Friday, October 4, 2013

A Bitter Pill and Dron


کڑوی گولی اور امریکی ڈرون

حکمرانوں کو خوف خدارہا نہ عوام کااحساس
میڈیا کی پکاراور عوام کی للکار حکومت کےسامنے سب بیکار
جمہوری حکومت کی مہنگائی سیریز کی آج نئی قسط آگئی
کھانے پینے کی چیزوں اور گھریلواستعمال کی چیزوں پر دوفیصد اضافی ٹیکس لگادیاگیا۔

امریکا قبائلی علاقوں میں ڈرون مارتا ہے تو حکومت احتجاج کرتی ہے یہاں تک کہ ڈرون رکوانے کےلیے اقوام متحدہ میں جانے کی بات بھی کرتی ہے لیکن دوسری طرف بڑی بے رحمی سے  روز مہنگائی کے ڈرون پر ڈرون گراتے  جارہی ہے ،عوام احتجاج کرتے ہیں لیکن جیسے امریکا پر اڈرون کے خلاف احتجاج کو کچھ اثر نہیں ہوتا اسی طرح عوام کے احتجاج کاحکومت پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔

امریکا تو کہتاہے کہ وہ ڈرون میں دہشتگردوں کومارتا ہے  لیکن حکومت اپنے ہی عوام کی سانسیں بند 
کرنے پر تلی ہے۔

یکم اکتوبر اکوحکومت نے آئی ایم ایف سے کیا گیا وعدہ پوراکرتے ہوئے بجلی کے ایسے جھٹکے دیے کہ خداکی پناہ۔۔۔حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے وعدے تو پڑی ایمانداری سے پورے کررہی ہے لیکن الیکشن مہم میں عوام کو خوشحال بنانے کے وعدے بھولتی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ نے  بجلی بم کوڈی فیوزکرنے کی کوشش کی تو یہ کوشی بھی حکمرانوں سے برداشت نہ 
وئی اورحکومت نے نوٹی فیکیشن واپس لےکر نیپراکونیا جاری کرنے کا کہہ دیا
سپریم کورٹ میں جب ایک ہاتھ سے بجلی کی قیمت کم کرنےکاوعدہ کیا تو دوسرے ہاتھ سے کھانے پینے  گھریلو استعمال کی الیکٹرانکس اشیاء،فریج ،ریڈیو،ٹی وی سمیت پینٹ،وارنش اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر  دو فیصد اضافی سیلزٹیکس لگادیا۔

حکومتی ماہرین نے عوام کی جیبیں خالی اور حکومتی خزانہ بھرنے کی ایک  اور ترکیب یہ نکالی کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں استعمال ہونے والی بجلی پر بھی سترہ فیصد سیلزٹیکس لگادیاگیا۔عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبی جارہی ہے اور حکومت کے پاس اس مہنگائی کاکوئی جواز نہیں ۔کوئی حکومتی اہلکار عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کوتیار نہیں ۔حکومتی ترجمان تو یہ کہہ کر زخموں پر مزید نمک چھڑک رہے ہیں کہ یہ کڑوی گولی عوام کو کھانا ہی پڑے گی۔۔

عوام پوچھتے ہیں یہ کڑوی گولی کیا صرف انہی کےلیے ایجاد ہوئی ہے کیا حکمران اس میں حصہ دار نہیں ہیں۔بجلی مہنگی  ہویا پٹرول اس میں عوام کا کوئی قصور نہیں یہ سب حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں ۔۔کی وجہ سے ہے لیکن قیمت آپ اور ہم اداکررہے ہیں۔۔۔ہوشیار رہیں ابھی کڑوے گولے بھی آئیں گے۔۔


No comments: