Saturday, November 29, 2014

PTI JALSA OF 30th NOVEMBER


تیس نومبرکوکیاہوگا؟


تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنے کےتین ماہ بعدکےحالات حکومت کےلیےکافی حد تک تبدیل ہوچکے ہیںاور یہ تبدیلی وفاق میں حکومت کرنے والی مسلم لیگ نوازکے حق میں کافی حد تک مثبت ہوتی نظر آرہی ہے۔14اگست کوحالات تحریک انصاف کی حمایت کررہے تھے لیکن آج ساڑھے تین ماہ بعد کھیل کاپانسہ پلٹتادکھائی دے رہاہے۔اگست میں حکومت مکمل دباؤ میں دکھائی دے رہی تھی لیکن کسی حد تک اچھی سیاسی حکمت نے اب حکومت کے لیے حالات سازگار بنادیے ہیں
اور 30نومبر کے لیے پاکستان تحریک انصاف دباؤ میں نظر آرہی ہے۔
جب دھرنے شروع ہوئے تو نوازشریف کی تقاریر میں شکوے ہوتے تھے لیکن آج خیبرپختونخوا کے علاقے حویلیاں میں ہوئے جلسے میں ان کے تیور صاف بتارہے تھے کہ حکومت نے کافی
حدتک تحریک انصاف کوکارنرمیں کھڑاکردیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ ہفتے میں حکومتی وزراکی پے درپے پریس کانفرنسیں بھی حکومتی بالادستی کی کہانی کہہ رہی ہیں گوکہ یہ ساراکچھ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کےلیے ہی تھا لیکن عمران خان کے ٹیکس معاملات اور ان کے جہازپر سفرکواچھال کریہ بتانے کی کوشش ضرورکی ہے کہ حکومت اب عمران خان کا جواب میڈیا میں ہی دے گی عملی طورپر ان کے ساتھ بیٹھ کر معاملے کوحل کرنے کی انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔

عمران خان کی دھرنے کی ضد پر اڑے رہنے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے سوا عام عوام جو عمران خان کی حمایت میں نکل رہےتھے،اس کا سلسلہ اب رکتا دکھائی دے رہا ہے اور 30نومبر کوایک بار پھر اسلام آباد کے ڈی چوک پر جلسے کےلیے بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنا ایک سنجیدہ اور مشکل ٹارگٹ ہے ۔ تجزیہ کاروں کی یہ رائے ضرور ہے کہ
30نومبر کوقابل ذکرافرادڈی چوک پہنچ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیاہوگا؟تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب میں 30نومبرکے جلسے کےلیے کافی سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اس سنسنی کو نتائج میں تبدیل کرنے کےلیے فی الحال کوئی واضح سٹیریٹجی نہ دینے کی وجہ سے کارکنوں میں کچھ حد تک مایوسی دیکھی جارہی ہے ۔تحریک انصاف کے دوسرے رہنما بھی اس سوال کاجواب دینے سے گریز کررہے ہیں کہ آخر30نومبر کایہ جلسہ دیگر جلسوں سے کیوں مختلف اور اہم ہے؟

اگر 30نومبر کو کارکنوں کواسلام آباد میں جمع کرکے انہیں ایک خطاب کے بعد گھروں کوبھیج دیا گیا تو یہ سوال مزید شدت پکڑ جائے گا کہ 30نومبر کےجلسے کےلیے مرنے مارنے اور آخری معرکے جیسی باتیں کیوں کی گئی تھیں اور اگر تحریک انصاف کے کارکن
اس سوال کا جواب پانے میں ناکام ہوگئے تو تحریک انصاف کی اس مہم جوئی کو بہت حد تک نقصان پہنچے گا۔کچھ خبریں ایسی بھی گردش کررہی ہیں کہ حکومت نے تحریک انصاف کو ڈی چوک پر یہ آخری جلسہ کرنے کی یقین دہانی کےبعد اجازت دی ہے اور کہاجارہا ہے کہ اس جلسے کے خاتمے کےساتھ ہی دھرنے کی آخری نشانی کنٹینر بھی ہٹادیاجائے گااور تحریک انصاف حکومت کےساتھ بیٹھ کر دھاندلی کی تحقیقات کےلیے سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن پراتفاق کرکے نتائج کاانتظار کرےگی۔

میاں نوازشریف کے حویلیاں میں کیے گئے بڑے جلسے نے تحریک انصاف کوکافی پریشان کیا ہے اور سوشل میڈیا پر عمران خان کی اس تقریر کے حوالے دیے جارہے ہیں جس می انہوں نے کہا تھاکہ اگر حکمران جماعت خیبرپختونخوا میں ایک جلسہ کرکے صرف 10ہزارلوگ جمع
کرلے تو وہ سیاست کوخیرآباد کہ دیں گے اور وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوجائیں گے۔دوسری طرف اس بار میڈیا بھی کپتان کے 30نومبر کےجلسے کےلیے اتنی سنسنی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوااس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی گزشتہ دن دھاندلی کے ٹھوس ثبوت سامنے لانے کےلیے کئی گئی پریس کانفرنس بھی لوگوں کو دھاندلی سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ اضافی بیلٹ پیپرچھاپنے کےعمل کوکسی بھی صورت دھاندلی کے ثبوت کےطورپر منوایا نہیں جاسکتا۔اضافی بیلٹ پیپرہر الیکشن میں اس لیے چھپتے ہیں کہ ایک بیلٹ پیپر کی کاپی 100صفحات کی ہوتی ہے اور اگر کہیں ووٹوں کی تعداد5سو10ہے تو اس جگہ کےلیے6بیلٹ پیپرہی چھاپے جاتے ہیں۔اس طرح تمام حلقوں کےلیے یقینی طورپر8سے 10لاکھ بیلٹ پیپراضافی پرنٹ ہوجاتے ہیں لیکن اگران کو استعمال کرلیاجائے تو اس کو دھاندلی کے ثبوت کےلیے پیش کیاجاسکتاہے جو کہ نہیں کیاجسکا۔



میراپہلے بھی یہ خیال اور رائے تھی کہ عمران خان جیسی تیز تحریک الیکشن کےلیے تو بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے کہ آپ ووٹرزکو امید دلاکر اپنی طرف متوجہ کرپاتے ہیں لیکن اگر الیکشن بہت دور ہوں تو ایسی مشق صرف تھکاوٹ کاباعث ہی بنتی ہے اور حکومت نے بھی عمران خان کو تھکادیاہے اسی تھکاوٹ کا نتیجہ ہے کہ استعفے کےلیے اڑنے والے کپتان نے رحیم یارخان کے جلسے میں مؤقف تبدیل کرتے ہوئے کہہ دیا کہ نوازشریف دھاندلی کی تحقیقات کےدوران وزیراعظم رہ سکتے ہیں ۔30نومبر بھی آئے گا اور گزرجائے گااور معروضی حالات بتارہے ہیں کہ کپتان کو شیروانی کےلیے مزید3سال انتظار ہی کرنا پڑے گا۔

No comments: