Wednesday, February 11, 2015

KE AND GOVT RIFT OVER 650MW POWER ISSUE


کیاکراچی کوواپڈاسےبجلی ملنی چاہیئے؟

پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور(2009) میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی پرائیوٹ کمپنی کے الیکٹرک اور واپڈا کے درمیان 5سال تک بجلی خریدنے کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت کراچی الیکٹرک کو لیسکو ،فیسکو کی ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی کا درجہ دیا گیا ۔اس معاہدے کے مطابق کراچی الیکٹرک اپنے تمام ترذرائع استعمال کرتے ہوئے بجلی پیدا کرکے اپنے صارفین کو فراہم کرے گا اور اگر کوئی کمی رہ
جائے تو650میگاواٹ تک بجلی واپڈا سے لےسکے گا۔اس کی مقدار 650میگاواٹ سے کسی صورت زیادہ نہیں ہوسکے گی لیکن کے ای کو ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جن سے واپڈا پر انحصار کم سے کم اور بتدریج ختم کیا جائےگا۔

کے ای کو واپڈا سے لی گئی بجلی بغیر کسی محنت اور پنے پلانٹ چلائے سستی ملتی تھی اس لیے اس نے اپنی جنریشن کم رکھی اور ہر حال میں 650میگاواٹ بجلی حکومت سے سستی لے کر کراچی کے شہریوں کو مہنگی بیچنے کا عمل جاری رکھا۔جب تین سال پہلے لوڈشیڈنگ نے ملک کا براحال کیا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو گالیاں دی جانے لگیں تو زرداری حکومت نے اس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔جس کا مطلب تھاکہ کے ای اپنے پلانٹ چلا کر ضرورت پوری کرے جو کے ای کو کبھی بھی منظور نہ تھا اس لیے فوری طورپر کراچی کے شہریوں اور تاجروں سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کرائی گئی اور عدالتیں تو آپ کو پتہ ہی ہے سٹے دینا اپنا فرض خیال کرتی ہیں اس کے بعد مقدمہ جائے بھاڑ میں ۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا سندھ ہائی کورٹ نے حکومتکو معاہدہ منسوخ کرنے سے روک دیا اور پھر کبھی اس کیس کی سماعت نہ ہوئی پانچ سال کا معاہدہ ختم ہوگیا لیکن وہ اسٹے آرڈر آج بھی جاری ہے ۔
واپڈا اور کے ای کے درمیان 5سالہ معاہدہ 25جنوری کو ختم ہوگیا ہے لیکن کراچی کو نیشنل گریڈ سے 650میگاواٹ بجلی کی فراہمی جاری ہے ۔موجودہ حکومت کراچی کوپہلی شرائط پر بجلی فراہم نہیں کرنا چاہتی لیکن سندھ حکومت،ایم کیوایم اور کے ای کے مالکان جو عرب امارت سے تعلق رکھتے ہیں ان کےدباؤ پر انکار بھی نہیں کرپارہی یوں معاملہ درمیان میں ہی ہے۔

ریکارڈ کے مطابق کے الیکٹرک کی انسٹالڈ جنریشن کپیسٹی 2416میگاواٹ ہے پلانٹس کو 2093میگاواٹ کی پروڈکشن پر چلایاجاسکتا اس کے ساتھ ساتھ کے ای آئی پی پیز سے 363میگاواٹ بجلی حاصل کرتی ہے یوں اس کے پاس 2456میگاواٹ بجلی شہریوں کودینے  کی صلاحیت ہے اگر نیشنل گرڈ سے لی گئی بجلی بھی جمع کریں تو یہ مقدار3ہزار میگاواٹ سے زائد بن جاتی ہے اور کراچی کی ضرورت 2ہزار کے قریب ہے ( اس میں بھی اختلاف ہے کے ای کاکہناہے کہ کراچی کو 3ہزار میگاواٹ کی ضرورت ہےجبکہ واپڈا کے مطابق کراچی کی ضرورت2ہزامیگاواٹ کے قریب ہے)

میں نے وزیرمملکت پانی وبجلی عابد شیر علی سے بات کی تو ان کا کہناتھا کہ حکومت پر کسی کا دباؤ نہیں ہے سابق حکومت نے کے ای سے معاہدہ کرتے ہوئے ملکی مفادات کا خیال نہیں رکھا تھا ہم یہ خیال رکھیں گے اور پرانی شرائط پر کبھی بھی معاہدہ نہیں ہوگا۔دوسری طرف کے ای کے ترجمان احمد فراز سے بات کی تو ان کا کہناتھا کہ یہ حقیقت ہے کہ پلانٹس کی پبجلی پیدا کرنےکی صلاحیت 24سوکے قریب ہے لیکن یہ پلانٹ اب بوڑھے ہوچکے ہیں اور بڑی مشکل سے 16سوکے قریب ہے جو ناکافی ہے اگر واپڈا کی بجلی ہمارے سسٹم سے نکل گئی تو کراچی اندھیروں میں ڈوب جائےگا۔

اگر ریکارڈ اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحت دیکھی جائے تو کے ای کاواپڈا سے بجلی کا مطالبہ لالچ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اگر کے ای پرائیوٹ ادارہ ہے اور بجلی اپنی قیمت پر کراچی کے شہریوں کوفراہم کرتاہے تو پھر اسے بجلی پیدا کرنے کےلیے اپنے ذرائع پر انحصار کرنا چاہیئے اور واپڈا کی اگر اپنی ضرورت ہی پوری نہیں ہوتی اور ملک میں لوڈشیڈنگ کا جوحال سردیوں میں ہے گرمیوں میں جو ہوگا اس کے پیش نظر اگر واپڈا یہ بجلی کراچی کو نہیں دینا چاہتاتو یہ اس کا حق ہے ۔لیکن پاکستان میں اصول صرف بے اصولی کرنے کےلیے بنائے جاتے ہیں کے ای کے پیچھے کون کون ہے یہ جان کر تو یہی لگتاہے کہ حکومت گھٹنے ٹیک دے گی اور کے ای اپنا منافع بڑھانے کےلیے نیشنل گریڈ سے 650میگاواٹ بجلی ہر حال میں حاصل کرلےگا۔


No comments: