Monday, August 31, 2015

ZARDARI STATMENT...END OR START OF POLITICS?



زرداری صاحب دوڑاپنی اپنی

نواز شریف کےخلاف زرداری صاحب کےآگ اگلتے بیان سے پریشان ہونے کی ضرورت چنداں نہیں ہے،نہ حکومت کونہ عوام کو،ان کی پارٹی ملکی سیاست میں مسلسل غیر متعلق ہورہی ہے جس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود زرداری صاحب اور انکی موجودہ اور ماضی کی حرکتیں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے زوال کی وجہ ن لیگ سے تعاون اور مفاہمت ہے،پیپلزپارٹی جس کو مفاہمت کہتی ہے وہ
دراصل مفاد ہےاور اسی مفاد پراس نے پانچ سال حکومت کی اور اگلے پانچ سال کےلیے نوازحکومت کےخلاف کوئی پریشانی نہ پیدا کرنے کا وعدہ کررکھاہے،ایسا ہی وعدہ نواز شریف نے نہ صرف کیا تھا بلکہ اس کونبھایابھی تھا۔

بہت پرانی بات نہیں زرداری حکومت کے پہلےڈھائی سال اور آخری ڈھائی سال کا ریکارڈ نکال کردیکھ لیں اس دور میں نوازشریف اور ان کی پارٹی کارویہ پیپلزپارٹی کے لیے اتنا ہی نرم اورمفاہمت والا تھا کہ ن لیگ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی حکومت کا حصہ ہی لگتی تھی بلکہ ایسے ہی جیسے پہلے ڈھائی سال پیپلزپارٹی ن لیگ حکومت کا حصہ لگتی رہی ہے،زرداری حکومت کے آخری ڈھائی سالوں کا تجزیہ بھی کرلیں جس میں ن لیگ نے بھرپور اپوزیشن کی اور کئی جگہ پر خومخواہ بھی کی۔نوازشریف کالاکوٹ پہن کرمیموگیٹ کے مدعی بن گئے،شہبازشریف نے صدر ہوتے ہوئے بھی زرداری کا کبھی لاہور میں استقبال نہ کیا،لوڈشیڈنگ کےخلاف ہاتھ والے پنکھوں کے ڈرامے کیے،زرداری کو گلیوں میں گھسیٹنے کی باتیں کی،جب بے وقوف عوام کویقین ہوگیاکہ ن لیگ ہی حقیقی اپوزیشن اور ملک کی خیرخواہ اور اگلی حکومت کی حقدار ہےتواس کو حکومت دے دی گئی۔۔حکومت بنی تونوازشریف نے میموگیٹ والا کوٹ اتاردیا،حسین حقانی جو غدار تھا واپس امریکا چلاگیااور نوازشریف وزیراعظم ہاوس چلے گئے،گلیوں میں گھسیٹنے والی باتیں سیاسی نعرے قرارپائےاور زرداری صاحب اتنے ہی عزیزہوگئے جتنی ان سے نفرت کادکھاواکیاجاتارہا۔

نوازحکومت کے ڈھائی سال پورے ہوچکے ہیں ،پیپلزپارٹی کا اس سیاسی ڈرامے میں مفاہمتی کرداربھی اب آخری مراحل میں داخل ہوچکاہے،نوازاور زرداری نے 2008میں اسکرپٹ لکھتے وقت جو نہیں سوچاتھا وہ تحریک انصاف کی اس سیاسی ناٹک میں انٹری تھی اس انٹری سے پہلے پہل تو خطرہ
اورنقصان ن لیگ کا ہی تھا کہ پنجاب کاووٹر دائیں بازو کو ووٹ دیتا رہا ہے اس لیے ستر کے بعد  پیپلزپارٹی کی دال یہاں کبھی نہیں گلی لیکن پی ٹی آئی کی شکل میں پنجاب میں دائیں بازو کی جماعت کامقابلہ اب انتہائی دائیں بازو والی جماعت سے پڑچکاہےاوراس کھیل میں پیپلزپارٹی شطرنج سے کہیں دورباہر جاتی نظر آرہی ہے،سندھ میں کرپشن وغیرہ پر گرفتاریوں سے کچھ خاص نہیں نکلے گا،پاکستان جیسے ملک میں کرپشن پر کیسزکرپٹ افراد کو کلین چٹ دینے کےلیے بنتے ہیں،ڈاکٹر عاصم اور قاسم ضیاء بھی کلین چٹ لے کرضمانت پر باہر آجائیں گے،نہ پراسیکیوشن ہوگی نہ عدالتیں سزا دے سکیں گی۔پیپلزپارٹی کو کرپشن پر گرفتاریوں سے کہیں بڑھ کر ان کی بے توقیرہوتی پارٹی اور اگلے الیکشن میں کم ہوتا ہوا حصہ ہے۔۔

پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ شاید ان کی پارٹی کے زوال کی وجہ ان کی نواز حکومت کے ساتھ قربت اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردارہے۔انہوں نے بھی وہی اسٹیٹجی طے کی تھی جو ن لیگ نے پچھلا الیکشن جیتنے کےلیے طے کی تھی ۔پی پی وہ اسٹیٹجی دہرائے گی لیکن اسے وہ کامیابی نہیں ملے گی جو ن لیگ
کو ملی تھی کیونکہ اب عمران خان مضبوط امیدوار کے ساتھ ن لیگ سے مقابلہ کرنے والے ہیں۔پیپلزپارٹی کوپنجاب اور دوسرے صوبوں سے پہلے ہی امید نہیں تھی اب سندھ میں بھی عمران خان کی مضبوط ہوتی جڑیں اسے سخت لب ولہجے پراکسارہی ہیں۔


اب کسی کو بھی پیپلزپارٹی کی اس غیر مفاہمانہ سیاست سے کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیئے اور ہاں میاں صاحب بھی اوپر اوپر سے گلے لگانے کی بات کریں گے لیکن کریں گے کچھ نہیں اور اندر ہی اندر ایک پیغام ضروردیدیں گے کہ زرداری صاحب میرے پانچ سال پورے کروانے کےلیے شکریہ لیکن آگے دوڑ اپنی اپنی۔۔۔۔