Saturday, November 8, 2014

CHRISTIAN COUPLE LYNCHING IN QASOOR


بھٹی سےمٹی تک

ہمارا مذہب ہماری پہچان ہے لیکن اسی مذہب کا استعمال ہمیں شرمندگی کے پسینوں میں نہلائے جارہا ہے ،کہانیاں بہت ساری ہیں لیکن اصل کہانی یہ ہے کوٹ رادھا کشن میں سجاد اور شمع بی بی کوجلانے کاانسانیت سوزسانحہ بھی ایسے دوسرے واقعات کی طرح صرف کہانی بن کر رہ جائے گا جسے شائد انسانی  اور اقلیتی حقوق پر دکان چلانے والی انجمنیں اپنے ریکارڈ میں ریفرنس یا زیادہ زیادہ سالانہ رپورٹ لکھنے کےلیے استعمال کریں گی۔میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے ریا
کہ اس نوع کے ماضی کے قصے بھی ایسے ہی بھول گئے ،کسی کوسزا ہوئی نہ کبھی حقیقت سے پوری طرح پردہ اٹھا کہ آخر ہوا کیا تھا،کیا واقعی رمشا مسیح نے پنڈی میں قرآنی جلائے تھے یا سب نے کسی ایک مولوی پر یقین کرکے اس کی گردن میں پھندا ڈال دیاتھا،یہ بھی کبھی نہیں پتہ چل پایا کہ رنکل کماری کو پیرمیاں مٹھو نے زبردستی کلمہ پڑھایاتھا یا وہ واقعی کسی مسلمان گھبرو کی محبت میں دیوانی ہوکر اپنامذہب بھول گئی تھی،اسی طرح کا ایک واقعہ سندھ کے پسماندہ علاقے ڈہرکی میں پیش آیا ہے جہاں صرف 12سال کی انجلی کو زبردستی مسلامن بناکر ایک نوجوان سے شادی کرانے کا الزام پیرآف برچونڈھی پرلگایا جارہا ہے ۔۔


لاہور سے متصل ضلع قصور میں اینٹیں بنانے والے بھٹوں کی صحیح تعداد تو شاید ہی کسی کو معلوم ہو لیکن یہ حقیقت ہےکہ لاہور جیسے میگا سٹی میں تعمیرات کی ساری ضروریات اسی ضلع میں قائم اینٹوں کے بھٹوں سے پوری ہوتی ہیں۔ ان بھٹوں کے مالک تومسلمان ہیں لیکن ان پر کام کرنے والے مزدور عیسائی ہیں ۔کوٹ رادھا کشن کے جس بھٹے پر نوجوان میاں بیوی کےخلاف تین دیہاتوں کے لوگوں نے مذہب کی محبت میں گرفتار ہوکر نفرت کاجو مظاہرہ کیا ہے اس کادفاع نہیں کیا جاسکتا ۔اس واقعہ کی اصل حقیقت تو ابھی تک سامنے نہیں آئی لیکن کہا جارہا ہےکہ ایک پھل بیچنے والے رمضان نامی شخص نے ان دوافراد کو کچھ اوراق جلاتے دیکھا اور اسی نے ہی ایک دن میں پورے علاقے میں یہ مشہور کردیا کہ یہ مسیحی جوڑا توہین قرآن کا مرتکب ہوگیاہے ۔اس پر کسی نے پولیس وغیرہ کو رپورٹ کرنے کی زحمت نہیں کی بلکہ مذہب کو بطور نفرت استعمال کرنے والے چند مولویوں نے ان کے واجب القتل ہونے کا اعلان کردیا اور اس طرح 10محرم الحرام کی صبح تین دیہاتوں کے لوگوں نے ایک ہی وقت میں اس بھٹے کارخ کیا جہاں یہ دونوں میاں بیوی موجود تھے اور خبروں کے مطابق بھٹے کے مالک نے ان کو ایک کمرے میں بند کررکھاتھا تاکہ انہیں بھوکے بھیڑیوں کے سامنے ڈال سکیں ۔

اس کیس کا کیا بنے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اس مقدمے میں 600لوگ نامزد ہیں ،50سے زیادہ پولیس نے گرفتار کررکھے ہیں، پولیس کا کردار اس سارے واقعے میں ہمیشہ کی طرح انتہائی شرمناک ہے ۔۔پولیس اس وقت بھٹے پر پہنچی جب ابھی لوگوں نے اس میاں بیوی کو مارنا شروع نہیں کیاتھا لیکن لوگوں کے ارادے دیکھ کر ان کو بچانے کی کوئی ترکیب کرنے کےبجائے پنجاب پولیس کے یہ سورمے دم دبا کر ایک سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، نہ ان کو روکا نہ کوئی اضافی نفری کی درخواست کی ۔جب لوگ اپنا غصہ اس جلتی بھٹی میں نکال چکے تو ضلع کا انچارج پولیس افسر بھی وہاں پہنچ گیا اور لوگوں سے کہا کہ اب بھاگ جاؤ ورنہ پکڑے جاؤ گے پھر ایسا ہی ہوا تین دیہاتوں میں اس وقت سناٹا ہے ۔۔

دوسری طرف کی کہانی بھی ایسی ہی  ہے مسیحی رہنماؤں کا کہناہے کہ قصوروار صرف بھٹے کامالک ہے جس نے لین دین کے تنازع پر ان لوگوں سے ایسا سلوک کروایا۔لیکن بھٹہ مالک کا کہناہے کہ اس نے انہیں گاؤں والوں سے بچانے کےلیے کمرے میں بند کیا تھا۔۔حقیقت کیا ہے یہ تو شاید ہی سامنے لائی جائے ۔۔کیونکہ بہت جلد شازیہ، رمشا اور آسیہ مسیح اور سانحہ گوجرہ کی طرح اس کیس پر بھی مٹی ڈال دی جائے گی ۔حکومت نے بچوں کو 12ایکڑزمین اور کچھ پیسے دیکر تصویریں بنوالی ہیں اب اطلاعات یہ ہیں وہ بھائی جو پہلے ان سے الگ رہتے تھے ان کی موت کے وقت سب وہاں انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اب ان جائیداد والے بچوں کوتحویل میں لینے کےلیے آپس میں لڑرہے ہیں ۔۔۔

No comments: