Wednesday, January 14, 2015

IMRAN TASTED HIS OWN MEDICINE


خان صاحب ۔۔اپنےدوست کی سنیں

Whats goes around, Comes arounds
یہ جملہ نہایت ہی دکھی دل کے ساتھ چودھری نثار علی خان نے اس وقت اپنے بچپن کے دوست عمران خان کے لیے کہا تھا جب وہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنے میں مصروف تھے اور روز اپنے خطابات میں حکومت کو للکارتے اور گونوازگو ۔سمیت نئے نئے نعرے تراشتے اور مظاہرین سے سن کر خوش ہوتے تھے،میں نے تو اس وقت بھی لکھا تھا کہ عمران خان نوازشریف کےلیےمشکل پیدا کررہے ہیں لیکن خود اپنے لیے ایک ٹرینڈ سیٹ کررہے ہیں، قوم کو بتارہے ہیں کہ حکمرانوں کو کس طرح تنگ کیا جاتاہے
۔کپتان تو کپتان ہیں انہوں نے خود بھی کہا ہے کہ وہ اس بات سے بہت آگے نکل گئے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہیں گے اس لیے وہ وہی کرتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں۔اس طرز عمل کا نتیجہ انہوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے دورے کے دوران دیکھ لیاجس پر صرف افسوس اور صرف افسوس ہی کیاجاسکتاہے آج نہ ان کے لیے ٹھیک ہوا نہ ان کی حکومت نے ان والدین کے ساتھ ٹھیک کیا جن کا درد صرف ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی بانٹا جاسکتاہے انہیں غمگین ہونے یانہ ہونے کا طریقہ نہیں سکھایاجاسکتا۔

بارہ جنوری کو جس دن آرمی پبلک اسکول کھولا گیا تو یہاں آرمی چیف کو بچوں کاستقبال کرتے دیکھ کرشہدا کے والدین اور پاکستان کے تمام والدین کو اچھا لگا
اسی طرح کم ازکم اس صوبے(خیبرپختونخوا) کے عوام یہ توقع کررہے تھے اور بجا کررہے تھے کہ جس پارٹی کو انہوں نے ووٹ دے کر اس صوبے کاحکمران بنایا ہے اس کا سربراہ اس مشکل اور تکلیف دہ گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑا ہوگا کہ قیادت نے خود سکیورٹی کسی کو نہیں دینی بس استعارے ہوتے ہیں جو ظاہرکرتے ہیں کہ کوئی رہنمائی کرنے والا موجود ہے،لیکن اس دن عمران خان پشاور نہ گئے بلکہ جب پوری قوم بچوں کو اسکول بھیج کر دہشتگردوں کو پیغام دے رہی تھی کہ ان کو ڈرانے والے ناکام ہوئے علم کی شمع بجھانے والے ارادے خاک ہوئے عین اسی وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے گھر بنی گالا میں شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری کے ہمراہ اپنے لاہور والے حلقے این 122کی جائزہ رپورٹ میں اپنی جیت اور ایازصادق سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے اس پوری پریس کانفرنس میں انہوں نے سانحہ پشاور پر ایک لفظ نہ کہا۔انہوں نے کہا کہ آرمی نے اس دن انہیں پشاور آنے سے منع کیا تھا ۔لیکن سوال یہ کہ کیا کسی بھی اسکول جانے سے منع کیاتھا؟

عمران خان دوسرے دن بھی نہ گئے دوسرے دن سراج الحق آرمی اسکول گئے
انہیں کسی نے تنگ نہ کیا انہوں نے بچوں کا دکھ بانٹا،اس دوران شہداکے والدین کا غصہ بڑھتا گیا اور اس کا نتیجہ اس وقت نکلا جب عمران خان بدھ کے روز اپنی بیگن ریحام خان کوساتھ لےکر21گاڑیوں کے پروٹوکول میں سادگی کا منہ چڑاتے  آرمی پبلک اسکول پہنچے۔انہوں وہاں پر گوعمران گو جیسے نعروں کا استقبال ملاکنٹینر پر ایسے نعروں پر جھومنے والے وزیراعلیٰ کے پی کے اور اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کو اپنے قائد کی شان میں گستاخی پسند نہ آئی انہوں نے شہدا کے والدین سے کہا کہ ،،کیا یہ اسکول تمہارے باپ کاہے،، اس قیصر نے وہاں موجود والدین کو گالیاں دیں ۔پنجاب پولیس کو حکمرانوں کے حق میں استعمال کے طعنے دینے والوں نے اپنے حق میں استعمال ہونے والی خیبرپختونخوا پولیس کا ہاتھ تک نہ روکا۔شاہ سے زیاد شاہ کی وفاداری اپنی جگہ لیکن کیا شہید بچوں کے والدین کے دکھ سے زیادی ضروری اور بڑی تھی ؟

اس سانحہ کے بعد کےپی کے کے وزیراطلاعات نے میڈیا کے سامنے آتے ہی سیاست شروع کردی کہ احتجاج کرنے والے اے این پی اور ن لیگ کے پلانٹڈ لوگ تھے ؟خداکا خوف کریں ۔۔شہید بچوں کے والدین کی ایسی توہین؟چلو اگر ان والدین کا تعلق اے این پی سے ہے بھی تو اے این پی کا بچہ مرجائے تو دکھ کیا کم ہوتاہے اور تحریک انصاف کا خداناخواستہ ہو تو درد زیادہ ہوتاہے؟اور عمران خان نے پریس کانفرنس کی تو اس کانفرنس کو شہدائے پشاور کے لیے وقف کرنے ان سے تاخیر سے آنے کی معافی مانگنے کےبجائے دوجملوں کے بعد پھر وہی دھاندلی کی راگنی اور دھرنوں کی دھمکی شروع کرلی۔۔خان صاحب آج کے دن تو کم از کم قوم کو اتحاد کا سبق دے دیتے کہ آپ لیڈر ہیں۔۔۔۔

خان صاحب ابھی بھی وقت ہے اپنے بچپن کے دوست کی بات پر کان دھریں ورنہ اس دن کیا ہوگا جب آپ اس ملک کے حکمران ہوں گے اور پھر اسی ڈی چوک پر آپ کے گھر کے باہر دھرنے ہوں گے اور گوعمران گوکے نعرے لگ رہے ہوں گے ۔۔کہ لیڈر ٹرینڈ سیٹ کرتا ہے چاہے وہ اسی کے راستے کے کانٹوں میں کیوں نہ بدل جائیں؟ میں یہ بالکل نہیں کہوں گا کہ خان صاحب آج خیبر پختونخوا میں گوعمران گوکے نعرے لگ گئے ہیں اور آپ اپنا کیا وعدہ پوراکریں کہ پشاور میں ایک شخص بھی گوعمران گوکہہ دے تو میں نیا الیکشن کرادوں گا۔۔۔۔۔

No comments: