Monday, December 15, 2014

PTI PLAN C AND PAKISTAN


پلان سی یا نفرت کی کاشت

پرامن احتجا ج اور پرتششداحتجاج میں صرف رویوں کا ہی فرق ہوتا ہے پرامن احتجاج میں لوگ ٹائر جمع نہیں کرتےبلکہ برداشت اکٹھی کرتے ہیں،سڑکیں بند کرنے کےلیے ٹرالیاں یرغمال نہیں بناتے بلکہ سڑکوں کے کناروں پرکھڑے ہوکر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں،پرامن احتجاج میں میڈیا کو راستہ دیاجاتا ہے اس کا راستہ روکا نہیں جاتا،لاہور میں تحریک انصاف کا احتجاج ایسا پرامن تھا کہ امن کی نئی تعریف مرتب کردی گئی ۔جومعاشرہ اختلاف برداشت کرنےکی ہمت نہیں رکھتا اس کو ختم ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور ہم اس جانب سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔نیاپاکستان بنانے والوں اور پھر اس میں
رہائش کے خواشمندوں کو مبارکباد۔۔
8دسمبرکو فیصل آباد سے شروع ہونے ولا احتجاج کا یہ نیا سلسلہ 15دسمبر کو لاہور میں سیکنڈ لاسٹ مرحلے میں ہے۔یہاں دنیا نے میڈیا چینلز کے ذریعے بدتمیزی کا وہ وہ نظارہ دیکھا کہ خداکی پناہ۔لاہور میں عمران خان کے درس کی تعیبر کے عین مطابق بدتمیزی برادشت کرنے کی باری آج جیو نیوزکی اینکرثناء مرزاکی تھی۔ آپ سوچیں کہ ایک عورت کیسے رونے پر مجبورہوئی ہوگی؟ہم سب بیٹیوں والے ہیں آج اس باپ سے پوچھیں کہ بیٹی کے آنسو دیکھ کر 
کیسالگتاہے؟


فیصل آباد میں تحریک انصاف کا ایک کارکن حق نوازگولی کانشانہ بنا پورے ملک میں ن لیگ پر لعن طعن ہوئی اچھا ہوا وہ اس معاملے میں لعن طعن کی مستحق تھی،حق نوازقتل ہوا تو اگلے دن پھر احتجاج ہوا،یوم سوگ منایاگیا پورے ملک میں غائبانہ نمازجنازہ پڑھاگیا،تحریک انصاف نے آسمان سرپر اٹھایا،رانا ثناءاللہ کی پھانسی کی آوازیں اٹھیں ۔اس کے بعد کراچی کی باری آئی تو حالات یکسر مختلف تھے،کراچی کےلوگوں نے چھٹی منائی تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنی بساط بھر سڑکوں پر احتجاج کیا شہر کی واحد اسٹیک ہولڈر جماعت ایم کیوایم نے پی ٹی آئی کو سہولت فراہم کی، ساتھ ہی وعدہ لیا کہ چپ کرکے احتجاج کرواور شام ساڑھے پانچ بجے کے بعد کوئی یہاں نظر نہ آئے ۔عمران خان نے نرسری پر پانچ منٹ کا خطاب کیا یونہی ساڑھے پانچ بجے واپس گھر کا راستہ لیا ۔کراچی حسب معمول شام کو کھلا کاروبار ہوااور اللہ اللہ خیر صلیٰ۔۔۔۔کراچی میں احتجاج ایم کیوایم کرے یا کوئی اور،پیپلزپارٹی کےلیے سب برابر کہ ان کاشہر میں کوئی اسٹیک ہے ہی نہیں اور نہ قیامت تک ہونے کی کوئی امید۔۔۔

سچ کہتے ہیں کہ یہ صرف پنجاب کی جنگ ہے اس لیے پپنجاب میں ہی لڑی جارہی ہے ۔پشاوراور خیبرپختونخوا کے لوگوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیئے کہ وہاں ان کی اپنی سرکار ہے۔پنجاب ٹھہراغریب کی بھابھی جسے تنگ کرنا پورے محلے کا حق ہے، میں تو اس دن کا سوچ رہا ہوں جب عمران خان وزیراعظم ہوں گے اور ن لیگ اس کے خلاف اسی طرح کی احتجاجی تحریک شروع کرے گی ۔یہی لاہور ہوگا اور یہی فیصل آباد،مناظر ایسے ہی ہوں گے صرف کارکن اور قیادت بدل جائے گی آج نفرت پر اکسانے والے اس دن محبت کی امید کررہے ہوں گے اس دن تحریک انصاف اور عمران خان کو شاید احساس ہوکہ وہ جو آج کررہے ہیں وہ درست نہیں تھا۔۔

عمران کو شکایت عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالتوں کا گھیراؤ کیا جاتا،الیکشن ٹریبیونل کے ججوں کے گھروں کے باہر پہرہ دیا جاتا کہ تحیقیقات کا عمل تیز کیاجائےلیکن مقصد دھاندلی نہیں حکومت کو ناکام کرنا نظرآتاہے ۔لاہور میں احتجاج کیا بدمعاشی تھی سراسر۔۔میٹروبس کو روک کر توڑپھوڑ،غریب رکشے والوں پر تشدد،زبردستی دکانیں بند۔سڑکوں پر چار چار کرسیاں رکھ کر ٹریفک معطل اور یہاں کرسیاں نہ ملیں وہاں ٹائروں کو آگ لگاکر چھوڑ دیا ماحول کو تباہ کرنے کےلیے۔۔۔لیکن سب سے دلخراش پہلو لاہور میں وہ چار افراد جو صرف اس وجہ سے مرگئے کہ اسپتال نہ پہنچ سکے۔۔۔ہمارے سب کے بچے ہیں ماں باپ ہیں ۔۔آپ تصور کریں جب فیروزوالا سے ایک ماں اور باپ اپنے صرف سولہ دن کے معصوم بچے کو چلڈرن اسپتال لےجانے کےلیے ایمبولینس میں اس امید ہر سوار ہوئے کہ شاید ان کا وارث بچ سکے۔۔۔لیکن وہ ماں شاہدرہ میں احتجاج کرنے والوں کو اللہ اور رسول کے واسطے دیتی رہی کہ اس ایمبولینس کو راستہ دے دیاجائے تاکہ اس کا بچہ جائے لیکن ن لیگ کی نفرت میں جلنے والا یہ احتجاج احساسات سے اندھا اور گونگا بہرہ تھا اس کی نظر میں آج باہر نکلنے والا ہر شخص ن لیگ کا حمایتی تھا اور موت کا حقدار۔۔سو وہی ہوا اس بچے نے اسی ایمبولینس میں دم توڑدیا ماں باپ بے بسی کی تصویر بنے اسی ایمبولینس میں بیٹے کی قبر کھودنے کےلیے واپس گھر آگئے ۔۔میں سوچ رہا ہوں اس جان کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ لہو کس کے کھاتے میں لکھا جائے گا ؟ کیا سولہ دن کے اس معصوم فرشتے کے لیے بھی کوئی یوم سوگ منائے گا ؟کیا اس کا بھی غائبانہ جنازہ پڑھاجائے گا؟

No comments: