Friday, December 5, 2014

MARYAM NAWAZ AS SPIN DOCTOR



مریم نامہ

میری روزاول سے یہی رائے ہے کہ جس کو بھی عوام اپنے حمکران کے طور پر چن لیں،پھر ملک کو کس طرح چلانا ہے اور اپنی ٹیم کیسے منتخب کرنی ہے؟ کس اہم کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنا ہے،کس کونکالناہے، یہ اس کا اختیارہونا چاہیئے۔ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی ہوتا ہے منتخب سربراہاں اپنی مرضی سے ٹیم منتخب کرتے اور نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظام ان ممالک میں کامیاب ضرور ہے یہاں احتساب کا خود کار نظام اچھی طرح عمل پذیر ہے
۔ہمارے ہاں منتخب سربراہ حکومت کی طرف سے رکھی جانے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کوہرحال میں تنقید کانشانہ بنایاجاتا ہے اور بعض اوقات اچھی نیت سے لگایا گیا قابل آدمی خود کو ایسی صورتحال میں ڈالنے سے ہاتھ کھینچ لیتاہے۔ یہ الگ بات کہ غیر منتخب شخص جس کو چاہے کسی جگہ لگادے اس پر سب زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں (مثال کےطورپرمشرف کی ابتدائی ٹیم ملاحظہ کریں )۔میں اس چیز کاحامی ہوں کہ منتخب سربراہ کو اپنی ٹیم منتخب کرنے کی آزادی ہونی چاہیئے اگر وہ خراب نتائج دیتاہے تو احتساب کے عمل کو خود بخود حرکت میں آکر محاسبہ کرنا چاہیئے اگر ایسا ہوجائے تو پھر درست آدمی درست جگہ لگانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے مختلف عہدوں پر سرکاری و غیر سرکاری تقرریوں پر تنقید کی جاتی
ہے۔سب سے زیادہ تنقید ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف پر کی گئی جب ان کو وزیراعظم یوتھ لون سکیم کی چیئرپرسن کے اعزازی عہدے پر تعینات کیا گیا۔ان کی تعیناتی کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کوکھل کر تنقید کاموقع ملا،تحریک انصاف نے میڈیا میں تومریم کو خوب زوروشور سے تنقید کا نشانہ بنایاہی ساتھ ہی ساتھ  ان کی جماعت کے ایک رکن نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی ہماری پیاری عدالت بھی اسی نتیجے پر پہنچی جس پر درخواست گزار  پہنچاتھا کہ مریم نوازاس عہدے کےلیے موزوں نہیں ہیں۔ اس عدالتی فیصلے سے پہلے ہی عدالت نے پیغام دیدیا کہ مریم کو اس عہدے سے الگ کردیا جائے جس پر مریم نوازشریف اس عہدے سے الگ ہوچکی ہیں۔

مریم سرکاری عہدے سے الگ ہوگئیں کہ اس کا ثبوت سامنے تھا اور عدالت نے فیصلہ کردیا لیکن کیا مریم نوازجو حکمران میاں نوازشریف کی صاحبزادی ہیں، کو کوئی کسی بھی طرح کام کرنے سے روک سکتاہے؟کیا کوئی عدالت ؟ کوئی فرد؟ جواب ہو گا نہیں کوئی نہیں سوائے اگر وہ خود چاہیں تو۔۔۔توپھر ایسی عدالتی مشقیں کیوں ؟ کیا صرف کریڈٹ لینے کےلیے کہ ہم نے یہ کرادیا، وغیرہ وغیرہ؟حالانکہ موزوں تو یہ ہوتا کہ بطور سربراہ یوتھ لون اسکیم ان کی کارکردگی کو مانیٹر کیاجاتا اس میں خامیاں تلاش کرکے انہیں مقدمے کا موضوع بنایا جاتا اور اگر وہ اچھا کام کرتیں تو ان کی تحسیسن کی جاتی لیکن اتنا ظرف ہم میں بطور قوم موجود ہی نہیں ہے۔ ایک سوال یہ بھی کہ کیا مریم کو الگ کرنے کےبعد یوتھ لون اسکیم بند ہوگئی؟اگرایسا نہیں ہے تو پھر اس فضول مشق کیا فائدہ ملا؟

مریم نوازکی تازہ مصروفیات پرپاکستان کے انگریزی روزنامے ڈان نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں ان کومسلم لیگ ن کی نئی  چیف سپن ڈاکٹر کاکہا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز اس وقت میڈیا اور پبلک ریلیشن کےلیے کام کرنے والی حکومتی ٹیم کی غیر سرکاری سربراہ ہیں ۔ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے الزامات کا جواب دینے کےلیے جو بھی مہم ڈیزائن کی جاتی ہے مریم ہی کے دماغ کی تخلیق ہوتی ہے جس کو وزیراطلاعات پرویز رشید،محمد زبیریا ڈاکٹر مصدق ملک جیسے چہروں کی زبانی میڈیا پر لایاجاتاہے۔۔اس حوالے سے 30نومبر کے پی ٹی آئی شو کوخراب کرنے کےلیے وزرا کی طرف سے الزامات پر مبنی تمام میڈیا کانفرنسوں نے عمران خان کو دفاعی پوزیشن پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔



اس کے علاوہ مریم نوازشریف کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر 8لاکھ11ہزارلوگ فالو کرتے ہیں اور مریم ٹویٹر پر بہت زیادہ سرگرم ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی پوری ٹیم  تحریک انصاف کی سائبر فورس کا جواب دیتی ہے اور ٹی وی چینلز براہ راست ٹویٹر سے مریم کی ٹویٹس رپورٹ بھی کرتے ہیں ۔مریم نوازکے اس کردار کوکوئی چیلنج نہیں کرسکتا تو اگر ان کو کام کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا تو پھر بہتریہی نہیں ہوگا کہ مریم سمیت ایسے ہر فرد کو سرکاری طورپرکام کرنے دیاجائے تاکہ کارکردگی کا ریکارڈ رہے اورہربات ریکارڈ پر بھی رہے؟ 

No comments: