Sunday, October 26, 2014

MQM,PPP,PTI AND MOHAJIRISM


مہاجرسےمہاجرتک

ایم کیوایم المعروف متحدہ قومی موومنٹ 30سالوں کی جدوجہد کے بعدبھی کراچی اورحیدر آباد سے باہر نہ نکل سکی اور پیپلزپارٹی 40سال کی سیاست کے بعد بھی کراچی اور حدیر آباد میں داخل نہ ہوسکی توکیا دونوں جماعتوں نے کوئی نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ ایک دوسرے کے چھابے کی طرف جھانکنے کےبجائے اپنے اپنے برتن سے ہی اطمینان سے کھایا جائے؟جب سے الطاف حسین نے مہاجروں کو اکٹھا کرکے ان پر سیاست شروع کی 

اس وقت سے الیکشن ہورہے ہیں لیکن نتائج کم وبیش ایسے ہی رہے کہ سندھ کے بڑے شہروں کی نمائندگی کرنے والوں (ایم کیوایم) کو آج تک سندھ پرحکومت کرنے کا موقع نہ ملک سکا،یہاں تک کہ مشرف دورمیں بھی نہیں جو خود بھی اردو بولنے والے تھے ۔


الطاف حسین کی جماعت مہاجر قومی موومنٹ نے جب کراچی اور حیدر آباد میں سکہ بٹھادیا تو انہوں نے مہاجر کے خول سے باہر نکل کر باقی شہروں اور صوبوں میں جدوجہد کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی اپنی جماعت کو مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی مومنٹ بنادیا لیکن ان کو ان دو شہروں کے علاوہ کہیں بھی ایسی پذیرائی نہ ملی بلکہ ان دوشہروں میں بھی مشکلات آنا شروع ہوگئیں،جب بھی کوئی بحران پیدا ہواایم کیوایم نے متحدہ سے فوری طور پر مہاجر میں ہی پناہ لی ۔

بات ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہی رہتی تو شاید معاملہ یوں ہی چلتا رہتا کہ دونوں ایک دوسرے کا مزاج پاگئے تھے،وسائل کی خاموش تقسیم ہوچکی تھی،گورنر ایم کیوایم کا اور وزیر اعلیٰ پیپلزپارٹی کا ،سکھر،بدین،ٹھٹھہ،تھرپارکرٹنڈوآدم پیپلزپارٹی کا اور کراچی ایم کیوایم کا ،بیان بازی جاری رکھتے ہوئے خاموشی سے اپنے اپنے ڈومین میں حکومت جاری رہتی لیکن اب سیاست کے میدان میں نئے کھلاڑی داخل ہورہے تھے تو کھیل کے رولز تبدیل کرنے کی ضرورت دونوں پارٹیوں کو تھی اس لیے متحدہ ایک بار پھر مہاجر کارڈ کھیلنے پر مجبور ہے۔
نہ تو خورشید شاہ اچانک کہیں سے نمودار ہوئے ہیں اور نہ ہی مہاجرکو گالی کا ایشو اچانگ بنایا گیا ہے ۔۔ایم کیوایم نے کراچی کے شہریوں پر اپنی کمزور ہوتی گرفت کا اندازہ 2012کے درمیان اور قطعی نتیجہ 2013کے الیکشن کے دوران نکال لیا تھا کہ پیپلزپارٹی کچھ بھی کرلے اردو بولنے والا اور پڑھا لکھا طبقہ ایم کیوایم کو چھوڑ کر نہ پیپلزپارٹی کی طرف جائے گانہ جماعت اسلامی ان کاووٹ بینک خراب کرسکتی ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف ایک خطرہ بن کر میدان میں آئی ہے۔۔اس کا اندازہ پچھلے الیکشن میں ہوچکا ۔اس الیکشن کے نتائج تو ایم کیوایم کے ہی حق میں رکھے گئے لیکن ووٹر ان کے قابوسے اب باہر ہورہاتھا۔۔۔

ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے اردو بولنے والوں کو ایم کیوایم کے ساتھ کراچی میں تحریک انصاف کی صورت میں ایک متبادل مل چکاہے ۔۔پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد نے ایم کیوایم سے ناطہ توڑ پر پی ٹی آئی میں پناہ لینا شروع کردی ہے ۔۔جو ایم کیوایم کےلیے حقیقی خطرہ ہے ۔۔ایم کیوایم اس خطرے سے نمٹنے کےلیے ہر جتن کررہی ہے کہ اس کا اس شہر سے بے دخل ہونے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیوایم پی ٹی آئی سے براہ راست نہ کوئی پنگا لے رہی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ابھی پروگرام ہے اس لیے کراچی میں تحریک انصاف کے جلسوں کو ہمیشہ الطاف حسین نے خوش آمدید کہا ہے لیکن اندر حالات ایسے نہیں ہیں۔کیونکہ ایم کیوایم کو پتہ ہے جانے والوں کو ڈرادھمکا کر لانے کی کوشش نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور ایم کیوایم سے پی ٹی آئی جانے والوں کے ارادے اور مضبوط ہوسکتے ہیں۔

اس بڑے چیلنج سے نمٹنے کےلیے ایک بار پھر مہاجر کارڈ کی چال چلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کارڈ کے چلنے میں پیپلزپارٹی ایم کیوایم کا ساتھ دے رہی ہے کہ تحریک انصاف یہاں کراچی میں ایم کیوایم کے لیے خطرہ ہے وہیں سندھ میں پیپلزپارٹی بھی اس کے نشانے پرہے ۔۔پیپلزپارٹی کراچی لینے کی خواہش سے باہر نکل کر دیہی سندھ بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے یہ صرف اسی   صور ت بچ سکتا ہے جب دونوں جماعتیں اپنے لیے الگ صوبہ بنالیں۔۔۔مہاجر کا نعرہ لگنے سے یہاں کراچی میں پی ٹی آئی کی طرف دیکھنےوالوں کے دلوں میں ایم کیوایم کےلیے دوبارہ ہمدردی جاگ اٹھی ہے،وہیں سندھ کی تقسیم کے نعرے سے سندھیوں کا سندھی پن بھی عروج پر آرہا ہے جس کا فائدہ پیپلزپارٹی اٹھائے گی ،منصوبہ یہی ہے کہ اگلے الیکشن میں کم ازکم دونوں پارٹیوں کی موجودہ پوزیشن برقراررکھی جاسکے۔۔اس عظیم مقصد کےلیے اگر خورشید شاہ نے مہاجر کو برابھلا کہہ دیا اور اس کے جواب میں ایم کیوایم نے سندھ تقسیم کرکے مہاجر صوبے کا نعرہ مستانہ بلند کر کے اپنے ہمدردوں کواکٹھا کرنا شروع کردیا ہے تو اس میں نہ سمجھ میں آنے والی کون سی بات ہے؟

No comments: