Wednesday, September 17, 2014

A RUDE AWAKENING.....FLOOD COMMISSION REPORT 2010


چڑیاکےشکارکےلیےتوپ کااستعمال


جسٹس منصورعلی شاہ کی رپورٹ کے ٹائٹل کاعکس

  اکتیس جولائی 2010دن ڈھائی بجے جب پاکستان کی اکثر آبادیاں سیلاب میں ڈوب رہی تھیں،دریائے سندھ اوقات سے باہر کسی کے قابو میں آنے کےلیے تیار نہیں تھا،حکومت اس سیلاب کے آنے اور نقصانات سے بچنے کی پوری تیاری نہ کرکے شرمندگی کے سیلاب میں بہی جارہی تھی کہ میانوالی میں دریائے سندھ پربنے جناح بیراج کےقریب شگاف پڑگیا،معاملہ حکومتی کنٹرول سے باہرنکل گیا توضلعی انتظامیہ میں سے کمشنر میانوالی محمد افضل اورڈی پی او راناعبدالجبار نے اس شگاف کے قریب واقع میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجرسے مدد کی درخواست کی اور کہاکہ آپ کچھ مشینری ہمیں دے دیں تاکہ اس شگاف کو پر کیاجاسکے۔سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجرمحمد اکرم نے فیکٹری مالک محمد سعید سہگل سے اجازت طلب کی فیکٹری مالک سعید سہگل نے اپنے جنرل مینیجر کو اجازت دیتے ہوئے فوری انتظامیہ کی مددکرنے کوکہا،مالک سے اجازت ملنے کےبعد جنرل مینیجر نے20ڈمپراور مل کے تین ملازم روانہ کردیےاس وقت دن کے ڈھائی بجے تھے۔یونہی وہ لوگ مشینری لےکر نکلے تو جناح بیراج سے کافی دور ان کو روک دیاگیا،انہیں بتایاگیا کہ اس وقت وزیراعلیٰ جناح بیراج کا دورہ کررہے ہیں اس لیے کوئی بھی ان کے وہاں سے جانے تک جناح بیراج پر نہیں جاسکتا۔یہ ٹیم جو ایمرجنسی میں شگاف پر کرنے کےلیے بلائی گئی تھی وہیں پھنس کررہ گئی اور پانی آبادیوں کو ڈبوتاہواآگے بڑھتا رہا۔ڈھائی گھنٹے بعد وزیراعلیٰ جناح بیراج سے واپس گئے تو اس ٹیم کو آگے جانے کی اجازت ملی ۔یہ ٹیم جب شگاف کے مکان پر پہنچی تو دن کے ساڑھےچار بج چکے تھےاور بہت دیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔
یہ بیان میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے جنرل مینیجر محمد اکرم نے2010کےسیلاب کی تحقیقات کےلیےبنائے گئے لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے سامنے دیا۔اس کمیشن کی سربراہی جسٹس منصور علی شاہ نے کی انہوں نے چار سوصفحات پر مشتمل رپورٹ لکھی جس کا عنوان انہوں نے رووڈ اویکننگ رکھا جو جسے پاکستان میں سیلاب اور محکمہ آبپاشی کی کوتاہیوں کی نشاندہی کے لیے مشعل راہ اور تاریخی دستاویز قراردیاجاسکتاہے۔۔


فیکٹری کے جنرل مینیجر کے بیان کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ قدرتی آفات کے بعد متاثرین کی بحالی کے لیے حکومتی کاوشوں کو بجا طور پر مثبت قراردیاجسکتاہے لیکن ایمرجنسی کے دوران وزرائے اعلیٰ سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کے دورے کسی صورت فائدہ مند نہیں ہوتے۔انہوں نے کہاکہ یہ اس سسٹم کی ناکامی اور نظام کے منہ پر بدنما داغ ہے کہ جس نظام کو خود بخود کام کرنا چاہیئے اس سے کام لینے کےلیے دھکا لگانا پڑتاہے اور جو کام مقامی سطح پر ایک چیف انجیئر یاایکسئین کو کرنا چاہیئے وہ کام ایک وزیراعلیٰ کو کرنا پڑتا ہے یا اس کی رفتارتیز کرنے کےلیے ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو آنا 
پڑتا ہے ۔جس سے ایک تو بھاری رقم خرچ ہوتی ہے اور دوسرا تمام بیوروکریسی اور اس علاقے کی حکومتی مشینری اس دورے کی دیکھ بھال میں لگ جاتی ہے یوں بہت سی ضروری چیزیں اور فوری توجہ کے طالب مسائل  حل نہیں ہوپاتے۔


اس طویل رپورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے اور بھی بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی انہوں نے محکمہ آبپاشی پنجاب کے اس وقت کے سیکرٹیری رب نواز کو اس ساری تباہی کا مرکزی ملزم قراردے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کی سفارش کی لیکن پنجاب حکومت نے انہیں صرف تبدیل کرکے ایک وفاقی محکمے کا سیکریٹری لگادیا ۔چونکہ رب نواز کا تعلق بیوروکریسی میں ڈی ایم جی جیسے طاقتور گروپ سے تھا اس لیے پنجاب کی حکومت اس کے خلاف کارروائی کی جرات ہی نہ کرپائی۔

کمیشن نے واضح کہاکہ دریاؤں کے قریبی علاقوں میں تعمیرات نہ ہونے دی جائیں اور وہاں آبادیاں قائم نہ کرنے دی جائیں کہ یہ لوگ وقت آنے پر حق ملکیت ظاہر کرکے اٹھنے سے ہی انکار کردیتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔لیکن حکومت یہ بھی نہ کرپائی۔

حکمرانوں سمیت ہم پوری قوم کا وطیرہ ہی ڈھنگ ٹپاؤ ہے ۔جب آفت سر پر پڑتی ہے تو ایک سرے سے دوسرے تک بھاگے پھرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس آفت کا پیشگی اندازہ لگانے اور تیاری کی زحمت نہیں کرتے۔اس نظام کو مضبوط نہیں کرتے۔ملک میں ترقی ریاست کی مضبوطی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے اس نظام کو اس قدر فعال بنانے کی ضرورت ہے کہ چڑیا کے شکار کےلیے غلیل کےبجائے توپ کے استعمال سے بچاجائے۔

No comments: