Thursday, October 31, 2013

BOL BHAI


!بول بھائی

پاکستان کا باوا آدم واقعی ہی نرالاہے یہاں آپ جو سوچیں وہ کر سکتے ہیں ریاست اور قانون صرف اسی صورت راستے میں آتے ہیں اگر آپ ناکام ہو جائیں یا کمزور ہوں اگریہ دونوں علتیں  آپ میں نہیں ہیں تو پھربھلے آپ اپنا کاروبار کھڑا کرنے کے لئے کسی کا کاروبار تباہ کریں اس کے خلاف ریاستی مشینری استعمال کریں  جب سالوں بعد آپ کی حکومت ختم ہو تو عدالت خانانی اورکالیا کو یہ کہہ کر رہا کر دے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن افسوس کہ ان کے چار سال بغیر ثبوت کے سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے والے رحمان ملک اور آصف علی زرداری سے کوئی جواب طلبی نہیں کہ اگر وہ(خانانی اور کالیا) بے گناہ تھے تو ان کے کاروبار اور ذاتی زندگی تباہ کرنے کےذمہ دار کیوں بچ نکلے؟

یہاں آپ جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں جس کی چاہیں پینٹ (شلوار) اتاریں اور اگر آپ خیر سے میڈیا میں ہیں تو پھر آپ ان کاموں کےلیے مستند شخص ہیں۔ بےعزتی کا قانون موجود ہے لیکن کبھی بھی بات ہر جانے کے ایک بے ضرر سے نوٹس سےآگے نہیں بڑھتی۔

پاکستان کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس (جنگ گروپ) اور ایک وہ گروپ جو بڑا بننا چاہتا ہے (بول نیٹ ورک) کے درمیان کافی عرصے سے لڑائی جاری ہے۔ جنگ گروپ کا پاکستان میں بڑا ہونا کسی بھی دوسرے گروپ کو اچھا نہیں لگتا اور ظاہر ہے اس گروپ کوبھی یہ اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی اس سے بڑا ہو جائے۔ بات صرف اتنی ہے جو اب پاکستان کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی اوربھارتی شہری داؤد ابراہم تک پہنچا دی گئی ہے۔ ہندوستان کے ایک اخبار نے ایک کہانی لکھ ماری کہ آئی ایس آئی داؤد ابراہم نامی ڈان سے ملک کر پاکستان میں ایک ٹی وی چینل قائم کر ریا ہے یہ خبر بھارت کے حوالے سے بڑی قابل فہم ہے کہ بھارت کو صرف تین چیزوں سے ڈر لگتا ہے ان میں پہلے نمبر پر آئی ایس آئی، دوسرے پر حافظ سعید اور تیسرے نمبر پر داؤد ابراہیم۔ بول ٹی وی نے خبر کی تردید کی تو ہندوستان ٹائم نے معذرت کرتے ہوئے خبر کوویب سائٹ سےہٹا دیا بات یہاں ختم ہو جانا چاہیے تھے۔

میرے سمیت اس ملک کا ہرشہری مانتا ہے کہ آئی ایس آئی جس کا کہا گیاقومی مفاد ہوتاہےجب وہ کسی چیز کو قومی مفاد کے لفافے میں بند کر کےاسے نشرکرنےکےلیےبھجواتے ہیں تویہ بات لفافہ صحافیوں سے آگےبڑھ کر سیدھے مالک تک جاتی ہے اورجیسے وہ چاہے ویسے ہی چھپتی اور نشر ہوتی ہے۔ تو بقول شیخ رشید جب دودھ مل رہا ہو تو بھینس پالنے کی ضرورت کیاہے؟تو آئی ایس آئی سے اپنا چینل کھولنے جیسی فضول حرکت کی توقع کرنا واقعی فضول ہے۔
یہ لڑائی عوام تک اس وقت زیادہ شور سے پہنچی  جب ہفتہ پہلے اے آر والی پر مبشر لقمان صاحب نےاپنے شو میں اسٹاک مارکیٹ کے سٹہ کنگ عقیل کریم ڈھیڈی کو بٹھا کرعوام کو یہ بتایا کہ ہندوستان ٹائمز میں آئی ایس آئی کے خلاف یہ خبر دراصل جنگ گروپ کے مالک میر 
شکیل نے لگوائی ہے
 اس حرکت کے بعد میر شکیل کو غدار سے کم کسی صورت نہ پکارا جائے۔ انہوں نے اس کو ثابت کرنے کے لئے ہندوستان ٹائمز کی اس خبر کے حوالے سے ایک انٹرنل انکوائری کا حوالہ دیا جو اگلے دن پاکستان کے دوسرے بڑے میڈیا گروپ نے اشتہار کے طور پر شائع کی۔
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101999970&Issue=NP_LHE&Date=20131028
 اسے پڑھنے کے بعد صاف لگ رہا تھا کہ یہ ایک نام نہاد تحریر ہے اس انکوائری تحریر کا بنیادی مقصدیہ ثابت کرنا تھاکہ بھارتی اخبار کو یہ تحریر میر شکیل الرحمان نے اپنے سمدھی جہانگیر صدیقی کے ذریعے پہنچائی اور چھپوائی۔

 جہانگیر صدیقی کے ازلی دشمن عقیل کریم ڈھیڈی نے بیٹھتے ہی آئی ایس آئی کو بھول کر سیدھا جہانگیر صدیقی پر وار کیا کہ وہ اسٹاک شیئرز میں ہیرا پھیری کرواتے ہیں۔ پروگرام کے اینکر نے جہانگیر صدیقی اورسلطانہ صدیقی جو بہن بھائی ہیں، کے کاروباری تنازع کو ایسا رنگ دیا کہ سارے معاملے میں سلطانہ صدیقی ایک فرشتہ صفت خاتون ہیں اور شاید یہ کسی بھی خاندان میں پہلا کاروباری تنازع ہے جس میں ایک بھائی نے میر شکیل کے کہنے پر اپنی بہن پر ظلم کیا وہ یہ بات  گول کرگئے کہ اسٹاک مارکیٹ پر دس سال مشرف اور زرداری کے ساتھ راج کرنے والے عقیل کریم کو اسٹاک مارکیٹ میں نئے کھلاڑیوں کے آنے سے پریشانی  ہو رہی ہے اور وہ عزت بجانے کے لئے میڈٰیا میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اور یہ پیسا اب بول میں جا رہا ہے۔

بول نے اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے آئی ایس آئی اور اے آر وائی کے کندھے کا انتخاب کیا پاکستان جیسا ملک یہاں سب کچھ ممکن ہے لوگوں میں اتنی اخلاقی جرات کب آئے گی کہ وہ کم ازکم اپنا مقدمہ خود لڑ سکیں ۔اور خاص طورپر دوسروں کےلیے بولنے کانعرہ لگاکر مارکیٹ میں آنے کےلیے پرتولنے والا بول کیا کبھی خود اپنے لیے بھی بول سکے گا یا اپنے لیے کسی اور کا کندھا ہی استعمال کرےگا؟



No comments: