Sunday, November 23, 2014

PAKISTANI POLITICS AND REAL ISSUES

حقیقی مسائل پر پاپولرسیاست

پاکستانی قوم اور اس پر حکومت کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظرہی نہیں آتا۔۔اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ ہم کسی مسئلے کو اس وقت ہی دیکھتے ہیں جب وہ ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوکر چنگھاڑناشروع کردیتاہے کہ میں مسئلہ ہوں میراجگاڑکیے بغیر اب آگےبڑھنا ممکن نہیں ۔دوسرا یہ کہ ہماری ناک کے سامنے مسائل کا اتنابڑا ہجوم ہے کہ مزید کسی چیز کے دکھائی دیکھنے
کی جگہ ہی  نہیں بچتی۔۔

ملک میں ہرطرف گورنس ٹی اسکرینوں کے ذریعے کی جارہی ہے،ٹی وی کی مانیٹرنگ کےلیے اتنے لوگ شاید ٹی وی اور اخبارات کے نیوزروم میں نہ ہوں جتنے حکومتوں نے نوٹس لینے کےلیے خبروں کی مانیٹرنگ کےلیے افراد بھرتی کررکھے ہیں۔سرگودھا،فیصل آباد،وہاڑی میں بچوں کی اموات اگر ٹی وی
خبروں میں نہ آتیں توکوئی نوٹس نہ لیاجاتا،تھرکی سسکتی زندگی اگر آج ٹی وی اسکرینوں سے غائب ہوجائے تو تھر میں دودھ اور شہد کی نہروں کوکوئی روک نہیں سکتا۔قائد اگر خود کمزور ہوتواسے اپنی کمزوریوں کو چھپانے کےلیےاپنے سامنے والوں کو ناکامی کا ذمہ داربناکرپیش کرنا پڑتاہے۔سرگودھا میں ہلاکتوں کا ذمہ دار اس اسپتال کے ایم ایس کو ٹھہراکر معطل کردیا گیا لیکن کوئی اس بات کا جواب دے گا کہ اسی ایم ایس نے اسپتال میں 51ڈاکٹروں اور 30نرسوں کی خالی آسامیوں کےلیے3ماہ پہلے سے وزیراعلیٰ پنجاب کو درخواست لکھ کر بھجوائی ہوئی ہے وہ سمری شہبازشریف کی ٹیبل پرہے۔وزیراعلیٰ پنجاب ایم ایس کومعطل کرنے سے پہلے اپنی ٹیبل پر پڑی اسی ایم ایس کی درخواست کو دیکھ لیتے توسب سے پہلے خود کو معطل کرتے۔پھراس ایم ایس کو بھی معطلی کا دکھ نہ ہوتا۔

تھرمیں قحط

تھر میں لوگ زہریلا پانی پی کر مررہے ہیں وہاں پر کھارے پانی کو میٹھا بنانےکےلیے آراوپلانٹ لگانے کےلیے 3ارب روپے خزانے سے نکالے گئے لیکن اس کام کےلیے جس کمپنی کاانتخاب کیا گیا وہ پیپلزپارٹی کے عہدیداروں کی ملکیت ہے جو اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کرپائی ،اس سال کے آخر میں 3سوپلانٹ مکمل کرناتھا لیکن صرف سو کے قریب پلانٹ لگائے جاسکے ہیں۔کوئی احتساب،کوئی جواب طلبی؟اگر سندھ حکومت نے قومی خزانے سے 3ارب روپے تھرپرلگانے کا ارادہ کرہی لیا توشفافیت برقراررکھنے میں کیا برائی تھی؟اگر شفافیت لے آئے حکمران توان پارٹیوں کاخرچ چلانے والے کمائیں گے کہاں سے ؟یہی وہ بیماری ہے جو ہمارےمعاشرے کو صحتمند ہونے نہیں دیتی۔حکمران اشرافیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حقیقی مسائل حل کرنے کےبجائے پاپولرپالیٹکس کوترجیح دیتے ہیں۔جس کے پاس اختیار نہیں ہے وہ نہ ہونے کا رونا روتے وقت گزاردیتاہے یا حکومت کےلیے مشکلات پیدا کرتاہے تاکہ وہ کہیں کچھ کرنے میں کامیاب ہی نہ ہوجائے اور جس کے پاس اختیار آتاہے وہ اس کے چھن جانے کے خوف سے بے وقوفیاں کرتاچلاجاتا ہے،پر کوئی ریاست کی قیمت پر اپنا قد بڑھانے کی پالیسی پر عمل کرتاہے اس میں کسی مولوی،ملا یا سیکولر لیڈرکااستثنیٰ نہیں سب برابر کے شریک ہیں۔جب تک حقیقی ترقی پرپاپولر ترقی ترجیح پاتی رہے گی ہم کبھی ترقی کرہی نہیں پائیں گے۔

جب تک صرف ووٹوں کاحصول اور ووٹ چھن جانے کا خوف پارٹی لیڈروں پر سوار رہے گا اس ملک کی تقدیر بدلنے کا کوئی ایجنڈا پورا نہیں ہوسکے گا۔جب سامعین کو دیکھتے ہوئے لیڈروں کے مؤقف بدلتے رہیں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے ،قومیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے نہیں مستقل قومی پالیسیوں سے ترقی کرتی ہیں۔
  


No comments: