Friday, January 23, 2015

PAKISTAN... FROM REKO DIQ TO LNG



پاکستان کےٹھیکیدار

ہم (یعنی ہمارے حکمران) بھی عجیب مخلوق ہیں کہ جو ہمارے پاس نہیں ہے وہ تو باہر سے خرید ہی رہے ہیں اور جو ہمارے پاس ہے اس کو بھی باہرہی بھیج رہے ہیں اور قوم کو ترقی کی بتی کے پیچھے لگارکھا ہے۔کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر اور دنیا کا ببرشیر بنادیں گے عملی حال یہ ہے کہ ملک میں پٹرول ہے نہ
بجلی نہ گیس ۔نوازحکومت کی 20ماہ کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ اگلے 40ماہ بھی بھی ایسے ہی آگ وغیرہ بھجاتے بھجاتے گزرجائیں گے اور آخری نعرہ یہی ہوگا کہ ہمیں مسائل ہی اتنے زیادہ ورثے میں ملے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر چڑھانے کا موقع ہی نہ ملا ورنہ ہم نے تو 2025تک کا منصوبہ بنارکھا تھا لیکن یہ نعرہ نہ پی پیپلزپارٹی کے کام آیا نہ ن لیگ کوایک اور باری دلاسکےگا۔ہاں دہشتگردی کاجن قابو میں آگیا تو کچھ فائدہ حکومت کو مل سکتاہے لیکن ابھی سے ہی سب کو پتہ  ہے کہ اس معاملے میں ،،چیف،،کون ہے؟

نوازحکومت آنے کے بعد اس سوچ کوکافی تقویت ملی ہے کہ ہم آہستہ آہستہ تمام محکمے باہر کے ممالک کو ٹھیکے پر دیے  چلے جارہے ہیں،معاملہ لاہور کی صفائی کو ہویا ٹرانسپورٹ سسٹم کا سب کچھ ترکی چلا رہا اور شہبازشریف یہ فیصلے کررہے ہیں کہ کوئی محکمہ ترکی کو ٹھیکے پر دینا کب اور کیسے ہے ۔سندھ حکومت بھی ایسی کئی ہی خواہشیں رکھتی ہے لیکن اس کی روایتی سستی اور کاہلی آڑے آجاتی ہے یاپھر کوئی شہری متاثرہ فریق بن کر عدالت پہنچ جاتاہے جیسا کہ کراچی سرکلر ریلوے میں جاپان کے ساتھ کیاگیا۔

پاکستان میں موجود قدرتی گیس کے ذخیرے گاڑیوں کے سائلنسروں سے دھواں بن کر اڑانے کےبعد ہمارے ملک سے گیس ختم ہوتی جارہی ہے یا اسے نکالنے کےلیے کوئی بیرونی ٹھیکیدار نہیں مل رہا شاید اس لیے بھی کہ یہ ذخائر پنجاب میں نہیں ہیں ورنہ ترکی یاچین کو تلاش کا کام سونپا جاچکاہوتا ۔بحرحال ملک سے قدرتی گیس ختم ہونے پر سابق صدر زرداری جلدی جلدی ایران جاکر اس گیس پائپ لائن کا افتتاح ایسے وقت میں کرکے آگئے جب وہ ایوان صدر میں اپنا آخری وقت گزاررہے تھے اقتدار چھورٹے وقت ایسے معاہدے کرنا جو آنے والے حکمرانوں کے گلے پڑیں اخلاقیات تو اس کی اجازت نہیں دیتی لیکن پاکستان میں اخلاقی اقدارجیت کی ٹرافیوں کی تلاش میں گم ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔اس پائپ لائن منصوبے کے افتتاح کو دوسال گزر چلے ہیں لیکن اس پر کام آگے بڑھا نہ بڑھناتھا اور سے اس ریاست کو جرمانوں کی مد میں اربوں ڈالر الگ دینے پڑیں گے ۔ اس کے ساتھ پیپلزپارٹی کی حکومت قطر سے ایل این جی کی درآمد کا لولی پاپ بھی اگلی حکومت کو پکڑا گئی تھی ۔سپریم کورٹ نے 2010میں حکومت کو ایل این جی کی اس مہنگی ڈیل سے روک دیا تھا لیکن افتحار چودھری کی رخصتی کے بعد موجودہ حکومت نے ایک بار پھر ایل این جی ملک میں لانے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔عین اس وقت جب ملک میں پٹرول کا بحران عارضی سنبھلا ہے ہمارے وزیر پٹرولیم قطر میں ایل این جی ڈیل پر بات چیت کے بعد واپس لوٹے ہیں ۔جو تفصیلات سامنے آہی ہیں ان کے مطابق پاکستان قطر سے مہنگی ترین ایل این جی درآمد کرنے جارہا ہے ۔پاکستان 14.5ڈالر فی   ایم ایم بی ٹی یو(ملین برٹش تھرمل یونٹ)کے ریٹ پر یہ گیس خریدنے جارہا ہے تو مہنگی ترین ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں انتہائی کم ہونے پر ایل این جی بھی سستی ہوئی ہے اور اس وقت اس کی قیمت عالمی منڈی میں 9.5ڈالر ہے اور بھارت اسی قطر سے ایل این جی 10.5ڈالر پر خریدرہا ہے لیکن پاکستان 15سال کےلیے 14.5ڈالر پر کیوں خریدنے جارہا ہے اس کا جواب شاید حکومت کے پاس بھی نہیں کہ یہاں اس طرح کے سودوں کی تہیں بعد میں کھلتی ہیں۔

یہ تو حال اس چیز کاہے جو ہمارے پاس نہیں ہے اور ہم باہر سےخریدکر اندرلارہے ہیں لیکن اس کا کیا کریں جو چیز ہمارے پاس ہے لیکن ہم اس کو باہر دینے پر تلے بیٹھے ہیں ۔یہ ذخیرہ ہے سونے اور کاپر جیسی دھاتوں کا جو بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے ریکو ڈک میں پایاجاتاہے ۔اس حوالے سے بھی حقائق بڑے ہی دلچسپ ہیں ۔1993میں اس وقت کے نگران دور حکومت میں جب امریکی میڈ معین قریشی پاکستان کے وزیراعظم تھے اور نصیرمینگل نگران وزیراعلیٰ بلوچستان تو انہوں نے اپنے تمام تر اختیارات سے تجاوزکرتے ہوئے ریکو ڈک سے سونا نکالنے کا سودا آسٹریلیا کی ایک کمپنی بی ایچ پی سے یوں کیا کہ کوئی خراب چیز بھی گھر سے باہر نہیں پھینکتا۔سونا نکالنے پر 75فیصد حصہ اس کمپنی کا اور 25فیصد حصہ بلوچستان حکومت کو ملے گا اور صرف 2فیصد رائلٹی اس کے حصے میں آئےگی۔یہ معاہدہ 15سال چلتارہا پاکستان سے سونا اور کاپر نکل کر باہر جاتی رہی ایک نگران حکومت کے بنائے گئے معاہدے کو کسی منتخب اور فوجی حکومت نے منسوخ کرنے کی ہمت نہ کی کسی نے کوئی سوال نہ اٹھایا؟ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے 2008میں نوٹس لیا اور اس معاہدے کو پاکستان کے خلاف قراردے کر ختم کردیا ۔ٹیتھیان کمپنی عالمی عدالت چلی گئی لیکن رسوائی ملی اور اب عدالت سے باہر کسی سمجھوتے کی تلاش میں ہے۔بلوچستان میں پایا جائے جانے والا سونے کا یہ ذخیرہ دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہے جو ہم لوہے بھی سستا لٹاتے رہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو ایشیاء کا ٹائیگر بنادیں گے۔۔اگر ایسے ہی ٹائیگر بنے گا تو پھر یہ ٹائیگر تو بن جائے گا لیکن وہ ٹائیگرپاکستان کا نہیں کسی اور کی ملکیت ہوگا۔۔۔۔

No comments: