Monday, January 12, 2015

ARMY PUBLIC SCHOOL REOPEN


142جانیں بھی کم پڑگئیں؟


پاکستان میں علم کی شمع گُل کرنے والوں کے ارادے خاک ہوئے،پشاور آرمی پبلک اسکول کے سیکڑوں شہیدوں نے اپنے خون سے علم کے دیے ہمیشہ کےلیے روشن کرکے ہماری نسلیں تباہ و تاریک ہونے سے بچالی ہیں۔۔ایک بار پھر ان معصوم شہیدوں کا شکریہ،ہمارے بچے ایک ماہ کے وقفے کے بعد آج اسکول گئے اور خیریت سے واپس گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔کم ازکم آج کےلیے ماؤں کے کلیجے ٹھنڈے ہوئے لیکن کل اور آنے والے
تمام دنوں کی تشویش ابھی بھی ٹیس پہنچا رہی ہے۔ پشاور کے بچوں نے قوم کو متحد کرنے کےلیے اپنی جان دی لیکن اس قوم اور اس ملک کا کوئی کیا کرسکے گا کہ جس کے باسیوں کو متحد کرنے لیے 142معصوم جانیں کم پڑگئیں کاش اس وقت تقسیم کی راگنی الاپنے والوں میں سے کسی کا بچہ اس اسکول میں دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوگیاہوتا۔۔

میں فرانس میں ہمارے نبی اکرم کے توہین آمیزخاکے بنانے والے میگزین کے
کارٹونسٹوں کی ہلاکتوں کے بعد پیرس سے آنے والی تصویریں دیکھ کر اپنے اندر شرمندگی محسوس کررہاہوں ۔ہمارے مطابق ان کا نظریہ گمراہ کن ہے پھر بھی فرانس نے متحد ہونے کا وہ نمونہ پیش کیا کہ صرف دودن میں 40ممالک کے سربراہان کو اپنے ملک میں بلاکر ملین مارچ کردیا۔صرف17لوگوں کی ہلاکت کے خلاف ڈیڑھ لاکھ لوگ باہر نکل آئے اور قتل کرنے والوں کو اتحاد کا پیغام دیا دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے نزدیک ہمارا نظریہ درست اور سب سے افضل و اعلیٰ پھر بھی 140بچے کھو کر بھی ہم تاویلیں ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ ہمارے بچے مارنے والوں کے خلاف ایک قانون پاس کرانے کی باری آئی تو ہم اس کو متفقہ طورپر پاس نہ کراسکے؟ ہم کس سے توقع رکھیں کہ دہشتگردوں کو ختم کردیں گے کیا صرف آرمی ؟ جی صرف آرمی۔۔۔پھر کیوں کہتے ہیں کہ فوج مداخلت کررہی ہے ۔۔کیوں نہ کرے مداخلت جب آپ ان کو خود موقع دیتے ہیں کہ آؤ ہمارے حصے کا کام بھی آپ ہی کرو۔۔جب کوم وہ کریں تو کریڈٹ آپ کیوں لو؟


لیڈر سیاسی ہوں یا فوجی ۔۔وہ خود فائلیں پکڑ کریا بندوق اٹھا کر فیصلے نہیں کرتے لیڈر صرف مثالیں قائم کرتے ہیں استعاروں میں دکھاتے ہیں کہ وہ لیڈ کررہے ہیں۔۔۔دہشتگردوں نے
ہمارے اسکولوں کونشانہ بنایا۔ ہم نے اپنے تمام اسکول بند کردیےتاکہ تیاری کرکے سیکیورٹی انتظامات بہتربناکر ان کو کھولا جائے۔۔آرمی پبلک اسکول کو دوبارہ تعمیر اور دہشتگردوں کے ناپاک نشانات مٹانے کےلیے بند کیا گیا ۔۔12جنوری کی تاریخ پاکستان کے اسکول کھولنے کی تاریخ مقررکی گئی۔۔آرمی کے سپہ سالار اپنی بیگم کے ہمراہ پشاور آرمی اسکول کے گیٹ پر کھڑے ہوگئے اسکول آنے والے بچوں کا استقبال کیا۔۔ سب نے ان کی جرت اور قیادت کی داد دی ۔۔کیا آج کے دن کوئی سیاسی لیڈر بھی اس ملک میں ہے یا یہ کام بھی آرمی چیف کے سپرد کرکے سب سو رہے ہیں؟ اس صوبے پر حکومت کرنے والے عمران خان کہاں ہیں۔۔دن کے 11بجے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر لکھ کہ وہ پشاور جانا چاہتے تھے لیکن ان کو روک دیا گیا ۔۔خان صاحب نے یہ نہیں بتایاکہ ان کو کس نے روکا تھا یہ بھی نہیں بتایاکہ صرف پشاور جانے سے روکا تھا یا گھر سے نکلنے سے ہی روک دیا تھا۔۔خان صاحب ویسے تو آپ کو آرمی چیف کے ساتھ پشاور آرمی اسکول کے گیٹ پر کھڑا ہوکر بچوں کو بتانا چاہیے تھا کہ ان کی حفاطت کے ہم تیار کھڑے ہیں لیکن اگر وہاں جانا واقعی کوئی مسئلہ تھا تو کسی بھی اسکول کا انتخاب کرتے اور وہاں چلے جاتے لیکن دہشتگردوں کو سخت پیغام دینا شاید خان صاحب کے ایجنڈے شامل نہیں ہے ۔۔۔

عمران خان صاحب ہی نہیں اس جرم میں ہمارے وزیر اعظم ان سے زیادہ شریک ہیں وہ بھی آج کہیں نظر نہیں آئے۔ نیشنل ایکشن پلان بنانا اور اس پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کرنا یقینی طورپر اہم کام ہے لیکن آج کے دن ان 142بچوں سے اظہار یکجہتی اور دہشتگردوں کو سخت پیغام دینے میں کونسی چیز آڑے آرہی تھی؟ کیا اپنا آرام اتنا ہی عزیز ہے کہ ایک دن کےلیے جلدی بستر چھوڑنا ہی مشکل تھا۔۔اگر ایسا ہی ہے تو ہوگئی دہشتگردی کے خلاف جنگ اور جیت لی ہم نے یہ جنگ۔۔۔۔اور جاتے جاتے مولاناز سے بھی ایک سوال کہ اگر وہ اس وقت قوم کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ انہی کے ساتھ ہیں جنہوں نے ہمارے بچے مارے ہیں؟


No comments: