Tuesday, January 27, 2015

US PRESIDENT OBAMA,S VISITS TO INDIA, WHY PAKISTAN IGNORED?



اوباما پاکستان کیوں نہ آئے؟

پاکستان کی 67سالہ تاریخ میں3آئین،4مارشل لاء،2وزرائےاعظموں کاقتل اور درجنوں کی معزولی۔۔۔۔بھارتی تاریخ میں صرف ایک آئین اور اب تک کسی
وزیراعظم کوجبری طورپر نہیں
نکالا گیا ۔۔پھربھی اتنا غصہ اور شکوے کہ امریکیصدربھارت کے دورے پرآیا اور پاکستان کو نظراندازکیا۔مزید نفرت کہ امریکی صدر جس کو کسی بھی تقریب میں 45منٹ سے زیادہ رکنے کی اجازت نہیں وہ ڈھائی گھنٹے کھلے آسمان تلے بارش میں بھارتی فوجی قوت کا مظاہرہ دیکھتے ہماری چھاتی پر مونگ دلتارہا۔۔۔کیا واقعی غصہ جائزہے۔۔۔؟


چودہ اگست 1947میں پاکستان کا جنم ہوا اور9سال تک یہ ملک آل انڈیا کے 1935کے قانون کے تحت چلتارہا، جو پہلا آئین اس ملک کو چلانے کےلیےبنایاگیا وہ1956میں نافذ کیا گیا ۔ان نو سالوں میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی ماردی گئی۔

۔1956کے آئین کے مطابق ملک  میں پارلیمانی جمہوری نظام بنایاگیا اس آئین کے تحت میجرجنرل صاحبزادہ سیدسکندرمرزاملک کےپہلے صدر بنے۔لیکبن چونکہ فوج سے تھے اس لیے پارلیمانی نظام پر مبنی آئین انہیں سخت ناپسند تھا لہٰذا اپنے
جنرل سکندرمرزا
ڈھائی سالہ دورمیں چارمنتخب وزرائے اعلیٰ کو گھر بھیج دیا اور جنرل ایوب کو دعوت دی کہ وہ ملک میں مارشل لاء نافذ کردیں جنہوں نے 1958میں مارشل لاء لگاکر پہلے آئین کو ادھیڑ کررکھ دیا اور پھر مارشل لاء کی دعوت دینے والے سکندرمرزا صاحب کوٹھڈامارکرقصر صدارت سے نکالااورخود صدر پاکستان بن گئے۔

ایوب خان چونکہ مارشل لاء ائڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر بھی تھے اس لیے نئے آئین کو صدارتی بنانے میں دلچسپی لینا فطری سی بات تھی ۔پھر
جنرل ایوب خان
ایسے ہی ہوا۔پاکستان کا دوسرا آئین ایوب خان کے دورمیں 1962میں نافذ کیا گیا ۔یہ آئین بھی صرف 7سال تک چل سکا کہ 24مارچ 1969کو صدر ایوب خان نے آرمی چیف جنرل آغا محمد یحیٰ خان کو خط لکھا کہ وہ ملک میں مارشل لاء نافذ کردیں کہ اس ملک کو چلا نااب ان کے بس کی بات نہیں رہی۔جنرل محمد یحیٰ خان نے ایوب خان کی درخواست  پرکمال ہمدردی کامظاہرہ کرتے ہوئے مارشل لاء نافذ کیا،آئین پاکستان کاخاتمہ کرتے ہوئے لیلگل فریم ورک آرڈر جاری کردیا۔

جنرل یحیٰ خان نے ملک میں 1970کو عام انتخاب کرائے جس میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو نے واضح اکثریت حاصل کی ۔حکومت بنانے پردونوں جماعتوں میں تنازع کھڑا ہوا،بھٹو چاہتے تھے کہ ملک پر حکومت ان کا حق ہے لیکن مجیب سمجھتے
جنرل یحیٰ خان
تھے کہ انہں حکومت بنانے کا اختیار ملنا چاہیئے ۔مجیب الرحمان نےمسئلہ حل کرنے لیے 6نکاتی فارمولہ دیا لیکن اس پر عمل ہونا تھا نہ ہوسکا۔13فروری 1971کو ۔جنرل یحیٰ خان نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 3مارچ کو ڈھاکا میں منعقد ہوگا اس اعلان سے بھٹو کو دھچکا لگا۔14جنوری 1971کو جنرل یحیٰ نے مجیب الرحمان کو پاکستان کا وزیراعظم نامزد کردیا اور انہیں اسمبلی اجلاس کے بعد حکومت بنانے کی دعوت دی ۔ اس اعلان کے بعد بھٹو نے ملک میں احتجاج شروع کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کابائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا ۔جنرل یحیٰ نے دباؤ میں آکر قومی اسمبلی کا اجلاس منسوخ کردیا جس کے بعد عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کا آغازکردیا۔ اس تحریک کو کچلنے کےلیے فوج کو مشرقی پاکستان بھجوادیاگیا۔یہاں تحریک آزادی نے جنم لیا۔بھارت نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور اس تحریک کاانجام 16دسمبر1971کوپاکستان ٹوٹنے اور 90ہزارفوجی بھارت کے ہاتھوں جنگی قیدی بننے پر ہوا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے ٹھیک 4دن بعد جنرل یحیٰ نے حکومت بھٹو کے ہاتھ میں
ذوالفقار علی بھٹو
دی جو صدر پاکستان اور پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربن گئے ۔ بھٹو نے ملک چلانے کےلیے نئے آئین کی تیاری شروع کردی ۔2سال کی مشاورت اور تیاری کےبعد ملک پاکستان کا ایسا آئین بنا جو کئی بارمعطل اور منسوخ ہونے کے باوجود آج تک چل رہا ہے یہ آئین اپریل 1973کو قومی اسمبلی سے منظورہوااور14اگست 1973کو نافذ کردیا گیا ۔یہ آئین نافذہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت چھوڑ کر وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کل 6سالہ دوراقتدار کا خاتمہ پھر ایک ڈراؤنے خواب یعنی مارشل لاء پر ہوا جب آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے آپریشن فیئرپلے کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے وزیراعظم کو قید، آئین کو معطل اور اسمبلیوں کو توڑنے کااعلان کیا۔اس کے بعد پاکستان کی عدلیہ نے اس وزیراعظم کو سزائے موت سنائی اور پھانسی پر چڑھادیا گیا ۔۔۔

سن 1977کےبعد ضیاء الحق نے وہی کیا جو ان سے پہلے آمروں نے کیا خود صدر بن گئے ملک میں 1985میں الیکشن کرادیا محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے اور ملک چلنا شروع ہوا یہاں تک کہ 1988میں جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں اللہ
جنرل ضیاء الحق 
کو پیارے ہوگئے اور جناب غلام اسحاق خان ملک کے صدر بنے اور عام انتخاب کا اعلان کیا گیا 1988کے الیکشن میں ذوالفقار بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں لیکن صرف ڈیڑھ سال تک کہ صدرغلا اسحاق خان میں جنرل سکندرمرزا کی روح گھس گئی اور انہوں نےپہلے بے نظیر کو پھر نوازشریف کو چلتاکیا ۔۔بےنظیر نے 1993میں وزیراعظم بن کر غلام اسحاق خان سے چھٹکاراپایا اور اپنی ہی پارٹی کے فاروق احمد لغاری کو ایوان صدر کےلیے منتخب کیا لیکن انجام پھر  ویسا ہی ہوا،لغاری نےبےنظیرکی اسمبلی توڑڈالی ۔1997میں نوازشریف نے دوبارہ وزیراعظم بن کر دوتہائی اکثریت حاصل کی تو انہوں نے سب سے پہلے فاروق لغاری سے چھٹکاراحاصل کیا اور اپنے وفادار رفیق تارڑ کو صدر بنادیا نوازشریف ایوان صدر سے تو مطمئن ہوگئے لیکن آرمی سے محفوظ نہ رہ سکے اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے دوتہائی اکثریت کو ہوا میں ہوتے ہوئے ٹھوکرسےاڑادیا۔ملک میں دوتہائی اکثریت کی حکومت پرقبضہ ہورہاتھااور عوام مٹھائیاں بانٹ رہےتھے ہم پھر بھی شکوے کرتے ہیں کہ آرمی مارشل لاء لگاتی ہے؟

پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد 2002میں الیکشن ہوئے مارشل لاء ڈکٹیٹر
جنرل پرویز مشرف
حسب روایت صدر پاکستان بنا ۔2008میں پاکستان کی کسی بھی اسمبلی نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ۔2008کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو جیت ملی ذوالفقار بھٹو کے داماد آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہوئے جنہوں نے پانچ سالہ مدت پوری کی ۔2013میں نوازشریف برسراقتدار آئے تو انہوں نے 1999میں اپنی حکومت ختم کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے خلاف  غداری کا مقدمہ چلانے کی جرات تو کی لیکن اسے تکمیل تک پہنچانے کی ہمت ان میں نہیں ہے ۔مقدمے کا جو حال کردیا گیا ہے اس سے ایسے لگتاہے کہ کہانی ختم ہی سمجھو۔۔اس وقت ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے لیکن عملی طورپر فوجی سربراہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہے اور منتخب حکومت کو اس گاڑی کا کنڈیکٹرہونے کا حق بھی کبھی کبھار ہی حاصل ہوتا ہے ۔دفاع اور خارجہ امورمنتخب حکومت کے پاس نہیں ہے ۔اوبامہ کے دورہ بھارت کے موقع پر آرمی چیف کو چین بھیج کر ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے بڑا کراراجواب دیاہے بھارت کو۔۔۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف دورہ چین کے موقع پر
اگر پاکستان کی 67سالہ تاریخ پڑھنے کے بعد بھی ہمیں اس بات پر غصہ آرہا ہےکہ امریکی صدر نے بھارت کو پاکستان پر فوقیت کیوں دی ہے؟اوباما دومرتبہ بھارت کا دورہ کرچکے ہیں اور پاکستان ایک بار بھی نہ آکر انہوں نے ہماری کوئی حق تلفی وغیرہ کی ہے تو پھر ہم سب کےلیے اتناہی ہے کہ دوسروں کو اپنی شرائط منوانے کےلیے جمہوریت کاتسلسل قائم رکھنا پڑتا ہے ،ملک میں ایک بار بنائے گئے آئین کی سب کو پاسداری کرنا پڑتی ہے منتخب حکومتوں کا احترام سب پر لازم اورفوج کو رئیل اسٹیٹ جیسے کاروبار اور سیاست سے دوررہنے کی عادتیں ڈالنا پڑتی ہیں۔۔اگر ہم یہ سب کرلیں تو پھر ہمیں نہیں دوسرے ممالک کے سربراہوں کو پاکستان کا دورہ کرنے کی درخواستیں کرنا پڑیں گی۔۔کیا ہم ایسا کرسکتےہیں؟؟؟؟

No comments: