Monday, November 3, 2014

HOW TO END TERRORISM FROM PAKISTAN?


دہشت گردی ختم کرنےکا نسخہ

قومیں حادثات کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ سانحات کے بچاو کےلیے اقدامات کرتی ہیں اور نہ ہی سانحات ہوجانے کے اگلے دن اس جگہ پر نعرے مارنے سے یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ کوئی زندہ قوم ہے جسے آسانی سے قتل تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا حوصلہ پست نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب ہی امریکا کی مثال دیتے ہیں ایک نائن الیون نے امریکا کوہمیشہ کےلیے محفوظ بنادیا تو اس کو سمجھنے کےلیے کوئی ارسطو کا دماغ نہیں چاہیئے بلکہ بہت ہی سادہ ترکیب ہے کہ انہوں نے مزید سانحات کے ہونے کا انتظار نہیں کیاانہیں روکنے کےلیے دوسرے ملکوں پر چڑھائی سے بھی گریز نہ کیا(یہ بحث الگ ہے کہ انہیں اس کا اختیار تھایانہیں)

کیا ہم اس طرح دہشتگردی کا سد باب کرسکتے ہیں یا نہیں۔۔اس کا جواب اتنا سادہ نہیں ہے کیوں کہ ہم ایسی قوم ہیں جس نے ابھی تک یہ ہی طے نہیں کیا کہ دہشت گردی جائز ہے یا ناجائز،اپنے ہی ہم مذہبوں کا قتل حلال ہے یا حرام،مسلمانوں کی زندگی ختم کرکے جنت کمائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ہم ابھی یہ بحث بھی نہیں سمیٹ پائے کہ
خود کشی توحرام ہے لیکن خود کش کیسے جنت کا حقدار ہے؟ہم اس کا بھی تعین نہیں کرپائے کہ غربت اور محرومی کسی کو قتل کرنے کی سند کیسے بنتی ہے ہم اس بات پر متفق ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ بھوک انسان کو کفر تک لے جاسکتی ہے لیکن غربت دوسرے کو قتل کی سند کیسے دیتی ہے اس پر بحث جاری ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ بحیثیت قوم ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ہم اس مسئلے پر بری طرح تقسیم ہیں،ایسی تقسیم کہ ہم دہشتگردی کو برا کہتے ہیں لیکن دہشتگردوں سے ہمدردیاں رکھتے ہیں۔ اگردہشتگردی ختم کرنی ہے تو ہمیں اس تقسیم کو ختم کرنا ہے،دہشتگرد یاتو ہمارے بھائی ہیں یا دشمن اوراگر دشمن ہیں تو اس سے دشمنوں جیسا سلوک کیا جانا ضروری ہے بس یہی کچھ امریکا نے کیا۔

ہمیں اس تقسیم سے بھی نکلنا ہوگا کہ فلاں ہمارا دشمن ہے، مغرب ہماری جان کاپیاسا ہے،ایران ہمارے خلاف ہے یاسعودیہ ہمارا دوست ہے۔۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ہم خود اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ہم نہ نبی ہیں نہ صحابی پھر ہمیں یہ اختیار کیسے مل جاتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہی درست،حتمی اور قطعی ہے بلکہ جس کا یہ عقیدہ نہیں ہے اسے جینے کا حق نہیں ہے۔ہم کیسے یہ اخذکرلیتے ہیں کہ میں سچا مسلمان اور مخالف عقیدہ رکھنے والاکافر ہے۔ہمیں رویوں کی اس انتہاپسندی کو دفن کرنا پڑے گا صرف اس برداشت کے ایک عمل سے 70فیصد دہشتگردی ختم ہوجائے گی،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا''برداشت بزدلی نہیں بلکہ زندگی کااہم اصول ہے'' اور پھر ہم جس نبی کی وجہ سے مسلمان ہیں ان کے اس عمل کو تو دیکھیں کہ انہوں نے عیسائیوں کےلیے مسجد کے دروازے کھول دیے اور صلح حدیبیہ میں اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھا جانا قبول کرلیا،کیا ہم اس کا سوواں حصہ بھی اپنا سکتے ہیں،اگر نہیں اپنا سکتے تو پھر 60لاشیں اٹھانےکےاگلے ہی دن واہگہ پرجاکرسو بار پریڈ کرتے رہیں،بات حوصلہ پست نہ ہونے کے نعرے سے آگے نہیں بڑھے گی۔

اگرہم اپنے رویوں سے انتہاپسندی ختم کرلیں گے تو پھر حکومتی اور ریاستی سطح پر تھوڑی سی کوشش اس ناسور کو جڑسے اکھاڑ دے گی لیکن اگرمیڈیا بیانات کے ذریعے ہی ہر روز دہشتگردوں کی کمرتوڑیں گے توپھر وہ بھی ہمیں بتاتے رہیں گے کہ کس کس کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔المیہ ہی ہے کہ ہم 50ہزار جانیں گنواچکے اورابھی تک انسداد دہشتگردی کی کوئی واضح پالیسی ہی موجود نہیں۔موجودہ وزیرداخلہ کی طرف سے سننے میں آیاتھا کہ کوئی پالیسی بنائی جارہی ہے اور اب سنتے ہیں کہ اس پر عمل کےلیے بجٹ نہیں دیاگیا،ریاستی ترجیحات جاننے کےلیے ایک مثال کافی ہے ۔آپریشن ضرب عضب کے ساتھ پورے ملک میں سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے جب رد عمل کچھ دن نہ آیا توکمرتوڑ بیانات نے تمام ایجنسیوں کوسکون میں مبتلاکردیا اور پھر ہم سب کی کمرواہگہ پر ٹوٹ گئی۔۔میں اس کو کیا کہوں کہ اگر آپ عام شہری ہیں تو واہگہ بارڈر تک پہنچتے پہنچتے رینجرز والے آپ کی چیخیں نکلوادیتے ہیں اور آپ بغیر پریڈ دیکھے واپس آجاتے ہیں لیکن ایک نوجوان جسم سے 15کلو بارود باندھ کرچار پوسٹیں عبورکرگیا؟توپھر کہیں توسستی ہے ناں۔

دہشتگردی ختم کرنی ہے تو خدارا آئیں اپنے آپ کو دھوکا دینا بند کریں،منافقت ختم کریں،سچ بولنا شروع کریں،جوبھی کریں شفافیت سے کریں،دہشتگردوں کی کمر میڈیا میں نہ توڑیں اچھے اور برے دہشتگردوں کی تمیز ختم کریں،قانون نافذ کرنے والے صرف کارکردگی دکھانے کےلیے کارروائیاں نہ ڈالیں ایک جیکٹ پھٹنے کے بعد ہی دوسری کیوں تلاش کرتے ہیں؟اگر پہلے تلاشی شروع کریں تو شاید وہ بھی مل جائے جسے ابھی پھاڑا جانا ہے۔۔


آخر میں حکومت سے ایک گزارش کہ دہشت گردوں اور دہشتگردی کی اطلاع کےلیے ایک ہاٹ لائن قائم کردیں جس پر ہرشخص مفت کال کرکے اطلاع دے سکے ہوسکے توموبائل کمپنیوں کو پابند کریں کہ 15کی طرح اس ہاٹ لائن کو بھی اس لسٹ میں شامل کریں۔

No comments: