Saturday, October 24, 2015

WORLD POLIO DAY:CAN PAKISTAN BE A POLIO FREE ?



پاکستان پولیوکی دیوارگراسکےگا؟

پاکستان میں جومسائل غریب اور مڈل کلاس لوگوں سے جڑے ہوتے ہیں وہ نہ کبھی حل ہوتے ہیں اور نہ ہی حکمران انہیں اتنابڑاہونے دیتے ہیں کہ ان کے اقتدار کےلیے خطرہ بن جائیں۔2014تک پولیو بھی پاکستان کے غریبوں کامسئلہ تھا،ہرسال ڈیڑھ دو سو غریب بچے اپاہج ہوجاتےاورکسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا،دنیااس بہانے پاکستان کو اچھے خاصے پیسے دیتی ،ملک میں زرمبادلہ آتااورہر سال ایک کنٹرول تعداداپاہج بن کر پولیو کو زندہ بھی رکھتی لیکن 2014پاکستان کے غریبوں کےلیے رحمت بن کر آیا جب پولیوغریبوں کے ساتھ ساتھ امیروں اور رولنگ ایلیٹ کامسئلہ بھی بننے لگا،صرف ایک سال میں پاکستان میں تین سوسے زائد بچے پولیوکاشکار ہوگئے ،پاکستان سے پولیووائرس دوسرے ممالک میں ایکسپورٹ ہونے کانظریہ سامنے آنےلگاتوپولیو فری ممالک نے پاکستان کی رولنگ ایلیٹ کے گرد شکنجہ تنگ کرنا شروع کردیا،پاکستان سے باہر سفر پابندیوں کاشکارہونے لگا،2015کےآغازمیں ایسا ہوبھی گیا جب پاکستان سے باہر جانے
پاکستان میں اس سال پولیوکےاعدادوشمار
والے ہرشخص کو پولیو سے بچاؤکی دوا پی کر سرٹیفیکیٹ لینالازمی قراردیاگیا اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔پہلےملک میں پولیوسےکسی کو خاص فرق نہیں پڑتاتھا لیکن جب امیروں کے بیرون ملک جانے میں پولیورکاوٹ بننے لگاتویہ ایک سنجیدہ مسئلے کےطورپر ابھرآیا،شاید اسی کی برکت ہے کہ 2014میں 306پولیوکیسز سامنے آئے تھے اور اس سال اب تک 10 ماہ میں صرف38بچے پولیو کاشکار ہوئے ہیں اگر یہ سفری پابندیاں اسی طرح برقراررہیں توامید ہے ہم آئندہ چند سالوں میں اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اس وقت دنیا میں صرف 2ملک ایسے ہیں یہاں پولیو موجود ہے ان میں سے ایک پاکستان اور دوسراافغانستان ہے،بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی اس بیماری سے جان چھڑاچکے ہیں ،بھارت میں آخری کیس 13جنوری2011کو کلکتہ سے رپورٹ ہواتھا،یوں 24جولائی 2014میں بھارت کوورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پولیو فری قراردینے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا،جس سال بھارت کو پولیوفری ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملا اس سال سرحد کے اس پار306بچے پولیوسے مفلوج ہوچکے تھے۔

سن 1978میں جب ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا سے چیچک کی بیماری کا خاتمہ کرلیا تو پولیو اس کا اگلاٹارگٹ بن گیا،پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پر ڈاکٹرالبرٹ سیبن نے1961میں کام شروع کیا۔یہ اورل ویکسین سیبن ویکسین کے نام سے بھی جانی جاتی ہے ۔ڈاکٹر جان سلک اس ٹیم کے اہم رکن تھے جن کےیوم پیدائش
24
اکتوبرکودنیا بھر میں پولیوڈے کے طورپر منایاجاتا ہے۔1985میں یہ اورل پولیوویکسین پلائے جانے کےلیے تیار تھی۔1988میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے روٹری انٹرنیشنل کی کاوشوں سے ایک قراردادکےذریعے دنیا سے پولیوختم کرنے کا عزم کیااور دنیا میں  اس مرض کے خلاف ایک تحریک شروع کی گئی ،1988میں دنیا بھر میں ساڑھے3لاکھ بچے پولیو کاشکار تھے،جن میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب بھارتی تھے۔صرف بارہ سال بعدسن 2000میں دنیا میں صرف4ہزاربچے اس مرض کاشکارتھے جن میں ہندوستان میں پولیو کا شکاربچوں کی تعدادصرف265تھی۔

سن 2002میں بھارت کی صورتحال پاکستان سے ابتر تھی جسے دیکھتے ہوئے ڈبلیوایچ اوکےپولیوپروگرام کے سربراہ ڈاکٹربروس ایل ورڈ نےکہا تھا کہ لگتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھرسے پولیو ختم ہوجائے گالیکن ہندوستان سے ختم نہیں ہوگا۔ڈاکٹرایل ورڈ کے اس جملے کو دونوں ممالک نے ہی جھوٹ کردکھایا،بھارت نے اپنے ملک سے پولیوکوشکست دیدی اور پاکستان ابھی بھی دنیا کے طعنے سن رہاہے۔بھارت سے پولیو ختم ہونے کےبعد دنیاکی 80فیصد آبادی پولیو فری ہےجبکہ افریقاکاملک نائیجیریا پاکستان اورافغانستان کےساتھ تیسرا ملک تھا جو اس بیماری میں مبتلاتھاوہاں بھی آخری کیس 24جولائی 2014کورپورٹ ہواتھا۔نائیجیریاکو بھی ایک سال کےلیے پولیو فری ہونے کاسرٹیفیکیٹ مل گیا ہے اب صرف پاکستان اور افغانستان نے ہی اس بیماری کو سنبھال رکھاہے۔
سن1988سے2015تک پولیوکےخاتمےکاسفر

روٹری اور گیٹس فاؤنڈیشن جیسے بڑے ڈونرامید کررہے ہیں کہ 2020تک دنیا سے پولیو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، یہ سوال میں نے جب نئی دلی میں روٹری انٹرنیشنل کے سربراہ دیپک کپوراور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےکےفوکل پرسن ڈاکٹر
روٹری انٹرنیشنل بھارت کے سربراہ دیپک کپور کےساتھ دلی میں
سنیل بہل کے سامنے رکھا کہ بھارت کےتجربے کوسامنےرکھتےہوئےبتائیں کہ پاکستان سے پولیوکیسے ختم ہوسکتا ہے؟ہوبھی سکتا ہےیانہیں تودونوں کا کہناتھا کہ پولیو ختم کرنے کےلیے تمام اداروں کو مل کر ایک آخری کوشش کی سخت ضرورت ہے پولیوکی دیوارگررہی ہے اس گرتی دیوار کوایک دھکالگایاجاناضروری ہے اگر عوام ،حکومت اورڈونرزمل کر ایک دھکالگادیں تودنیا سے پولیوکاخاتمہ ہوجائے گا۔اس کےلیے شاید ہمیں 2020کابھی انتظار نہ  کرناپڑے۔امید ہے ہم مل کر یہ آخری دھکا لگاکراس دیوارکوکرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

No comments: