Saturday, October 18, 2014

PPP JALSA IN KARACHI.....BILAWAL LAUNCHED

سی ڈی لوڈ ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔۔

کوئی سامنے آکر اعتراف کرے یا نہ کرے لیکن اندر سے سب پریشان ہیں۔۔عمران خان کی تمام تر بے وقوفیوں،غیرجمہوری رویوں،ضد اور اڑیل پن کے باوجود ایک بات حقیقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کا اثر لےکر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے ہیں۔حکومت کو بھی پرفارم کرنا پڑے گااس کے بغیر میدان میں ڈٹے رہنا ممکن نہیں ہوگابصورت دیگراپمائرانگلی کھڑی کرے یا نہ کرے میاں صاحب کو کریز چھوڑنی پڑے گی۔



تحریک انصاف مسلم لیگ کو فی الحال اپنی جگہ سے ہلانے میں بری طرح ناکام رہی ہے ۔ن لیگ کی اپنی بے وقوفیاں اس کوہلادیں تو الگ بات ہے ۔تحریک انصاف سے پیپلزپارٹی کو خطرہ تھا جو اب واضح ہوکر سامنے آیاہے اور پیپلزپارٹی اس خطرے کو قبول کرکے خوفزدہ بھی ہوئی ہے ۔پنجاب میں تو پیپلزپارٹی کا کوئی حصہ ہے ہی نہیں کہ ملتان میں اس کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی لیکن سندھ میں اس کو نقصان پہنچے یہ پیپلزپارٹی کو کسی طرح قبول نہیں کہ سندھ گیا تو پارٹی گئی اور اب واپسی کا زمانہ نہیں ہے کہ وقت کم اور مقابلہ انتہائی سخت ہے۔


پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک ہفتہ لاہور میں قیام کیا اور پنجاب بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ذمہ داروں سے براہ راست ملاقات کرکے حالات کا ادراک کیا انہیں ٹاسک دیے،پہلا ٹاسک تو اس جلسے کو بھرنے کا دیا جو آج کراچی میں ہوا۔پیپلزپارٹی کو سندھ میں دو چیلنجز ہیں اس کا پہلے مقابلہ ایم کیوایم سے رہتا ہے لیکن پیپلزپارٹی ایم کیوایم کوسنبھالنا اور اس کا مقابلہ کرنا سیکھ چکی ہے کہ ایم کیوایم کا ووٹ بیس صرف کراچی اور کچھ حیدرآباد تک محدود ہے اس میں اضافہ کسی صورت ممکن نہیں اس دکھ کاعلاج ایم کیوایم کے پاس بھی نہیں کہ وہ کچھ بھی کرلیں کراچی کی سیٹیں پورے سندھ سے زیادہ نہیں ہوسکتیں اس لیے کراچی میں اکثریت رکھتے ہوئے بھی وزیراعلیٰ سندھ سے ہی 
آتاہے۔


جس کا علاج پیپلزپارٹی کے پاس نہیں ہے وہ ہے تحریک انصاف، اسی لیے تحریک انصاف کو جلسے کرتا دیکھ کر اور اس کے سندھ کی طرف پیش قدمی کے اعلان کےبعد پیپلزپارٹی نے سانحہ کارساز کے شہدا کے موقع پر 18اکتوبر کو کراچی میں بڑاجلسہ کرنے کا اعلان کیا ۔۔جلسہ کامیاب بھی ہوگیا کہ 40سے 50ہزار لوگ اس جلسے میں لائے گئے تھے۔عمران خان نے دودن پہلے اس جلسے میں شرکت کرنے والوں کو زندہ لاشیں کہا تھا جو شرجیل انعام میمن کو بہت ناگوار گزرا تھا انہوں نے اس کا جواب بھی دیا حالانکہ عمران خان کی باتیں کوئی برامنانے والی نہیں ہوتیں۔

تحریک انصاف نے جلسوں میں میوزک کا کلچر دیا ہے اسے اب تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنالیاہے کہ میوزک سے حاضرین کا وقت اچھا گزرجاتاہے اور کارکن بھی پرجوش رہتے ہیں۔۔تحریک انصاف نے اس کےلیے جس ڈی جے کی خدمات لی ہیں وہ اب بہت ہی ماہرہوچکے ہیں اور جلسے میں ایک سیکنڈ بھی خاموشی کا نہیں گزرتا۔۔۔بلکہ کبھی کبھی توعمران خان کوروکنا پڑتاہے ۔۔لیکن 18اکتوبر کے پیپلزپارٹی کے جلسے میں بلوایا گیا ڈی جے کافی اناڑی ثابت ہوا ویسے تو اس کا اناڑی ہونا بنتابھی ہے کہ پہلا پہلا جلسہ ہے ۔۔۔اس جلسے میں ماڈریٹر بے چارہ بار بار کہتا رہا کہ لگادو۔۔لگادو ترانہ لیکن ڈی جے کی طرف سے خاموشی ہی خاموشی رہی۔۔باربار فرمائش پر ڈی جے نے اکتا کرکہہ دیا کہ 
سر جی سی ڈی ابھی لوڈ ہورہی ہے۔۔۔۔

لگتا ہےڈی جے نے بہت بڑی حقیقت کہہ دی اس جلسے میں بلاول بھٹو تو لانچ ہوگیا لیکن کارکنوں کی تعداد، جوش اور صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی سی ڈی بھی ابھی لوڈ ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: