Sunday, October 12, 2014

DR, TAHIR UL QADRI'S POLITICAL STRUGGLE

ڈاکٹرطاہرالقادری کی سیاسی جدوجہد

’’تحریک منہاج القرآن کے قیام کا مقصد پاکستان میں مصطفوی انقلاب برپاکرنا ہے،اس مصطفوی انقلاب کامطلب ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کا نظام قائم کیاجائے،مسلمانوں کا قبلہ واشنگٹن سے بدل کر مدینہ منورہ بنادیاجائے۔اس انقلاب کو برپا کرنے کےلیے قوت نافذہ (اقتدار،حکومت) کاحصول ضروری ہے،،

یہ اقتباس میں نے تحریک منہاج القرآن کے منشور پر مبنی کتابچے سے لکھا ہے جو 1980کی دہائی میں شائع ہوا۔

اس منشورمیں یہ ذکر توکردیا گیا کہ انقلاب کےلیے قوت نافذہ ضروری ہے،لیکن یہ قوت کیسے حاصل کی جائےگی اس کا تعین نہیں کیا گیا،یہاں کافی ابہام موجود ہے ۔یہ بات جان بوجھ کر چھوڑی گئی کہ اس کاطریقہ کار نہ پہلے دن متعین تھا نہ آج ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس قوتِ نافذہ کے حصول کےلیے اپنی جدوجہد 1980کے آغاز میں شروع کی جب وہ جھنگ سے لاہور منتقل ہوئے اور شادمان مسجد میں خطبہ جمعہ دینا شروع کیا جو بعد ازاں اتفاق مسجد گیا،اور جنرل ضیاء کے زمانے میں پی ٹی وی پر باقاعدگی سے درس قرآن بھی اسی دعوتی جدوجہد کا حصہ تھا۔دس سال جدوجہد کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے طاقت (قوت نافذہ)کے حصول کا روایتی راستہ (الیکشن) اپنانے کا فیصلہ کیا۔اب ایک بار پھر انہوں نے 50دن دھرنا دینے کےبعد الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اس اعلان کو پورے پاکستان میں خوش آمدیدکہا جارہاہے۔ اس سے پہلے عوامی تحریک دومرتبہ الیکشن کے بازارمیں اپنے آپ کو پیش کرچکی ہے۔


25مئی 1989وہ پہلا دن تھا جب طاہرالقادری نے روایتی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔اس مقصد کےلیے منہاج القرآن کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کھڑی کی گئی۔جماعت کی بنیاد 25مئی1989کو لاہور کے موچی دروازے میں ایک جلسے میں رکھی گئی۔اس سیاسی جماعت میں مولانااحمد علی قصوری صاحب اور شاعر مرحوم مظفر وارثی صاحب روح رواں تھے۔

1989میں جب عوامی تحریک کی بنیاد ڈالی گئی تو ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں تھا کہ الیکشن 4سال بعد ہوں گے اس وقت تک جماعت مضبوط ہاجائے گی الیکشن میں انہیں پذیرائی مل جائے گی لیکن صرف چند ماہ بعد ہی بےنظیر کی حکومت ختم کرکے دوبارہ الیکشن کا اعلان کردیا گیا۔یہ نوزائدہ جماعت 1990کےالیکشن میں کود گئی اس الیکشن میں ڈاکٹر طاہرالقادری خودحصہ نہیں لے رہے تھے بلکہ کچھ گنے چنے حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے گئے۔اس زمانے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن الگ الگ دن ہوتے تھے ۔قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو کوئی امیدوار بھی پذیرائی حاصل نہ کرسکا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے نوازشریف کی سربراہی میں جیتنے والے انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد پردھاندلی کا الزام لگاکر صوبائی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔

ملک میں نوازشریف نے حکومت بنائی تو طاہرالقادری نے سیاسی نظام پر باقاعدہ چار حرف بھیجے،سیاست سے توبہ کی پھر کبھی الیکشن نہ لڑنے کی قسم کھائی اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو غیر فعال کردیا۔سیاست کے اس گند سے نکلنے کےبعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ انہیں اس لیے پذیرائی نہیں ملی کہ اس ملک کے عوام غیرتعلیم یافتہ اور حقوق سے ناآشنا ہیں اس لیے پہلے انہیں تعلیم یافتہ بنایاجائےگا۔اس مقصد کےلیے منہاج القرآن نے اپنی تمام تر توانائیاں تعلیم کے لیے وقف کرنے کااعلان کیا۔تعلیم کے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے تحت گاؤں کی سطح پر عوامی تعلیمی مراکزقائم کیے گئے۔تعلیمی منصوبے کی منصوبہ بندی اور چلانے کےلیے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی بنادی گئی۔

ڈاکٹر طاہرقادری واپس دعوت و تبلیغ کے کام پر آگئے یہ سلسلہ سات سال چلتارہا ملک میں نواز اور بےنظیر کی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔منہاج القرآن اپنے تعلیمی منصوبے پر چلتارہا کہ 1997کے الیکشن میں نوازشریف جیت گیا۔بےنظیر بھٹو کو حسب روایت اور حسب عادت اس کے خلاف تحریک شروع کرناتھی۔لیکن پیپلزپارٹی کےپاس پنجاب میں جلسوں کے لیے کوئی کارکن نہیں تھا۔بےنظیر جیسا ذہین دماغ اسی کے ہی پاس تھا۔بےنظیر نے بابانصراللہ مرحوم کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کو پیغام بھجوایا کہ مل کر نوازشریف کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔اور اس اتحاد کا پہلا سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کوبنا دیاجائےگا۔ڈاکٹر صاحب تک پیغام پہنچا تو انہوں نے اس پر سوچنے کے لیے ٹائم مانگ لیا۔قریبی رفقاء سے مشاورت کی۔ڈاکٹر صاحب کو اس آفر میں کافی کچھ اپنے لیے نظر آیا کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں نوازحکومت گرگئی تو انہیں بڑا حصہ مل سکتاہے اس آفر نے ایک بار طاہرالقادری کو سیاست میں حصہ لینے کےلیے قائل کرناشروع کردیا۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلالیا تاکہ کارکنوں سے اجازت لی جائے۔اس مجلس شوریٰ کا اجلاس ٹاؤن شپ میں مسجد المنہاج میں  دو دن تک چلتا رہا۔ڈاکٹر صاحب نے کارکنوں کو قائل کرلیا کہ وہ اس اہم ترین اتحاد کے پہلے صدر بنائے جارہے ہیں اس لیے یہ انقلاب کےلیے ایک سنگ میل ثابت ہوسکتاہے۔سیاسی جدوجہد کا ایک بار پھر اعلان ہوا،ڈاکٹر صاحب نے سیاست میں نہ آنے کی قسم کا شرعی کفارہ اداکیا اور آگئے سیاست میں۔


عوامی اتحاد کے زیر اہتمام مختلف شہروں میں جلسے شروع ہوئے،بےنظیر اور نوابزادہ نصراللہ سمیت چھوٹی بڑی دس جماعتوں کے قائدین سے اسٹیج سجنا شروع ہوگیا۔گوجرانوالہ سے پشاور تک نوازشریف حکومت کے خلاف جلسے ہوئے۔نوازشریف جمے رہے اور سال گزرگیا۔نوابزادہ صاحب نے طاہرالقادری سے تقاضا کیا کہ اتحاد کے منشور کےمطابق ایک سال بعد اس کی صدارت تبدیل ہوناہے آپ صدارت چھوڑ دیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ تحریک کو تحریک ان کے کارکنوں نے بنایا ہے اس لیے صدارت ان کے پاس رہنے دی جائے لیکن بے نظیر اب خود اس اتحاد کی صدر بننا چاہتی تھیں جو طاہرالقادری کو قبول نہیں تھا۔طاہرالقادری کی جگہ نوابزادہ نصراللہ نے خود صدارت سنبھال لی اس طرح ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی اس اتحاد میں ختم ہوگئی۔اتحاد برائے نام رہ گیا،بے نظیر جلا وطن ہوگئیں ۔پرویزمشرف نے 12اکتوبر 1999کوآج ہی کے دن نوازشریف کو گھر بھیج دیا تو طاہرالقادری نے سب سے پہلے ان کے استقبال کےلیے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔

مشرف کے مارشل لاء اور الیکشن دوہزاردو کے درمیان واقعات کا ایک طویل سلسلہ موجودہے۔ڈاکٹر صاحب نے مشرف کی حمایت جاری رکھی یہاں تک کہ 2002کے الیکشن کا اعلان ہوا۔عوامی تحریک نے1990کےبعد دوسری مرتبہ الیکشن لڑنے کااعلان کیا،عوامی تحریک مشرف سے 25سے30نشستوں کا مطالبہ کررہی تھی لیکن انقلابی چودھریوں نے ڈاکٹر صاحب کی ایک نہ سنی اور ایک بھی سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ سے انکار کردیا۔اس الیکشن میں پہلی مرتبہ طاہرالقادری نے خود تین نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔جھنگ اور گوجرخان سے کامیاب نہ ہوسکے اور لاہور کے حلقہ 127سے جیت کر پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بنے جہاں سے انہوں سے 29نومبر2004کواستعفیٰ دےدیا اور ایک بار پھر سیاست پر چار حرف بھیج کو کینیڈا منتقل ہوگئے۔

آٹھ سال بعد کینیڈا سے واپس آکر سیاست نہیں ریاست بچاؤ تحریک شروع کی ۔جنوری2013 میں اسلام آباد میں دھرنا دیا،چار دن بعد واپس آئے،سپریم کورٹ نے دوہری شہریت ہونے پر ڈاکٹر صاحب کی الیکشن پٹیشن رد کردی تو وہ دوبارہ کینیڈا چلے گئے۔

اب ایک بار پھر وہ انقلاب کے حتمی معرکے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک میں گزشتہ 58دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔یہاں انہوں نے ایک بار پھر روایتی الیکشن کی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کے اس اعلان کو سب نے خوش آمدید کہا ہے انہوں نے بھی جو دھرنے کے سخت مخالف تھے۔

عوامی تحریک دومرتبہ انتخابی معرکہ لڑ چکی ہے۔کامیابی ابھی تک نہیں ملی۔ اب تیسری بار پھر عوامی تحریک سیاسی جدوجہد کرنے جارہی ہے۔دھرنے کی وجہ سے عوامی تحریک کاپیغام لوگوں تک پہنچ چکاہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں۔۔۔حالات پہلے دو الیکشن سے مختلف ہیں۔اگر الیکشن اصلاحات ہوجاتی ہیں تو عوامی تحریک کو سیاسی جماعت کے طورپر قبولیت مل سکتی ہے۔ڈاکٹر صاحب دوکام اگر کرلیں تو سیاسی فائدہ بڑھ سکتاہے ۔۔پہلا یہ کہ وہ کینیڈا کی شہریت کو ختم کردیں تاکہ لوگ ان کی بات پاکستانی کی حیثیت سے سنیں اور قبول کریں اور دوسری بات کہ صرف انٹی نواز ایجنڈا چھوڑکر اپنی جدوجہد کریں کہ اینٹی نواز ایجنڈے پر عمران خان ایک الیکشن لڑکر دیکھ چکےہیں۔

No comments: