Wednesday, December 24, 2014

COUNTER TERROR NARATIVE AND PAKISTAN


اب نہیں تو کب؟

یہ بات بالکل سامنے اور واضح ہے کہ اب اگر ریاست پاکستان میں لگی آگ بجھائی نہ جاسکی تو یہ کبھی نہیں بھجے گی،ہم 13سال اس بحث و مباحثے کی نظر کرچکے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہے یا ہماری نہیں ہے۔ اس تیرہ سال بحث نے ہمیں لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا،ہماری قومی قیادت اپنا ووٹ بینک بچانے اور فوجی قیادت خود ساختہ قومی مفاد کے نام پر اچھے اور برے دہشتگردوں کی تقسیم میں پڑی رہی نتیجہ لاشیں،خون اور بارود کے سوا کچھ بھی نہ نکلا،ہمارے اندر سے ان لوگوں کے لیے ہمدردی اچھل اچھل کر باہر آتی رہی ،ہم نے مذاکرات بھی کردیکھے،ہیلی کاپٹروں میں بھر کر ان کے ہمدردوں اور ماہرین کو وزیرستان لےجایا جاتا رہا،ہمیں بتایاجاتا رہا کہ یہ لوگ برے نہیں ہیں
ہمارے اپنے بچے ہیں بس ذرا ناراض ہوکر الگ بیٹھ گئے ہیں ریاست ان کو منالے گی لیکن ریاست ان کو منانہ سکی یایوں کہیں کہ وہ ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ریاست (فوج) نے ان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا توسیاسی قیادت کو اس کی ذمہ داری لینے کا حکم ہوا جو انہوں نے چپ چاپ لے لی۔آپریشن ضرب عضب نے وزیرستان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنا شروع کردیے ،ہمارے پاس چونکہ اطلاعات کا واحد ذریعہ پاک فوج کا محکمہ تعلقات عامہ ہے اس لیے وہاں سے آنے والی حوصلہ افزاخبریں جان کر حوصلہ ملتا لیکن پشاور اسکول پر حملے اور بربریت نے سب کچھ بدل دیا۔ دہشتگردوں نے ہمیں ایسی جگہ سے چیلنج کیا کہ ان کا جواب دینے کے علاوہ کسی کے پاس کوئی چارہ ہی نہ رہا۔

فوج نے ایک بار پھر قائدانہ کردار لیا،آرمی چیف فوری کابل چلے گئے ،وزیراعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کو پشاور میں اکٹھا کرلیا،سب سے مشکل فیصلہ کرنے کی باری تحریک انصاف کی تھی جو فاٹا میں آپریشن اور لڑائیوں کے کٹر مخالف رہے ،ہمیشہ طالبان جیسی تنظیموں سے مذاکرات کے بڑے حامی رہے ان کی سوچ جماعت اسلامی ،اہل سنت والجماعت(لشکر جھنگوی)،لال مسجد،مولانا سمیع الحق اور ان جیسے طالبان حامیوں سے قطعن مختلف نہ تھی لیکن دہشتگردوں نے ہی عمران خان کو مجبورکیا کہ وہ اپنی سوچ بدلیں، ان کی سوچ بدلی ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن ان کی پارٹی نے پہلی مرتبہ نام لے کر طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے جو موجودہ صورتحال میں خوش آئند بھی ہے اورقومی یکجہتی کا اہم تقاضا بھی۔

گزشتہ ایک ہفتے میں بہت کچھ تبدیل ہوتا نظر آیا۔ فوج اور سیاسی قائدین پہلی مرتبہ ایک ہی سمت میں سوچ بچار کررہے ہیں ،قومی ایکشن پلان کمیٹی کی لمبی لمبی نشتیں،ماہرین کی طرف سے دہشتگردی ختم کرنےکےلیے تجاویز مرتب کی گئی ہیں۔گوکہ سامنے آنے والی تجاویز میں کوئی بھی نئی نہیں ہے،چاہے وہ مدارس میں اصلاحات ہوں یا کریمنل جسٹس سسٹم میں تبدیلیاں لیکن اگر کوئی چیز نئی ہے تو وہ عزم ہے جو اس ناسور کو قابو کرنے میں ہماری مدد کرسکتاہے ایک ہفتے میں دو مرتبہ پوری قومی قیادت اور عسکری لیڈرشپ کا ایک جگی اکٹھے ہوکر کوئی قابل عمل مشترکہ پالیسی مرتب بنانا واقعی حوصلہ افزا ہے۔


ہم پاکستانی ہتھیلی پر سرسوں جمانے اور ایسے کام کرنے والوں کو ہی اچھا خیال کرتے ہیں لیکن ملک سے دہشتگردی اور دہشتگردوں کو ختم کرنا ہتھیلی پر سرسوں جمانے سے قدرے مختلف ہے اصل کام اس قیادت نے نہیں کرنا بلکہ ہمیں اس ریاست کے باسیوں نے کرنا ہے۔ فوج ہتھیار اٹھانے والوں سے لڑ سکتی ہے انہیں شکست دے سکتی ہے لیکن ہماری سوچوں سے انتہاپسندی کو ختم کرنے کےلیے کسی فوجی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے احساس کی ضرورت ہے جو ہمیں خود اپنے لیے اور اپنے بچوں کےلیے پیدا کرنا ہے ۔ریاست کی طرف سے ناانصافیاں ہوئی ہیں اس سے انکار نہیں لیکن ہم متحد ہوکر اس ریاست کو مجبورکرسکتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لے ۔اس اہم اور کڑے وقت میں ہمٰیں تاویلوں سے نکل کر قیادت کے پیچھے کھڑے ہوکر ان لوگوں کو پیغام دینا ہے جنہوں نے ہمارے بچے قتل کیے ہیں۔اگر ہم اپنے عمل سے آج ان دہشتگردوں کو تنہا نہ کرسکے تو پھر کوئی طاقت انہیں ختم نہیں کرسکے گی ۔حکومتی اقدامات استعارا ہیں اصل طاقت اس معاشرے نے ان کو دینی ہے ہم سبھی کو سوچنا ہوگا کہ کیا ہم یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ ہمارے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوجائیں ؟ ہم پر روزگار تنگ ہوجائے ؟ ہم آپنی آزادی کھودیں؟اگر ہمیں یہ قبول ہے توپھر ہمیں اپنی تاویوں میں لگے رہنا چاہیئے لیکن اگر قبول نہیں ہے تو پھر یہی وقت ہے کر گزرنے کا کہ اب اگر کچھ نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوپائے گا یہ آگ جلتی رہے گی اور بہت جلد ہمارے اپنے گھروں کے اندر پہنچے گی ۔۔کیا ہم اس کا انتظار کریں گے یا اپنے حصے کا پانی اس جلتی پر ڈالیں گے؟

No comments: