Monday, October 20, 2014

NAWAZ RULE UNDER THREAT?



تھری ۔۔۔۔۔ٹو۔۔۔۔۔ون۔۔۔۔؟

پاکستان میں نفرت اور تعصب اگر اسٹاک مارکیٹ میں ہوتے ان کے شیئر ہولڈر کبھی خسارے میں نہ جاتے،نفرت کے سوداگر سب سے زیادہ کمارہے ہوتے،اگر نفرت کی بیرون ملک سرمایہ کاری ہوتی تو پاکستانی سرمایہ کار سب سے بڑے انوسٹر ہوتے۔وطن عزیر میں ہر صنعت زوال پذیر ہے سوائے اس صنعت کے ،ہرکاروبارٹھپ پڑاہے سوائے اس کاروبار کے،ہردکان بند پڑی ہے سوائے اس دکان کے


،اس ملک کو یکا یک کیا ہوگیا کہ تین ماہ میں افراتفری پیدا کردی گئی ،حامد میر کو گولی لگنے سے شروع ہونے والا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہااس معاملے پر تمام مذہبی اور سیاسی کرایہ داروں نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق اس نفرتی مہم میں حصہ ڈالا،جیو بند کرایااور طاقتور قوتوں کو ان کے طاقتورہونے کا احساس دلایا،اپنا حصہ وصول کیااور دوبارہ اگلے ٹاسک کےلیے اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔

ملک میں الیکشن کا اعلان نہیں ہوا لیکن ہرپارٹی میدان میں نکلی ہوئی ہے،نفرتوں کی تبلیغ زوروں پر ہے کوئی لوگوں کو حکومتی پارٹی سے متنفر کررہا ہے تو کوئی دوسری پارٹی کے خلاف آگ اگلنے میں مصروف ہے،نفرت کی ایسی ایسی مثال کہ پارٹی چھوڑنے والے کو داغی داغی کہہ کر پکاراگیا اپنی سیٹ واپس لینے میں کوئی دلچسپی نہ لی لیکن جاوید ہاشمی کو ہارتے دیکھنے کےلیے ایک رسہ گیر کی پارٹی تبدیل کراکراس کو تبدیلی کا نمائندہ بناکر پیش کردیا،اخلاقی دیوالیہ پن کایہ عالم کہ بلا میدان میں لانے کی ہمت نہ کی اور اس کے انتخابی نشان کو بلا قراردیتے رہے،انہیں عامر ڈوگرکی جیت سے زیادہ ہاشمی کی ہار میں دلچسپی تھی۔ بات شاہ محمود تک رہتی تو خاص بات نہ ہوتی کہ موصوف انتہا کے خود پسند ،لالچی اور موقع پرست ہیں، افسوس تو تب ہوا جب ان کے قائد خود کو قائد اعظم ثانی کہلوانے کےلیے کنٹینر کی سواری کرنے والے ،مہاتما گاندھی کے نقشے قدم پرسول نافرمانی کا شوشہ چھوڑنے والے عمران خان نے کہا کہ انہیں جاوید ہاشمی کا سیاسی کیرئیر ختم ہونے کا افسوس ہے،خان صاحب کبھی سیاستدان کا کیریئر بھی ختم ہواہے؟آپ آج جاوید ہاشمی کے کیریئر کے خاتمے کا اعلان کررہے ہیں ۔ اگر آپ میں نہ مانوں کے کنٹینر پر ہی چڑھے رہے تو آپ کے استعفے جلد یا بدیر قبول ہونے ہی ہیں پھر اگر ن لیگ پنڈی میں آپ کی چھوڑی سیٹ پر جاوید ہاشمی کو الیکشن لڑا کر اسمبلی میں پہنچادے جس کا چانس بحرحال موجود ہے تو پھر خان صاحب کس کا کیریئر خطرے میں پڑے گا؟

آج تو ایم کیوایم کی سندھ  حکومت سے علیحدگی کے بعد شیخ رشید کوبھی آپ کے استعفے زہر لگنا شروع ہوگئے ہیں جو نوازشریف کے سامنے بطور اپوزیشن لیڈر کھڑے ہونے کےلیے مرے جارہے ہیں ،وہ بھی ایم کیوایم سے رابطوں کے بعد آپ کو سمجھانے آئیں گے کہ خان صاحب اچھا موقع ہے آپ استعفے واپس لےلیں تاکہ وہ خورشید شاہ کی جگہ اپوزیشن لیڈر بن سکیں ۔یہاں بھی آپ کا امتحان ہوگااور یہ امتحان آپ کے اپنے شیخ صاحب لیں گے۔توہوجائیں تیار۔۔۔

ملک میں اس وقت خوب افراتفری ہے ویسے تو اس میں پریشانی کی بات نہیں کہ بحیثیت قوم ہماری حالت اس خواجہ سرا جیسی ہوگئی ہے جسے سارادن کوئی گاہک نہ ملے تو رات کو صرف اس لیے انجیکشن کی سوئی لگوالیتا ہے کہ تھوڑی سی تکلیف لینی ضرورہے،ہمیں بھی ملک میں سکون اچھا ہی نہیں لگتا افراتفری رہے تو اپنے پاکستانی ہونے کا احساس رہتاہے ،دیکھیں تو سہی کہ کیا سرکس لگی ہے پورے ملک میں ۔ایک دوسرے کی محبت نما ضرورت میں اکٹھے شروع کیے گئے معرکہ ڈی چوک میں اب بہت سے ٹوسٹ آچکے ہیں ۔طاہرالقادری اور عمران خان میں بننے والا بھائی بھائی کا رشتہ صرف ڈیڑھ ماہ ہی چل ہی سکا۔جب عمران خان کوطاہرالقادری اور ان کے کارکنوں کی ضرورت تھی تو ڈاکٹر صاحب نے سچے دل سے تحریک انصاف کو افرادی قوت فراہم کی، جان دینے والے کارکنوں نے ڈی چوک کو گرمائے رکھا،دھرنے کو حقیقت میں دھرنا عوامی تحریک نے بنایا۔اس پر پی ٹی آئی ان کی احسان مند رہی لیکن جب  دھرنے سے حکومت نہ گری تو تحریک انصاف نے عوامی تحریک سے فاصلے بڑھالیے۔تحریک انصاف نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے بغیر مشاورت ملک میں جلسے شروع کردیے ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنے کی طرح جلسے بھی اکٹھے کرنے کا تقاضا کیا جو تحریک انصاف نے رد کردیا کہ تحریک انصاف کو دھرنے کے لیے کارکنوں کی ضرورت تھی جلسوں کے لیے نہیں عمران خان خود کراوڈ پُلر ہیں۔اس اختلاف نے عوامی تحریک کوبھی جلسوں پر مجبور کیا اور ان کے جلسے بھی کامیابی سے جاری ہیں کہ طاہرالقادری کے پاس کارکنوں کی کمی نہیں۔کیاعمران خان جو خود کو اصول پرست اور سچا لیڈر کہتے ہیں وہ اس کی وضاحت کبھی کریں گے کہ طاہرالقادری سے راہیں کیوں جدا کی 
گئیں؟


ان جلسے جلوسوں میں حکومت کہیں غائب صرف فائرفائیٹنگ کررہی ہے لیکن اصل کام آگ بجھانا نہیں بلکہ ایسے اقدامات کرنا ہوتےہیں جن سے آگ لگنے سے بچا جاسکے۔حکومت ابھی تک تو صرف آگ بھجانے کا کام ہی کررہی ہے۔یہاں تک کہ ایسے کام بھی نہیں کررہی جس پر کوئی خرچہ نہیں آتا ۔اگر حکومت ایسے ہی چلتی رہی تو پھر ملک میں جلسے جلوسوں کا موسم الیکشن کے موسم میں بدل جائے گااورنوے میں نوازحکومت تین سال بعد،ستانوے میں دوسال اور اب ایک سال بعد ہی رخصت ہوجائے گی۔۔۔ تو پھر کیا تھری ٹو ون۔۔ہونے کوہے؟

No comments: