Friday, October 17, 2014

ELECTION IN MULTAN NA 149






ملتان الیکشن میں منافقت کی جیت


عجب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

ہم بھی کیا اعلیٰ پائےکے منافق ہیں کہ پراکسی وار لڑنا  محبوب ترین کام ۔۔۔ پوری دنیا کی کٹھ پتلیاں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں اور ہم اپنی اوقات سے باہر جاکر اپنی پتلیاں نچانے کی بات کرتے ہیں۔افغان جنگ  میں روس ہارجائے تو کریڈٹ اہنے نام کہ ساری جنگ ہم نے ہی لڑی اور پلان کی لیکن اگر امریکا بہادر مارمار کر دنبہ بنادے تو صاف کہہ دیاجائے کہ ہمارا اس جنگ میں کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے بھی 



ملتان میں پراکسی الیکشن لڑا۔دونوں کو ڈر تھا کہ کہیں ہار گئے تو دھچکا لگے گا،لیکن تحریک انصاف نے خرگوش کو بلا قراردے دیا اور ن لیگ والے شیر پر بالٹی رکھ کر نکل پڑے۔تحریک انصاف منافقت میں نمبر لے گئی کہ ملتان کے مخدوموں میں اینٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا بیر ہے اس لیے شاہ محمود قریشی کو کسی صورت منظور ہی نہیں تھا کہ جاوید ہاشمی جیت جائے ۔۔۔انہوں نے منصوبہ سازی کی اور اس منصوبہ سازی میں عمران خان کی سچائی ،تبدیلی اور انصاف کا سودا کیا۔۔کہا جاتا ہےکہ عمران خان ایک سچے لیڈر ہیں صاف گو ہیں ۔۔میں تسلیم کرتا ہوں  لیکن اکیلے عمران خان سچ بولتے رہ جائیں گے تبدیلی پر لیکچر دیتے رہ جائیں گے اور ان کے دائیں بائیں اسٹیٹس کو کے حامی انہیں بیچ کر کھاجائیں گے۔۔۔اور پاکستان کو ایک اور اصغر خان مل جائے گا کہ پہلے والے اب کارآمد نہیں رہے۔

ملتان میں تبدیلی اور نئے پاکستان کی جیت پر اترانے والوں پر ہنسی آتی ہے، کیسی تبدیلی ،کیسا نیا پاکستان کہ تحریک انصاف جس سسٹم کے خلاف جدو جہد کررہی جس نظام کو بدلنےکےلیے ایک کنٹینر پر سوار ہے اسی سسٹم کے تحت ایک بار پھر صرف بغض معاویہ میں ایک ایسے امیدوار کو پیپلزپارٹی سے الگ کرکے اپنا وزن ڈال دیا جس کا باپ پیسے دے کر پیپلزپارٹی کا سینیٹر بنا ۔جس کے باپ صلاح الدین ڈوگر پر یوسف رضا گیالنی کے سب سے بڑے فناسر کا الزام لگتارہا ۔جو ملتان مٰیں ایک رسہ گیر اور قبضہ مافیا کی شہرت رکھتا ہے ۔اس کو پیپلزپارٹی سے نکال کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں اتار کر اس کے اشتہاروں پر شاہ محمود قریشی کی تصویریں لگادی گئیں اور اس کے نشان خرگوش کو بلا قرار دے کر تحریک انصاف میدان میں نکل پڑی۔۔۔یہ الیکشن بھی اسی ریاض کیانی نے ہی کروایا ہے جس کو عمران خان گالیاں دیتے ہیں ۔۔اگر اس سسٹم سے اتنے ہی ناراض ہیں تو پھر الیکشن لڑنے کی جلدی کس لیے؟

اس الیکشن میں بھی ویسے ہی ریٹرننگ افسر،ویسی ہی متنازع سیاہی اسی طرح بیلٹ پیپرز لائے اور بانٹے گئے تو کیا یہ الیکشن صرف اس لیے درست اور قابل قبول کہ وہاں آپ کی جیت ہوئی یا پھر آپ کے خلاف بغاوت کرنے والے اور آپ کی اس خود کش تحریک کو ناکام کرنے والے کی ہار پر آپ بگلیں بجاتے پھررہے ہیں؟ اتنے واضح تضادات کس لیے ؟ آپ خود کنفیوز ہیں تو خدا را اس ملک کے دماغ کی دہی کرنا تو بند کردیں یہاں پہلے ہی بہت کنفیوزن ہے۔

اس حلقے میں کامیابی تو صرف اتنی ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ واپس جیت لی کہ ضمنی الیکشن میں ایسے ہی ہوتا ہے ۔اور اب کیا ہوگا کہ عامر ڈوگر نے آج اٹھتے ہیں تحریک انصاف میں شمولت کا اعلان کردیا ہے ۔۔تحریک انصاف اسمبلیوں سے پہلے ہی استعفے دے چکی ہے تو اب عامر ڈوگر بھی کیا حلف اٹھانے جائیں گے اور استعفیٰ دے کر واپس آجائیں گے یا وہ بھی پہلے پندرہ ایم این ایز کی طرح عمران خان کے فیصلے کے خلاف اسمبلیوں میں موجود رہیں گے ؟ کیا یہ مفاقت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟

دوسری طرف ن لیگ نے اپنا امیدوار کھڑا کرنے کےبجائے اپنی حمایت جاوید ہاشمی کے پلڑے میں ڈالی کہ اگر جیت گئے تو تحریک انصاف کی شامت لائیں گے کہ لوگوں نے دھرنوں اور جلسوں کو مسترد کردیاہے لیکن اگر ہار گئے تو وہی منافقت کہ ہم نے تو الیکشن لڑاہی نہیں وہ تو مقامی کارکن تھے جنہوں نے خود سے حمایت کی۔۔۔تیسری طرف پیپلزپارٹی جس کے مخدوم گیلانی نے اپنا امیدوار کھڑا کیا اور اصولوں کی بات کہہ ڈالی ۔۔۔یہ کیسے اصول ہیں کہ پہلے اس حلقے میں امیدوار کھڑا نہ کرنے کا اعلان کیا تاکہ ہاشمی کےلیے راستہ کھلا چھوڑدیاجائے جب عامر ڈوگر پارٹی چھوڑ کر مضبوط امیدوار کے طورپر میدان میں آگیا تو وہی ن لیگ والی منافقت کہ اگر ہاشمی ہار گیا تو ن لیگ کے ساتھ ہماری بھی بدنامی ہوگی ۔اس لیے اصولی طورپر اپنا امیدوار کھڑاکرنا چاہیئے تاکہ غیر جانبداری کا تاثر قائم رکھ سکیں۔۔

یہ ہیں ہمارے رہنما جو ہماری رہنما ئی کےلیے جھوٹ ،فریب اور منافقت کو ہتھیار بنا کر اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں اور پھر اصرار کرتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اس کو سچ مان کر یقین بھی کیا جائے؟

No comments: