Wednesday, October 22, 2014

END OF DHARNA FROM D CHOWK





طاہرالقادری نےدھرناکیوں ختم کیا؟

رشتے اگر اللہ بنائے توچاہتے نہ چاہتے نبھائے ہی جاتے ہیں،مجبوریوں میں بھی چلتے رہتے ہیں لیکن انسانوں کے بنائے رشتے عارضی بھی ہوتے ہیں اور مفاد پر مبنی بھی،جب تک مفادات مشترک رہیں رشتہ بنا رہتاہے جس دن مفاد تبدیل ہوا وہ دن رشتے کا آخری ہی سمجھو۔ اسی طرح سیاسی میدان میں اتحادفطری ہوں تو چلتے رہتے ہیں اور اگر غیر فطری ہوں تو


 وقتی طور پر مفاد کے لیے قریب آتے ہیں اور یونہی وہ کشش ختم ہوتی ہے اتحاد بھی ختم ۔



تحریک انصاف اور عوامی تحریک میں تحریک کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں ہے،دونوں جماعتوں کے سربراہ شخصیت پرستی میں گلے تک ڈوبے ہوئے،اپنی اپنی جگہ انا کے پہاڑ،دونوں شخصیات ملک کی باگ ڈور فوری سنبھالنے کےلیے دبلے ہوئے جارہے ہیں۔عمران خان الیکشن کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کے لیے بے قرار تو ڈاکٹر طاہرالقادری انقلاب کے ذریعے غیرسیاسی حکومت بناکر ملک اپنے ہاتھ میں لینے کےلیے بے تاب۔پھر نوں بھائی بھائی اور کارکن کزن کیسے ہوگئے؟

انقلاب مارچ شروع ہونے سے تین دن پہلے11اگست کی رات ماڈل ٹاون لاہور میں ڈیرہ جمائے انقلابیوں کے حصار میں بیٹھا میں دبے الفاظ میں عوامی تحریک کے دو قائدین سے اس بحث میں الجھا ہواتھا کہ عمران خان کے ساتھ سفر انقلاب کی شروعات کیوں؟عمران خان اور اس کے ساتھی اس سسٹم کی پیداوار،اس سسٹم کے محافظ،پارلیمانی سیاست کے داعی،آئین سے باہر جانا ان کے لیے کسی صورت ممکن نہیں ہوگا اور انقلاب آئین کے تحت نہیں آتے۔مجھے جواب مل رہا تھا کہ عمران اس سسٹم سے تنگ آچکے اس کو اکھاڑنے کا یقین دلاچکے ہیں۔میں کہہ رہا تھا عمران خان مڈٹرم الیکشن مانگ رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب قومی حکومت کامطالبہ کررہے ہیں اور کم از کم تین سال اصلاحات کے بعد الیکشن کی بات کررہے ہیں،دونوں میں کوئی چیز مشترک ہے تو وہ ہے نواز شریف کی حکومت کاخاتمہ ،عمران خان اس حکومت کا خوامخواہ ہی خاتمہ چاہتے ہیں تو طاہرالقادری کے پاس فی الحال ماڈل ٹاون کا سانحہ مضبوط جواز کے طور پر موجود ہے۔مجھے کہا گیا ایک بار مل کردونوں اس حکومت کا خاتمہ کرلیں باقی جزئیات ہیں بعد میں طے ہوجائیں گی۔میں کہہ رہاتھا دونوں وزیراعظم بننے کے شدید متمنی لیکن کرسی ایک، کون بیٹھے گا،مجھے کہا گیا کہ ابھی کپ اور ہونٹوں کے درمیان کافی فاصلہ ہےجب گھونٹ بھرنے کا مرحلہ آئےگافیصلہ ہوجائے گا۔میں اس دن انہیں نہ سمجھا سکا اور وہ مجھے قائل نہ کرسکے۔

دونوں لاہور سے ایک ساتھ الگ الگ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے،اسلام آباد میں ڈیرہ جمانے کےلیے ڈاکٹر صاحب نے عمران خان کو جان دینے والے کارکن دینے کا یقین دلایا اور ڈی چوک پر دھرنا سجادیا،دھرنے کوواقعی ہی دھرنا بنادیا،کارکن ایک دوسرے کے کزنز ہوگئے۔اور عمارن،طاہر بھائی بھائی۔

دھرنےسے نواز حکومت کمزور ہوئی،گرنہ سکی،جب تک گرنے کی امید اور چانس زندہ رہا کزنز کا رشتہ برقرار رہا،پھر جب یقین ہوگیا کہ اس دھرنے سے حکومت نہیں جائے گی تو عمران خان نے خود جانے کا فیصلہ کرلیا،عمران خان نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے مشاورت کے بغیر ملک میں جلسوں کا اعلان کیا،رشتے کو جوڑنے والا مفاد ختم ہورہاتھا کہ دھرنے اس جدوجہد میں غیر متعلق ہوگئے،ڈاکٹر طاہرالقادری نے عمران خان سے کہا کہ جدوجہد اکٹھے کرنا طے پایا تھا تو پھر یہ جلسے اکیلے کیوں؟عمران خان نے کور کمیٹی کو سامنے کردیا اور خود پیچھے چھپ گئے،پیغام واضح تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے کارکنوں کی اب ضرورت نہیں رہی۔


عمران خان کا جواب واضح تھا کہ ڈاکٹر صاحب اب جواب ہی سمجھیں،ڈاکٹر صاحب ذہانت میں ثانی نہیں رکھتےفوری سمجھھ گئے کہ کزن بازی اب کام نہیں آئے گی اپنا بندوبست خود کرنا پڑے گا،یہ بات تحریک انصاف کے کراچی جلسے سے پہلے ہوچکی تھی،ڈاکٹر صاحب نے اپنالائحہ عمل بنانا شروع کیا اور انہوں نے بھی عوامی شعور کےلیے جلسوں کو ایک جگہ فضول بیٹھنے سے بہتر خیال کیا،دھرنا ختم کرنے کےلیے مناسب ٹائم کا انتظار کیا جو آج آگیا،جی محرم آگیا،غیر فطری اتحاد اپنے منطقی انجام سے دوچارہوا۔ڈی چوک کا دھرنا ختم ہوا،کزن کے ساتھ ڈزن۔۔ڈزن ہوئی اور کارکن بیداری شعور کالالی پاپ لےکر فتح کے جذبے سے سرشار سامان باندھ کر گھروں کو لوٹ گئے۔

No comments: