینکفرٹگیا۔بھارتی ہی ہمیشہ ملنے کی تاریخ اور مقام کا تعین کرتے تھے۔ہمیں صرف دو دون کا نوٹس دیا جاتا تھا۔ہم فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ملتے تھےجس کا انتظام وہ کرتے تھے۔بعد کی میٹنگز میں بھارتی مسٹر انور سے رابطہ کر کے میٹنگز طے کرتے تھے۔میں کبھی بھی ڈاکٹر ایف کی موجودگی میں بھارتیوں سے نہیں ملا۔
وہ مسٹر انور کے ساتھ بھارت گئے۔
ٹی ایم:مجھے کوئی علم نہیں کہ ہم بدلے میں ان کو کیا دے سکتے تھے۔جب ہم حکومت میں تھے تو ہمارے پاس اس حکومت میں کوئی اختیارات نہیں تھے۔جب میں بھارتیوں سے ملا تو میں نے نہیں سنا کہ ہم نے ان سے کوئی خاص بات کہی ہو جو ہم ان کے لئے کر سکتے تھے۔
میں یہ کہوں گا کہ بھارتیوں سے ملاقاتوں میں تربیت بھی شامل تھی۔جہاں تک مجھے علم ہے تربیت دی گئی تھی۔۔اسلحے کی تربیت۔انیس سو چھیانوے کی بات کرتیں تو جب ایم کیو ایم بنی تھی تو اس نے تربیت دی تھی۔میرا خیال ہے کہ یہ بھارتیوں سے بات چیت کا حصہ تھی۔
جے این: ہمیں بتایا کہ ہتھیاروں کی تربیت کا تعلق شورش سے تھا یا ذاتی حفاظت سے؟
ٹی ایم: میں ہتھیاروں کی تربیت یا فنڈنگ کی تربیت میں شامل نہیں تھا۔

طارق میرکون ہیں؟

طارق میر پیشے کےاعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں جو پاکستان سے لندن میں تعلیم کےلیے گئے لیکن تعلیم مکمل کرنے کےبعد پاکستان واپس لوٹنے کے بجاے وہیں قیام
کیا اور ایم کیوایم کے رہنما محمد انور کی فرم میں ملازمت اختیار کی،انتہائی ذہین اور قابل ہونے کی وجہ سے بہت جلد اس فرم کے مالی معاملات میں انتہائی اہمیت حاصل کرلی۔محمد انور کی وجہ سے ہی ایم کیوایم میں شامل ہوگئے اور ایم کیوایم کے مالی معاملات کے نگران بن گئے۔ایم کیوایم کے لندن سکریٹریٹ میں جو بھی پیسا کسی بھی ذرائع سے آتا ان کو اس کا علم ہوتاتھا۔طارق میر آج کل بھی لندن میں ہی مقیم ہیں۔