Thursday, November 20, 2014

PTI JALSA IN LARKANA,SIND


سندھیوں کا نجات دہندہ کون؟

کپتان کے اعلانات سے تو یہ محسوس ہوتاہے کہ وہ لاڑکانہ میں جلسہ کرنے نہیں محمود غزنوی کی طرح کسی سومنات کامندر توڑکر اس میں چھپا خزانہ نکالنے جارہے ہیں۔کیا وہ واقعی سومنات کے اس مندر یعنی سندھ کو پیپلزپارٹی سے آزاد کراسکیں گے اس سوال کا جواب ابھی کسی ارسطو کےپاس بھی نہیںہے اور مجھے یقین ہے اس ماڈرن محمود غزنوی کے پاس بھی نہیں ہوگا جو سندھیوں کو پیپلزپارٹی کے وڈیروں کی غلامی سے آزادکرانے کےلیے اسی طرح کے ایک وڈیرے
جوفنکشنل لیگ، پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے گھاٹ سے پانی پی کر اب تحریک انصاف کی گنگا میں اپنے آپ کو دھونے کےلیےبے تاب ہیں ،کے ڈیرے پرجلسہ کرنےجارہے ہیں۔

کپتان صاحب کے سیاسی ناقدین کے علاوہ بھی لوگ ان کی سیاست پر جو سب سے پہلا اور بڑا سوال کھڑاکرتے ہیں وہ یہی ہوتاہے کہ خان صاحب کیسی تبدیلی لانے کےلیے ہمیں قائل کررہے ہیں کہ جوتبدیلی پہلے سے مسترد شدہ سیاستدانوں اور بااثر زمینداروں اور وڈیروں سے ہوکر گزرے گی ۔گوعمران خان یہ جواب دیتے ہیں کہ وہ فرشتے کہاں سے لائیں؟یہی لوگ ہیں جن کو تبدیلی کا استعارہ مان لیاجائے۔ اس کے جواب میں عوام  یہ کہتے ہیں کہ اگر لوگ تحریک انصاف کو عمران خان کی  شخصیت کی وجہ سے پسند کرتے ہیں تو پھروہ قریشی،ترین،سواتی  اور اب انڑخاندان کواسٹیج پرکھڑاکرکےبدنامی کاہارکیوں پہنتے ہیں؟

سندھ کامعاملہ پنجاب سے کافی مختلف ہے ،پنجاب میں لوگ زیادہ پڑھے لکھے اور اپنی سوچ کے ذریعےاختلاف رائے کرنے والے ہیں اس لیے تحریک انصاف کوپذیرائی مل رہی ہے، تجزیہ کاروں کی رائے میں لاڑکانہ کا جلسہ عددی اعتبار سے شاید کامیاب ٹھہرے گا کہ وہاں انڑخاندان کا اپنا اثرورسوخ بھی کافی ہے اس کے علاوہ شاہ محمود کے مریدوں کی کافی تعداد ہے جو جلسے کی رونق بڑھائے گی لیکن تحریک انصاف کا ابتدائی ہدف وہ سندھی ہیں جو پیپلزپارٹی کی کرپشن اور قوم پرستوں کی نیم مردہ سیاست سے تنگ ہیں۔اگر تحریک انصاف اس جلسے کےذریعے ان لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ٹھہرتی ہے اور اس کوانتخابی سپورٹ میں تبدیل کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہے تب جاکر سندھ میں تحریک انصاف کی کچھ نمائندگی ممکن ہے۔

لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے آباؤاجداد کی قبروں کے قریب جلسہ رکھنا تحریک انصاف کی جرات مند سیاسی پالیسی کا عکاس ہے،لاڑکانہ میں جلسے سے وفاق میں بیٹھی مسلم لیگ ن کوبراہ راست تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پیپلزپارٹی کے گھر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی سے صرف ایک ماہ پہلے ہزاروں افراد کا کسی دوسری جماعت کےلیے جمع ہوجانا بحرحال پی پی  کے لیے اضطراب کا باعث ضرورہے اس کا کچھ اظہار گزشتہ دن سندھ اسمبلی میں نثار کھوڑو کی زبانی سیکھنے میں آیا جنہوں نے سندھیوں کو غلام کہنے پر عمران خان کوبنی گالا میں بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔اس سے یہ بات تو صاف ہے برسوں سے سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی جو تھر میں بچوں کی ہلاکتوں اور کراچی پر کنٹرول کرنے کی خواہش میں دن رات گھلے جارہی ہے اب ایک نئے خطرے سے نمٹنے کےلیے کتنی تیار ہے اس کا فیصلہ اس جلسے کےبعد ہوگا۔

عمران خان کو سندھ میں قدم جمانے کےلیے چار ایشوزپر بہت کلیئر پالیسی کااعلان کرنا ہوگا جو سندھ ممیں سیاست کےلیے ضروری ہیں،پہلے نمبر ان کو سندھ تقسیم کی اپنی پالییسی واضح کرنا ہوگی،سب  جانتے ہیں کہ سندھی صوبے کی تقسیم نہیں چاہتے،ایم کیوایم تقسیم چاہتی ہے اس لیے اس کی اندرون سندھ کوئی مقبولیت نہیں ہے،دوسراموضوع کالاباغ ڈیم ہے عمران خان کواس پر بھی کھل کر بات کرنا ہوگی کہ وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کےخلاف ہیں،یہ بات کھل کر کرنے سےشاید سندھ میں ان کو سپورٹ ملے لیکن پنجاب میں ان کو نقصان ہوگا،تیسری اہم بات عمران خان کی انتہاپسندی اور طالبان کے حوالے سے سوچ ہے سندھ میں لوگ طالبان کے سخت خلاف اور انتہاپسندی کے مخالف ہیں لیکن سبھی جانتے ہیں عمران خان کی دہشتگردی کےخلاف پالیسی اس سے مختلف ہے۔آخری بات سندھ میں لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی ہے اگر خان نے دوسری پارٹیوں کےٹھکرائے ہوئے،شیرازیوں،اربابوں اورجتوئیوں کوشامل کیا تویہی سمجھاجائے گاکہ عمران صرف الیکشن جیتنے میں دلچسپی رکھتےہیں اسے عام سندھی کے مسائل سے کوئی خاص لگاو نہیں ہے۔یہ اپروچ اسے پیپلزپارٹی سے آگے نکلنے نہیں دے گی۔

No comments: