Thursday, December 25, 2014

MILITARY COURTS IN PAKISTAN


فوجی عدالتیں

پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب  سویلین کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے فوج میں رائج عدالتی نظام کواپنایا جارہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے پہلے بھی جب  فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو ملک میں میاں نوازشریف کی حکومت تھی جب میاں نوازشریف کے دوسرے دور حکومت کے دوران 1998میں فوجی عدالتیں  کراچی میں قائم کی گئی تھیں۔

مسلح افواج میں  فوجیوں کی  عدالتیں جیگ برانچ کے تحت موجود ہیں اور تینوں مسلح افواج سے منسلک افراداور افسروں کے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں ۔یہی عدالتیں آرمی جوانوں کے خلاف مقدمات قائم بھی کرتی ہیں
اور یہ عدالتی نظام 1952کےملٹری ایکٹ کے تحت قائم کیا گیاہے ۔آرمی ایکٹ 189شقوں پر مشتمل ایک جامع دستاویز ہے جس میں ان عدالتوں کے دائرہ کار اور ٹرائل کےلیے رہنما اصول موجود ہیں

سویلینز کے مقدمات کےلیے پہلی  مرتبہ فوجی عدالتیں کراچی میں اس وقت قائم کی گئیں جب شہر میں ایم کیوایم اور ایم کیوایم حقیقی کے درمیان لڑائی زوروں پر تھی اور کراچی  میں حکیم سعید کے قتل نے امن وامان کی صورتحال کو بہت ہی بھیانک بنادیاتھا۔میاں نواز شریف دوتہائی اکثریت کےساتھ ملک پر حکومت کررہے تھے اور اس وقت  سندھ میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت قائم تھی ۔نوازشریف نے کراچی میں جرائم کے خاتمے اور تیز ترین ٹرائل کےلیے ایک آرڈینینس کے ذریعے 20نومبر1998کوفوجی عدالتیں قائم کردیں۔

فوجی عدالتیں کراچی کے ملیر کینٹ میں بنائی گئیں  جس کے بعد سندھ حکومت کے ایک نوٹی فیکیشن کے تحت پراسیکیوشن ٹیم بنائی گئی ۔ایک عدالت  ایک کرنل اور دومیجروں پر مشتمل تھی۔ یہ فوجی عدالتیں صرف دو ماہ ہی کام کرپائی تھیں کہ سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن پر17فروری 1999کو انہیں غیرقانونی قراردے کر ختم کردیا ۔دوماہ میں عدالتوں نے بہت سے ملزموں کا ٹرائل کیا جن میں سے ان عدالتوں سے سزا پانے والے کم ازکم دو مجرموں رفیع ببلی کو 31دسمبر 1998کو ایک بچی کا ریپ کرنے پر پھانسی دی گئی دوسرا مجرم شبیر عرف حبیب بلوچ تھا جس کو ڈکیتی اور قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی ۔

فوجی عدالتوں کا دائر اختیار سنگین جرائم،جیسا کہ اغوا،قتل اور گینگ ریپ جیسے جرائم سنناتھا۔ کوئی ہائی کورٹ یاسپریم کورٹ ان میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی تھی یہاں سے سزا پانے والوں  کی اپیل بھی فوجی عدالت میں سنی جاتی تھی جس کو ایک بریگیڈیئر یامیجر جنرل  سنتاتھا۔جو ایک دن میں فیصلہ کردیتا اورزیادہ تر ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقراررکھاجاتا۔عام عدالتوں کی طرح یہاں کوئی تفصیلی فیصلے جاری نہیں کیے جاتے تھے بلکہ صرف دو تین لائنوں میں فیصلہ دیا جاتاتھا جس میں جرم اور سزا لکھی جاتی تھی۔


میاں نوازشریف کی طرف سے کراچی میں امن وامان کےلیے قائم کی گئی ان فوجی عدالتوں پر پورے ملک میں تنقید کی گئی اور سیاسی جماعتیں اس اقدام کو برے فیصلے کے طورپر یاد کرتی رہی ہیں ۔پشاور سانحہ کے بعد ایک بار پھر دہشتگردوں کے لیے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔موجودہ فیصلہ پہلے والے سے بہت مختلف ہے۔نوازشریف نے 1998میں فوجی عدالتوں کا فیصلہ ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے کیا تھا جس کی آئین پاکستان میں گنجائش نہیں تھی اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس کو ختم بھی کردیا تھا لیکن موجودہ فیصلہ کرنے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے گھنٹوں اکٹھے بیٹھ کر سوچ بچار کی ہے
 ۔فوجی عدالتوں پر پیپلزپارٹی،ایم کیوایم،اے این پی اور جماعت اسلامی کے تحفظات کو سول اور عسکری قیادت  نے دور کیا ہے اور یقین دلایاہےکہ یہ عدالتیں صرف دہشتگردوں کا ہی ٹرائل کریں گی اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایاجائے گا۔دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ ان عدالتوں کے قیام کےلیے آئین میں ترمیم کرکے ان کو آئینی اورقانونی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے ۔اس مرتبہ ان عدالتوں کا نام بھی فوجی عدالتیں نہیں رکھا جائے گا بلکہ اسپیڈی ٹرائل کورٹ کے نام سے دوسال کےلیے قائم کی جارہی ہیں ۔سب سے بڑی بات کہ یہ عدالتیں اس نیشنل ایکشن پلان کا اہم حصہ ہیں جس پر اس وقت پوری قوم متفق ہے اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کےلیے آخری بار مل کر زورلگارہی ہے۔امید یہ بھی ہے ان عدالتوں کے قیام سے لاپتہ افراد کامسئلہ بھی حل ہوتا نظر آرہا ہے کہ ایسے افراد کو لاپتہ رکھنے کے بجائے فوری ان عدالتوں میں پیش کیا جاسکے گا۔
آخری اہم بات کہ اگرقومی قیادت فوجی عدالتیں بنان ےکےلیے آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے تو بہتر ہوگا کہ لگتے ہاتھ ایک ترمیم کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتربنانے اور پراسیکیوشن میں نقائص دورکرنے کےلیے بھی کردی جائے تاکہ فوجی عدالتوں کے ساتھ ساتھ سول عدالتوں میں بھی کچھ بہتری لائی جاسکے۔۔

No comments: