Wednesday, October 9, 2013

A CULPRIT INK

مجرم سیاہی


نادرا نے کراچی کے حلقہ دو سو چھپن میں انگوٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق کی رپورٹ جاری کی تو یوں لگا کہ ملک میں سیاسی بم پھٹ گیا ہو۔۔۔الیکشن میں دھاندلی کاشور بلند ہونے لگا۔۔

اس رپورٹ کے بعد ملک میں پورے الیکشن کے مشکوک ہونے پر کئی سوال کھڑے کردیے گئے۔تحریک انصاف کوتونئی لائف لائن ملنے کی امید پیدا ہوگئی۔ کراچی میں ایم کیوایم مینڈیٹ کو بھی شک کی نظر دیکھا جانے لگا۔اس معاملے میں وفاقی وزیر اطلاعات کودے توانہوں نے کہا کہ دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ سارا قصور اس سیاہی کا ہے جس کی وجہ سے ساٹھ ہزار سے زائد ووٹوں کی تصدیق ہی نہیں ہوسکی۔۔

ایم کیوایم کے لیے یہ خبر نہایت اچھی ثابت ہوئی کہ قصور کسی اور کا نہیں بلکہ سیاہی کاہے۔اس طرح سارا ملبہ الیکشن کمیشن پر آگرا۔

الیکشن کمیشن نے اس سارے معاملے کو کافی ہلکا لیا اور کہہ دیا کہ سیاہی سے کیا فرق پڑتاہے۔بات مقناطیسی سیاہی کا ہو یاپھرغیرتربیت یافتہ عملے کا ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہی بنتاہے ۔۔کراچی کے دوحلقوں این اے دوسو اٹھاون اور دو سو چھپن میں نادرا کی رپورٹ کےبعد بہت سے سوال جواب طلب ہیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کراچی جیسے حساس شہر میں جہاں فوج اور رینجرزتک کی خدمات لی گئیں وہاں مقناطیسی سیاہی کیوں مہیا نہ کی گئی؟

الیکشن کمیشن کا یہ مؤقف مان لیاجائے کہ سیاسی فراہم کردی گئی تھی لیکن استعمال نہ کی گئی ۔اس صورت میں استعمال کویقینی بنانا کس کی ذمہ داری تھی؟

الیکشن کمیشن کا عملہ غیرتربیت یافتہ تھا تو اس کی تربیت کس کی ذمہ داری تھی؟

اگر پولنگ اسٹیشنز پر موجود عملے نے جان بوجھ کر مقناطیسی کے بجائے دوسری سیاہی استعمال کی تو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟

اگر تصدیق کےلیے مقناطیسی سیاہی ہی ضروری ہے تو نادرانے چھ ہزار سے زائد ووٹوں کی انگوٹھے کے نشان سے تصدیق کیسے کی؟


سب سے اہم سوال کہ غیر تصدیق شدہ ووٹوں کی حیثیت کیاہے؟کیا ان ساٹھ ہزار ووٹوں کو جعلی کہا جاسکےگایاپھر یہ غیر تصدیق شدہ ووٹ اصلی ہی رہیں گے؟

No comments: