Friday, October 31, 2014

AFTER GULLO BUTT


اورکتنی دیر میاں صاحب؟

سانحہ ماڈل ٹاون کا ایک ضمنی کردار بری شہرت سمیٹ کروقتی طور پر اپنے انجام کو پہنچ گیا یہ الگ بات کہ ہمارا عدالتی نظام مجرموں کے لیے رحمت اور مظلوم کےلیے ایک ایسا شکنجہ ہے جس میں وہ انصاف کی خاطر خود جاکر پھنستا ہے اور دھنستا ہی چلا جاتا ہے یہ سسٹم اسے اتنا تھکا دیتا ہے کہ وہ انصاف سے توبہ کرکے خود ہی مجرم کی رہائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔اسی نظام سے فائدہ اٹھا کر گلو بٹ نامی ڈرامے باز اور پولیس ٹاوٹ گرد بیٹھنے پر جیل سے باہر آجائے گا۔


گلوبٹ کو سزا دے کر انسداد دہشتگردی کی عدالت نے یہ رہمنا خطوط تو بتادیے ہیں کہ مقدموں کا فیصلہ اگر عدلیہ چاہے تو جلدی بھی ہوسکتا ہے۔گلوبٹ کو سزا بہت اچھی بات ہے لیکن آپ نے جرم کے ایک چھوٹے سے بچے کو سزا دی ہے اس جرم کو جنم دینے والی بلائیں اسی طرح اپنے کام میں مصروف ہیں ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا،گلوبٹ کا میدان میں اتارنے والے ہاتھ توڑے نہیں گئے،اسے گلے مل کر  غنڈہ گردی پر شاباش دینے والے پولیس افسر ابھی تک آزاد ہیں،کتنا ہی اچھا ہوتا یہی عدالت اسی کیس میں ان گلوبٹوں کو بلالیتی جنہوں نے اس گلو بٹ کو اس مکروہ کام کے لیے تیار کیا اور اپنی فرسٹریشن نکالنے کےلیے اسے استعمال کیا۔ایس پی ماڈل ٹاون کوکب سزا ملے گی کیا اس پر کوئی مقدمہ چلے گا اس کا کچھ پتہ نہیں،اس وقت آگ کو ٹھڈا کرنے کےلیےجن پولیس افسروں کو عہدوں سے ہٹایا گیا تھا اب ان کو ایک ایک کرکے بحال کیاجارہا ہے اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن رانا جبار کو بھی اسی تاریخ سے بحال کرکے تنخواہیں اور مراعات دی جارہی ہیں ۔جن پولیس والوں کے خلاف مقدمے تھے وہ گرفتاریوں کے بعد ضمانتوں پر چلے گئے ہیں۔

لوگ کہہ رہے ہیں حکومت نے گلوبٹ کو سزا دلواکر قربانی کا بکرابنایاہے۔میں اس کو بالکل دوسری طرح دیکھتا ہوں میری نظر میں گلوبٹ کو سزا نے اس سانحہ کے مرکزی کرداروں کے خلاف کارروائی کی نہ صرف راہ متعین کردی ہے بلکہ رہنمائی بھی کردی ہے کہ گاڑی کے شیشے توڑنے والے کواگر11سال سزا ہوسکتی ہے تو10 انسانوں کی سانسین چھیننے والوں سے کیسا سلوک ہونا چاہیئے۔
گلوبٹ صرف 4ماہ میں انجام سے دوچار ہوگیا لیکن اس سانحہ کو برپا کرنے والے ایف آئی آر میں نامزد ہونے کے باوجود ابھی تک کسی تفتیش کے مرحلے سے ہی نہیں گزرے؟سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے یہ الگ بحث ہے اس واقعہ کا اصل ذمہ دار میاں شہباز شریف ہیں ، نواز شریف یا دونوں میں سے کوئی بھی اس کا ذمہ دار نہیں، گولیاں مارنے کا فیصلہ موقع پر موجود پولیس افسروں نے ہی کیا تب بھی تفتیش کی چھلنی سے گزر کر ہی بے گناہی ثابت کی جانی چاہیئے جو قانونی تقاضا ہے ۔جب تک یہ تقاضا پورا نہیں ہوتا اس وقت تک ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو ورثا نے ایف آئی آر میں لکھوا رکھے ہیں۔

گلو بٹ کے مقدمے کا ٹرائل ہوگیا لیکن مرکزی ایف آئی آر عدالتی حکم کے بعد درج ہونے کے دوماہ گزرجانے پر بھی عمل کی منتظر ہے،کیا ایسا عام حالات اور عام آدمی کےلیے بھی ممکن ہے،جو ایف آئی آر سے پہلے گرفتار کرلیا جاتاہے اور بعد پرچہ کاٹا جاتاہے۔سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر کٹ چکی ہے اس میں وفاقی وزرا اور شریف برادران نامزد ہیں ۔یہ ایف آئی آر لاہور کے تھانہ فیصل ٹاؤن میں موجود ہے لیکن کوئی تفتیشی افسر اس کی تفتیش کےلیے مقررنہیں ہوا۔ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ اس کیس کی تفتیش کسی ایک افسر نے نہیں کرنی بلکہ اس کی تفتیش کےلیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)بننی ہے ایسی کسی بھی ٹیم کا نوٹی فیکیشن محکمہ داخلہ نے کرنا ہوتا پنجاب میں محکمہ داخلہ کاغذوں میں ایک وزیر شجاع خانزادہ کے سپرد ہے لیکن عملی طور پر وزیر اعلیٰ خود اس کو چلاتے ہیں اسی وجہ سے اس جے آئی ٹی کا فیصلہ نہیں کیاجارہا۔اگر اس کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور کوئی تگڑا بندہ لگ گیا تو اس کیس کی تفتیش شروع ہوسکے گی جس کا ابھی امکان نظر نہیں آتا۔دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہے جس میں جسٹس باقر نے پنجاب حکومت کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اس رپورٹ کو بھی حکومت پنجاب نے دبا رکھا ہے۔

اگر ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس معاملے پر پنجاب حکومت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جیسا کہ وہ اس کی تردید کرتے ہیں تو پھر گلو بٹ کے بعد ان تمام دوسرے گلوبٹوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہونا چاہیئے،یہ کس نے کیا اس کا تعین ہونا ضروری ہے اگر کسی کا کہناہے کہ اس نے ٹھیک کیا تو اس کو ثابت کرنا چاہیئے اگر نہ کرسکے تو پھر سزا بھگتے۔کہتے ہیں جرم چھپتا نہیں ہے یہ پیچھا کرتا ہے   ماڈل ٹاون میں دس لوگ قتل ہوئے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے آج شہباز شریف کی حکومت ہے کل ختم ہوجائے گی اگر سبزہ زار میں ایک پولیس مقابلہ شہباز شریف کا 15سال پیچھا کرسکتاہے تو ماڈل ٹاون میں 10لاشیں کیسے پیچھا چھوڑیں گی اس لیے بہتر ہے جتنی جلدی ہوسکے حکومت خود اپنے خلاف تفتیش کرائے اگرسچے ہیں توثابت کریں ورنہ کل کوئی دوسرا کرائے گا۔

No comments: